مسلم رہنماؤں، تنظیموں اور کانگریس سے وابستہ لیڈروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ کانگریس پر دباؤ بناکر اسے بی جے پی کو فائدہ پہونچانے سے روکے
نئی دہلی: (ملت ٹائمز) آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی سربراہی والی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ [اے آئی یو ڈی ایف] نے سیکولر ووٹوں کو بکھرنے سے بچانے کے لئے ایک عظیم قربانی دیتے ہوئے آسام کی 14 پارلیمانی سیٹوں میں سے صرف 3 سیٹوں پر اپنے امیدار اتارنے کا اعلان کیا ہے اور باقی 11سیٹوں کو کانگریس کے لئے چھوڑ دیا ہے حالاں کہ فی الحال اے آئی یو ڈی ایف کی حیثیت کانگریس کے برابر ہے۔فی الحال لوک سبھا میں دونوں پارٹی سے تین تین ایم پی ہیں ۔مولانا اجمل نے اول دن سے اتحاد کرنے کی کوشش کی ، کانگریس کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے۔جب بھی مہا گٹھ بندھن کی کوئی میٹنگ ہوئی وہ وہاں موجود رہے۔ کانگریس کی مرکزی قیادت انہیں ہمیشہ یقین دہانی کراتی رہی کہ ان کی پارٹی سے اتحاد ہوگا مگر عین الیکشن کے وقت ریاستی لیڈروں کے بہکاوے میں آکر اتحاد سے مکر گئی ۔ان سب کے با وجود مولانا اجمل نے 14 میں سے صرف تین سیٹوں پراپنا امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا جبکہ ۱۱ سیٹیں کانگریس کیلئے چھوڑ دی ہے، پھر بھی کانگریس اپنی انا پر قائم ہے اور اے آئی یو ڈی ایف کے لئے تین سیٹیں بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔مولانا اجمل کے مطابق بی جے پی جیسی فرقہ پرست طاقت کو اقتدار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئےاور اس کے لئے جو بھی قربانی دینی پڑے اس کے لئےتمام سیکولر پارٹیوں کو تیار رہنا چاہئے۔اسی پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کے لئے اور فرقہ پرست جماعتوں کی جیت پر لگام لگانے کے لئے آسام کی صرف تین سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔اب سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹنے والی کانگریس کا امتحان ہے کہ وہ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ کیا وہ مولانا اجمل کی منتخب کر دہ تین سیٹوں کو ان کی پارٹی کے لئےچھوڑ کر ان کی قربانی کی قدر کرے گی یا پھر اپنی ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام 14سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی؟اگر کانگریس نے مولانا اجمل کی منتخب کردہ تین سیٹوں پر بھی اپنے امیدوار اتارنے کی غلطی کی تو یہ اس کے سیکولر چہرہ کے پیچھے چھپے اس کے فرقہ پرست چہرہ کو دنیا کے سامنے ایک بار پھر سے آشکارا کردے گا جو مسلم قیادت والی پارٹی کو کچلنا چاہتی ہے۔اسلئے کانگریس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ مولانا اجمل کی قربانی کی قدر کرتے ہوئے اپنے امید وار صرف ۱۱ سیٹوں پر اتارے اور اے آئی یو ڈی ایف کے خلاف تین سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا نہ کرے ورنہ تاریخ اسے معاف نہیں کرے گی۔
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں جب کانگریس کو صرف تین سیٹوں پر کامیابی ملی تھی تو اس نے کہا تھا کہ وہ اجمل کی وجہ سے ہار گئے۔ اسی طرح 2016 کے اسمبلی الیکشن میں جب کانگریس کو 2011 میں ملے 79 سیٹوں کے مقابلہ صرف 25 سیٹوں پر جیت ملی تب بھی کانگریسیوں نے ایک طرف تو خوشی منائی کہ بی جے پی آئی کوئی بات نہیں مگر اجمل کی پارٹی بھی زیادہ سیٹ نہیں لائی اس بات کا اطمینان ہے، اور دوسری طرف یہ افواہ پھیلادی کہ ہم تو اجمل صاحب کی اے آئی یو ڈی ایف کی وجہ سے ہار گئے، اور یہ بھی الزام عائد کیا کہ اے آئی یو ڈی ایف بی جے پی کی ایجنٹ ہے اور اس سے پیسہ لیکر کانگریس کو ہرایا ہے۔ اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ہمارے کچھ مسلم قائدین، تنظیموں کے ذمہ داران اور کانگریس کے خیر خواہوں نے بھی اس پر یقین کرکے مولانا اجمل کو ملامت کرنا شروع کر دیا اور آسام میں بی جے پی کی آمد کی وجہ انہیں کو قرار دیا جو سراسر بے بنیاد اور بہتان تھا۔مگر کیا کہیے گا ہماری قوم دوسری قوم کے لیڈروں پر تو آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتی ہے مگر اپنی قوم کے لیڈروں پر بھروسہ ک نہیں کرتی ہے اسی لئے تو ہمارا لیڈر آگے نہیں بڑھ پاتا ہے جبکہ دوسری قوم کے لیڈران آگے بڑھ جاتے ہیں۔مولانا اجمل صاحب نے اس لوک سبھا الیکشن میں اپنی پارٹی کے مضبوط کیڈر کے با وجود صرف تین سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارکر جو قربانی دی ہے اس اہمیت کو کانگریسی لیدران کو سمجھنا چاہئے۔اور ملی رہنماؤں، تنظیم کے ذمہ داروں اور کانگریس کے خیر خواہوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانگریس کی قیادت کو سیکولرزم کی حفاظت کے لئے اقدام کرنے پر آمادہ کریں اور کانگریس کو آسام میں مولانا اجمل کی پارٹی کے مقابل تین سیٹوں پر اپنے امیدوار نہ دینے کا دباؤ بنائے۔