مفتی اظہار مکرم قاسمی
کسی بھی جمہوری ملک میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتی ہے۔ اسی جمہوریت کا ایک حصہ الیکشن ہے، جس میں ملک کے عوام اپنے لئے اپنی پسند کے نمائندہ منتخب کرتے ہیں ،جو پارلیمنٹ میں ان کے نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں اور ملک کے سیاہ و سپید کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ عوام ہی کے ووٹ سے حکومت بنتی بھی ہے تو گرتی بھی ہے۔ مذہب اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ووٹ کے بارے میں بھی اسلام کے اصولی احکام سے ہمیں روشنی ملتی ہے جب کوئی شخص انتخاب میں امیدوار بنتا ہے تو وہ بنیادی طور پر دو باتوں کا مدعی ہے، ایک اپنی امانت و دیانت کا دوسرے اپنی اہلیت اور صلاحیت کا۔ حفاظت و نگہبانی اسی شخص کے حوالے ہوتی ہے جو دیانت دار اور امین ہو جو شخص خود ہی خیانت اور بد دیانتی ہو وہ کیا حفاظت اور نگرانی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے؟ ووٹ رائے دہندوں کی طرف سے اس کے دعویٰ کی تصدیق اور اس کے راست گو ہونے کی گواہی ہے۔ گویا آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ جتنے امیدوار آپ کے اس حلقے سے کھڑے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ دیانت دار اور باصلاحیت ہے اور معلوم ہے کہ جہاں سچی گواہی انسان کے لئے اجر و ثواب کا موجب ہے وہیں جھوٹی گواہی اسی قدر عذاب وعقاب کا سبب ہے۔ ووٹ دینا اور اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کرنا جہاں قومی فریضہ ہے۔ وہیں مسلمانوں کے لئے مذہبی فریضہ بھی ہے۔
اس لئے اپنے ووٹ کو کسی بھی طرح کی جذباتیت، کسی ذاتی مفاد، کسی برادری ازم، کسی علاقائی و لسانی تعصب کی بنیاد پر ہرگز ہرگز برباد مت ہونے دیں بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ کر پورے شعور کے ساتھ، ہر طرح سے موازنہ کر کے اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی استعمال کریں۔ گواہی سفارش اور وکالت ایک ایسا عمل ہے جس کا اثر صرف اس کی ذات یا اس جیسے اشخاص تک محدود نہیں بلکہ اس کی منفعت اور مضرت اجتماعی ہوگی اور پوری قوم اس سے متاثر ہوگی کسی شخص کو انفرادی نقصان پہنچانا کمتر درجہ کا گناہ ہے اور اجتماعی سطح پر ضرر پہنچانا یا اس میں شریک ہونا بہت بڑا گناہ۔ اس لئے ہر مسلمان کا شرعی اور اسلامی فریضہ ہے کہ وہ ان پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نسبتاً بہتر دیانت دار قوم و ملک کے حق میں مفید اور خیر خواہ امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کو استعمال کریںاور ذاتی تعلقات اور شخصی مفاد کے مقابلہ قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنے اور اپنے گھروالوں اور پڑوسیوں کے ووٹ کا درست استعمال کرنا کروانا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔عام طور پر ہم لوگ ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی شرعی حیثیت سے لاعلمی کی بناءپر اس کو ایسے افراد کے حق میں استعمال کرڈالتے ہیں جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں ہوتے ہیں، جس کا خمیازہ ہم لوگ اگلے پانچ سالوں تک اسی دنیا میں بھگتتے رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی و شرعی حیثیت کو جان کر اس کا صحیح استعمال کریں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے، ووٹ دینے والا اس شخص کے متعلق جس کو وہ اپنا بیش قیمت ووٹ دے رہا ہے اس بات کی شہادت اور گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے ہر طرح لائق ہے، اور اس میں اس منصب کی قابلیت موجود ہے اور یہ شخص لیاقت و قابلیت کے ساتھ ساتھ امانت دار و دیانت دار بھی ہے۔ اگر بالفرض وہ نمائندہ اہل نہ ہو، یا اس میں اس کام کی قابلیت و اہلیت نہ ہو، یا وہ امانت دار و دیانت دار نہ ہو، اور ووٹ دینے والا ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی اگر اس کو ووٹ دیتا ہے تو گویا وہ جھوٹی شہادت دے رہا ہے، اور جھوٹی گواہی یا شہادت کی قباحت و شناعت اور شریعت کی نظر میں یہ عمل صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ووٹر حضرات کو چاہئے کہ اپنا بیش قیمت ووٹ دینے سے قبل اپنے ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو خوب اچھی طرح سمجھ کر کسی کو اپنا ووٹ دیں۔ خود غرضی، عارضی مفادات، قرابت و تعلقات، دوستانہ مراسم یا کسی کی غنڈہ گردی کے ڈر و خوف کی وجہ سے جھوٹی شہادت جیسے حرام اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔
آج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر ہی شریک ہوکر ووٹ کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعووں کی دکان سجاتے، وعدوں کا نیا جال بنتے اور عوام کو اُس میں پھنسالیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاشبہ بہترین طرزِ حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ تمام پسماندہ، کمزور، دلت اور حاشیہ پر دھکیلے جانے والے افراد کے ووٹ کی وہی اہمیت ہے کسی وزیر یا ایم پی یا کسی مالدار شخص ہوتی ہے۔ ووٹ دینے والے بھی اکثر یہی لوگ ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مسائل کا سامنا بھی انہیں طبقوں کو کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں ووٹ کے لئے امیدواروں کے انتخاب میں مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ان کی سوچ وہی ہو عام لوگوں کی ہے،زمانہ جس رُخ پر چل رہا ہو،اسی رخ پر پڑنا، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنا تعلقات اور شخصی مفادات کی بناء پر امیدوار کا انتخاب کرنا،ان کو ووٹ دینا اور دلانا، ان کی تشہیر کرنا، ان کی پروپیگنڈہ مشنری میں شریک ہونا، کیا مسلمانوں کے لئے بھی درست ہوسکتا ہے؟ یا بہتر امیدوار کا انتخاب مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے؟ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور کرنا اور ملحوظ رکھنا بحیثیت مسلمان ہمارے ضروری ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ اچھے امیدوار کا انتخاب اور اس کی تائید اور نامناسب اور نااہل امیدوار کو رد کردینا اور اس کے عدمِ تعاون ایک دینی اور شرعی فریضہ ہے،کیونکہ کہ قرآن مجید نے ایک اصولی بات کہہ دی ہے کہ اچھی بات اور اچھے کام میں تعاون بھی ضروری ہے اور خراب کام میں عدمِ تعاون واجب ہے۔اس لئے موجودہ حالات میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے امید وار کو ووٹ دیا جائے،جو ملک کی مختلف اکائیوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہو، فرقہ پرست نہ ہو اور نسبتاً صالح کردار کا حامل ہو،وہ کم از کم دوشر میں سے کمتر درجہ کا شر ہو۔