دین کے نام پر فصل کی قربانی ۔۔۔۔۔ صحیح یا غلط؟ 

  محمد انظر حسین قاسمی

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے تمام مخلوقات سے زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے،جن میں جان، مال اور اولاد سب سے اہم نعمتیں ہیں، پھر ہر انسان کو ان نعمتوں کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا ہے،اس کے لئے بہت سے احکام وقوانین نازل کئے ہیں، جن پر عمل کرکے انسان بحسن و خوبی ان نعمتوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے، لیکن ہمارے سماج میں ان نعمتوں کی حفاظت کا مزاج کم ہوتا جا رہا ہے،نہ تو ہم ان احکام و قوانین سے پوری طرح واقف ہیں،نہ ہی ان پر عمل پیرا ہیں، جس کا خمیازہ آج ہمارا پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔

  اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں آج کل جو جلسے اور اجتماعات ہوتے ہیں ان میں ذمہ دار حضرات یا تو شرعی احکام کی تحقیق نہیں کرتے یا پھر جان بوجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں، چنانچہ بارہا یہ دیکھا جاتا ہے کہ جلسوں اور اجتماعات کے لئے اچھی خاصی فصل کاٹ کر برباد کر دی جاتی ہے،اور اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: تم خیر کامل نہ پاسکو گے یہاں تک کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو! ’ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ‘ (آل عمران، ٩٤) حالانکہ اکثر زمین کے بہت سے مالک سےاس کی فصل میں تصرف کرنے کی انفرادی اجازت نہیں لی جاتی،بلکہ بعض زمین کے مالک سے بالکل اجازت ہی نہیں لی جاتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا دین کے نام پر اس طرح کی کارروائی کی شرعاً اجازت ہے؟

  درج ذیل تحریر میں اسی کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے ۔۔۔۔ اس سلسلے میں درج ذیل پہلؤوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے: ۔۔۔۔ راہِ خدا میں خرچ کرنے اور مال ضائع کرنے میں کیا فرق ہے؟ دوسروں کے مال میں تصرف کے احکام وشرائط کیا ہیں؟اور راہ خدا میں خرچ کرنے کی تفصیلات کیا ہیں؟

   شریعت کی روشنی میں انفاق کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال، وقت، محنت، تجربہ اور علم وغیرہ کو اس کی خوشنودی اور ثواب کے لئے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے! اس طرح کے انفاق کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اس کے واسطے اسے کئی گنا بڑھا دے اور اس کے لئے عزت کا ثواب ہے۔ ’ من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له وله أجر كريم ‘ ( سورہ حدید،١١) اور حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :اے ابنِ آدم! تم خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔ ’قال الله:أنفق يا ابن آدم ٱنفق عليك‘ (بخاری شریف، ١٦٦٤ ) معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ایک بڑا دینی کام ہے، اور اس کا اصل فائدہ دوسروں کو نہیں پہنچتا، بلکہ خرچ کرنے والے ہی کو پہنچتا ہے، کہ مال میں برکت ہوتی ہے، مال آفات سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے بدلے دنیا و آخرت میں بہتر ثواب ملتا ہے۔

  لیکن اسی کے ساتھ مذہب اسلام نے مال کو بقاء زندگی کا سامان قرار دیا، اس کو زندگی کا حسن اور زینت قرار دیا ہے، ارشاد خداوندی ہے: مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں ۔ ’ ألمال والبنون زينة الحياة الدنيا ‘ (سورہ کہف، ٤٦) اسی لئے انسان مال کمانے اوراس کو جمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، مگر بعض مواقع پر وہ اپنی محنت سے کمایا ہوا مال ضائع کردیتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا، ارشاد ہے: تم ناسمجھ لوگوں کو اپنے مال مت دو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بقاء زندگی کا سامان بنایا ہے۔ ’ ولا تؤتوا السفهاء أموالكم التي جعل الله لكم قياما ‘ (سورہ نساء، ٤) دوسری جگہ ارشاد ہے: اور تم بیجا خرچ نہ کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو بیجا خرچ کرنے والے پسند نہیں ہیں۔ ’ ولا تسرفوا إنه لايحب المسرفين ‘(سورہ بنی انعام، ١٤) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کےمال اس نیت سے لے کہ وہ اسے واپس کردیگا تو اللہ تعالی اس کے لئے واپسی کا بندوبست کردیتا ہے، اور جو شخص کسی کا مال ضائع کرنے کی نیت سے لے اللہ تعالیٰ اس کو برباد کر دیتا ہے۔ ’ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم من أخذ أموال الناس يريد أ داءها أدى الله عنه ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله ‘ (بخاری شریف، ٢٣٨٧) چنانچہ مذہب اسلام نے یہ واجب قرار دیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا مال ضائع کردے تو اس پر تاوان واجب ہے۔

    پتہ چلا مال اللہ کی بڑی نعمت ہے،اس کی حفاظت ہر حال میں ضروری ہے ،اور کسی شخص کے لئے دوسرے کے مال کو اپنے ذاتی غرض کے لئے یا دین کے نام پر ضائع اور برباد کرنا جائز نہیں ہے۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور مال ضائع کرنے میں بڑا فرق ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مال سے کوئی صحیح کام لیا جائے! مثلاً انسانیت کے کام آئے،یا اس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے یا دین کی خدمت و حفاظت پر صرف کیا جائے! اور مال ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مال کو اس طرح برباد کردیا جائے کہ نہ اس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچ سکے، نہ اس سے دین کی کوئی خدمت ہوسکے! اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو فصل ضائع کرکے کھیت میں جلسہ یا اجتماع کرنا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہترین مال خرچ کرنے کانام دینا صحیح نہیں ہے،صحیح یہ ہے کہ یہ مال کو ضائع کردینا ہے، کیوں کہ یہ فصل بلا اجازت یا رسمی اجازت سے دین کے نام پر قربان کردی جاتی ہے، جس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوتا، اور دین کی خدمت تو وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ جس کام سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہواس سے دین کی خدمت نہیں ہوسکتی۔

  یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جن کھیتوں میں اس طرح کے جلسے اور اجتماعات ہوتے ہیں ان میں بہت سے کھیتوں کے مالک کے پاس گذارے کے لئے صرف انہیں کھیتوں کی فصل ہوتی ہے، ایسی صورت میں ان کی فصل کو جلسہ اور اجتماع کے نام پر قربان کرکے ان کے گذر بسر کا سہارا چھین لینا نہ عقل کی رو سے جائز ہے،نہ ہمارا دین و شریعت اس کی اجازت دیتا ہے۔اگر بالفرض زمین کے اسی متعین رقبہ پر جلسہ اور اجتماع کرنا ضروری ہے تو اس کی پلاننگ پہلے سے کی جائے اور اس کے لئے زمین کے تمام مالکان سے اجازت لی جائے تاکہ وہاں فصل نہ لگائی جائے، اور تیار کھیتی کسانوں کی محنت اور صرفہ سب ضائع ہونے سے بچ جائے، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ انہیں معاوضے کی پیشکش بھی کی جائے، جو لینا چاہیں وہ بلاتکلف لے سکیں اور جو نہ لینا چاہیں وہ بخوشی اجازت دے دیں!

 دوسروں کے مال میں تصرف کے احکام وشرائط!

   اس کے بعد اب یہ جاننا چاہئے کہ دوسروں کے مال کو استعمال کرنے یا اس میں تصرف کرنے سے متعلق شریعت کی ہدایات کیا ہیں؟ اس سلسلے میں اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کسی شخص کے مال کو استعمال کرنے کے لئے اس کی اجازت ضروری ہے،اور مال میں تصرف کرنے کے لئے تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ کسی شخص کے مال کو استعمال کرنے یا اس میں تصرف کرنے کی مختلف صورتیں ہیں (۱) مالک سے اجازت لی گئی اور مالک نے برضاء و رغبت اپنے مال کو استعمال کرنے یا اس میں تصرف کرنے کی صراحتاً اجازت دے دی یا دلالتاً اس کی اجازت معلوم ہے،اس صورت میں مالک کے مال کا استعمال قضاءً اور دیانتاً (قانوناً اور اللہ کے یہاں) دونوں اعتبار سے جائز ہوگا، اور مالک کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔

(۲) مالک سے استعمال یا تصرف کی اجازت لی گئی، لیکن برضاء و رغبت نہیں بلکہ مجبوراً، جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً مالک کو خوب ترغیب دی گئی جس کے نتیجے میں وہ خاموش رہا اور اس کی خاموشی اجازت سمجھ لی گئی، یا پھر اس پر مختلف لوگ مل کر دباؤ بنانے لگے جس سے اس نے گول مول الفاظ کے ذریعہ اجازت دی، جیسے اس نے کہا آپ لوگوں کو جو اچھا لگے وہ کیجئے! لیکن ظاہر ہے یہ برضاء و رغبت اجازت نہیں ہے،ایسی صورت میں قانوناً اس کے مال کا استعمال یا اس میں تصرف اگرچہ جائز ہوگا اور وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کرسکتا ہے، مگر مال استعمال کرنے والا یا اس میں تصرف کرنے والا اللہ کے یہاں ماخوذ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ ’ لا يحل لمال امرء إلاّ بطيب نفس منه ‘ (مشكاة المصابيح) لہذا اس اخروی مؤاخذہ سے بچنے کے لئے دیانتاً واجب ہے کہ اس کا معاوضہ دیا جائے، مثلاً اگر کسی کے کھیت میں فصل ہو اور اس کھیت کو اپنے کسی مصرف میں یا پھر کسی دینی ضرورت میں استعمال کرنے کے لئے فصل تیار ہونے سے پہلے مالک سے اس کو کاٹنے کی اجازت طلب کرے اور مالک بظاہر اجازت دے دے، لیکن اس کےکسی قول و عمل سے ناگواری ظاہر ہو تو دیانتا اس کا معاوضہ واجب ہوگا۔(۳) مالک سے صراحتاأ یا دلالتاً یا رسماً اجازت لئے بغیر اس کے مال کو استعمال کیا جائے یا اس میں تصرف کیا جائے تو یہ قانوناً اور دیانتاً دونوں اعتبار سے ناجائز ہوگا اور مالک کو اس کے استعمال کرنے والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا اور استعمال کرنے والا اللہ کے یہاں بھی ماخوذ ہوگا۔ مثلاأ کسی کھیت میں فصل ہو یا نہ ہو بہر حال اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کو کسی مصرف میں یا جلسہ اور اجتماع وغیرہ میں استعمال کرنا ناجائز ہے۔

  یہاں یہ مسئلہ سمجھنا ضروری ہے کہ کھیت کی منڈیر کو مالک اجازت اور موجودگی کے بغیر توڑنا جائز نہیں ہے، لہذا اس کے لئے الگ سے اجازت لینا ضروری ہے اور منڈیر توڑتے وقت مالک کا وہاں موجود رہنا بھی ضروری ہے، پس اگر مالک نے اجازت دے دی لیکن اس کی غیر موجودگی میں منڈیر توڑی گئی تو یہ جائز نہیں ہوگا۔

   راہ خدا میں خرچ کرنے کی تفصیلات

 قرآن وحدیث کی روشنی میں انفاق کے چار مراتب ہیں۔(١) انفاق فرض ۔۔۔ جیسے مال کی زکوٰۃ، اور یہ اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ (۲) انفاق واجب ۔۔۔۔ جیسے صدقۃ الفطر اور اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ۔ (۳) انفاق مستحب ۔۔۔۔ جیسے خویش و اقارب اور اپنے متعلقین کو ہدیہ، تحفہ دنیا، غرباء و مساکین کو صدقۃ دینا، یا رفاہی کاموں میں تعاون کرنا۔ (۴) انفاق افضل ۔۔۔ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں میں سے کچھ خیر کے مواقع پر خرچ کرنا۔ آیت ’ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ‘ (آل عمران،٩٤) میں اسی انفاق افضل کا ذکر ہے، چنانچہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے قاضی بیضاوی فرماتے ہیں : کہ تم نیکی کی حقیقت کو جو کہ کمال خیر ہے اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو خرچ نہ کرو! (تفسیر بیضاوی) اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کہ اے مسلمانو! تم خیر کامل (اعظم ثواب) کو کبھی نہیں حاصل کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی بہت پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کروگے، اور یوں جو کچھ بھی خرچ کروگے (گو غیر محبوب چیز ہو) اللہ تعالیٰ اس کو بھی خوب جانتے ہیں مطلق ثواب اس پر بھی دےدیں گے، لیکن کمال ثواب حاصل کرنے کا وہی طریقہ ہے، پھر آگے فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں: آیت سے معلوم ہوا کہ ثواب تو ہر خرچ کرنے سے ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں کی جائے، مگر زیادہ ثواب محبوب چیز کے خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔ (بیان القرآن،ج:٢،ص:٤٥٤) یہاں یہ خاص بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ آیت کریمہ میں مما تحبون ’ من ‘ کے ساتھ ارشاد ہوا ہے جس کا مطلب عربی گرامر کی رو سے یہ ہوتا ہے کہ جو مال تمہیں زیادہ پسند ہے اس میں سے کچھ خرچ کرو تب کمال خیر اور اعظم ثواب پاؤگے۔ یہ مطلب نہیں کہ جو مال تمہیں پسند ہے وہ سارا کا سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرو تب کمال خیر اور اعظم ثواب پاؤگے۔ اور اس کی تائید قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ارشادخداوندی ہے: لا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كل البسط فتقعد ملوما محسوراً (بنی اسرائیل،٢٩) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لینا چاہئے (کہ انتہائی بخل سے بالکل ہی ہاتھ روک لیا جائے) اور نہ بالکل کھول دینا چاہئے ( کہ فضول خرچ کیا جائے) ورنہ (پہلی صورت میں) لوگوں کی ملامت سننی پڑے گی اور (دوسری صورت میں)حسرت و افسوس جھیلنا پڑے گا۔ اس آیت کی شان نزول تفسیر روح المعانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لڑکا آیا، اور اس نے کہا میری ماں آپ سے فلاں فلاں چیز کا سوال کررہی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ آج تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لڑکے نے کہا: میری ماں نے کہا کہ آپ اپنی قمیص ہی مجھے دے دیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر لڑکے کو دے دی اور گھر میں افسردہ بیٹھ گئے۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (روح المعانی)

  ان آیات وروایات سے معلوم ہوا کہ آیت ’ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نیکی کا اعلی درجہ حاصل کرناچاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اور محبوب ترین شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بڑا ثواب ہے، لیکن یہ انفاق نہ تو فرض ہے اور نہ ہی واجب! اس لئے اس آیت کو کھیتوں اور فصلوں کو جلسوں اور اجتماعات کے لئے تباہ کرنے کے جواز پر دلیل بنانا صحیح نہیں ہے۔

خلاصۂ گفتگو

(۱) ۔۔۔۔ مال اللہ کی بڑی نعمت ہے،اس کی حفاظت ہر حال میں ضروری ہے!

(۲) ۔۔۔۔۔ انفاق فی سبیل اللہ اور مال ضائع کرنے میں فرق ہے،ہمیں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے!

(۳) ۔۔۔۔۔کسی شخص کے مال میں تصرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مالک سے اس کی اجازت لی جائے!

(۴) ۔۔۔۔ ’ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ‘ میں انفاق افضل کا ذکر ہے، فرض یا واجب کا نہیں ۔۔۔۔بعض مال کا ذکر ہے کل مال کا نہیں!

(۵) ۔۔۔۔ جلسوں اور اجتماعات کے لئے بے اجازت کسی کی فصل کاٹنا غلط ہے،اور غائبانے میں اس کے کھیت کی منڈیر توڑنا غلط ہے، اس کے لئے رسمی اجازت کافی نہیں ہے، بلکہ باقاعدہ اجازت لینا یا معاوضہ دیکر راضی کرنا ضروری ہے۔