بچوں کی اچھی تربیت ہوگی تو ہماری قوم اور ملک کا مستقبل اچھا ہوگا :مولانا شمیم اخترندوی

ہمارے بچے ہمارے مستقبل ہیں اگر یہ اچھے ہیں تو ہمارا ،ہماری قوم کا اور ہمارے ملک کا مستقبل اچھا ہے بصورت دیگر ہمارے بچوں کا کل آج سے کہیں زیادہ افسوسناک ہوگا ،اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ان کی قدر کرتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کی فکر کیجئے ،انکو اچھا دیندار، اچھا شہری اور کامیاب انسان بنائیے۔
یہی طفلان مکتب جن سے وابستہ ہیں مستقبل ۔انہیں ذروں کو چمکا کر شب مہتاب کرنا ہے
اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہاکہ عموما ہم لوگ ماں باپ کے حقوق کی باتیں اپنے اکابر علمائ سے سنتے رہتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اس روئے زمین پر اگر کسی کا سب سے زیادہ ہم پر حق ہے تو وہ ہمارے والدین ہیں۔قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ نے ماں باپ کے ساتھ بالخصوص ماں کے ساتھ حسن سلوک کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو،ان کو نہ جھڑکو بلکہ ان سے نرمی سے بات کرو،محبت و عقیدت کے بازو انکی خدمت کیلئے پھیلا دو اور اللہ سے یہ دعا کرو کہ یا الہ العالمین جس طرح انہوں نے بچپن میں ہمارے ساتھ شفقت و محبت کا برتاو کرتے ہوئے ہمارے پرورش کی یا مولی آپ بھی ان کے ساتھ اسی طرح رحم کا محبت کا شفقت کا معاملہ فرما یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہمیں قرآن و حدیث میں ماں باپ کے تعلق سے سکھاءگءہیں۔ اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے (آمین )
انہوں نے مزید کہاکہ آج مجھے بچوں کے حقوق آپ پر کیا ہیں اس تعلق سے باتیں کرنی ہے۔یاد رکھیں اوراچھی طرح یاد رکھیں کہ بچوں کے حقوق ان کے والدین پر پیدائش سے پہلے سے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ اسلئے کہ اگر والدین نیک ہونگے تو ان کے صلب و کوکھ سے جنم لینے والی اولاد بھی مطیع و فرمانبردار ہوگی ، ان العرق دساس (اصل کا اثر نسل پر پڑتا ہے )یہ ایک مسلہ حقیقت ہے۔اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح چار چیزوں کو پیش نظر رکھکر لوگ کرتے ہیں، مال کو ،حسن و جمال کو ،خاندان کو اور دینداری کو لیکن تم چاہئے کہ تم دینداری کو دیکھ کر نکاح کرو دنیا و آخرت دونوں جہاں میں کامیاب ہوجاوگے۔اس حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اپنی آنے والی نسل کیلئے اچھی دیندار بیوی کا انتخاب کیا جائے۔
میرے محترم بزرگوں
اولاد کی تربیت میں ماں کا رول کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے،باپ تو روزی روٹی کی تلاش میں جب صبح گھر سے نکلتا ہے تو بچے سورہے ہوتے ہیں اور جب رات کو تھکا ماندہ لوٹتا ہے تو اسوقت بھی بچے باپ کا انتظار کرکے سوچکے ہوتے ہیں الا ما شا۶ اللہ۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جتنے بھے اصحاب عزیمت ،سرخ رو ،کامیاب لوگ ملینگے ان کے پیچھے ماں کا خوبصورت کردار نظر آئیگا خواجہ شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ نظام الدین اولیائ اور سفیان ثوری اور ان جیسے بیشمار لوگوں کی زندگی شاھد عدل ہیں۔اسلئے بچوں کے کامیاب مستقبل کیلئے اچھی بیوی کا انتخاب نہایت ضروری ہے۔۔اسکے علاوہ اچھا نام رکھنا اچھی تربیت کرنا اچھی جگہ اولاد کا نکاح کرادینا یہ تو الحمدللہ ہم سب کو معلوم ہے۔
برادران اسلام
ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کس ڈھنگ سے کرنی ہے اس سلسلے میں بھی قرآن و سنت میں ہماری رہنمائی موجود ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے (ان کے پیغمبر ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے)اپنی اولاد کی تربیت کیلئے ایسا بہترین اسلوب اپنایا کہ اللہ کو بھی ان کی یہ ادا پسند آگءاور صبح قیامت تک کیلئے اسے قرآن کریم کا حصہ بنادیا تاکہ دنیا کا ہر ماں باپ درس عبرت حاصل کرسکے۔۔
سورہ لقمان کو آپ پڑھیں اور بار بار پڑھیں انشائ اللہ بہت نفع ہوگا۔ میں سورہ لقمان سے چند مثالیں پیش کردیتا ہوں
(۱ )لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اس لئے کہ شرک ظلم عظیم ہے۔یہاں حضرت لقمان نے اللہ کی وحدانیت کا سبق سکھایا جوکہ ایک مومن کیلئے خشت اول ہے اسکے بغیر ایمان لاحاصل ہے۔
(۲ )اے میرے بیٹے اگر راءکے دانے کے برابر نیکی یا بدی کسی پتھر کی تہ میں ہو یا آسمان کی بلندیوں پر یا زیر زمین اللہ اسے حاضر کردیگا ،اللہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔۔۔یہاں حضرت لقمان نے اپنے بچوں کو اللہ کی قدرت و طاقت کا سبق پڑھایا۔
(۳ )ایک جگہ فرمایا لوگوں سے منھ بناکر باتیں نہ کرو اور نہ زمین پر اکڑ کر چلو اسلئے کہ اللہ متکبر کو پسند نہیں فرماتا ہے۔۔یہاں اخلاق عالیہ کا سنہرا سبق ہم لوگوں کیلئے ہے۔
(۴ )ایک جگہ فرمایا گیا اپنی چال ڈھال ور اعمال میں میانہ روی اختیار کرواور اپنی آواز کو پست کرکے باتیں کیا کرو بیشک گدھے کی آواز بہت ناگوار ہوتی ہے۔
(۵ ) اے میرے بیٹے نماز قائم کرو ،بھلائی کا حکم دو اور براءسے روکو اور جوکچھ تکلیف تم کو پہونچے اس پر صبر کرو ،بیشک یہ بہت زبردست کام ہیں۔۔۔یہاں اگر ایک طرف اپنی ذات کو عمل سے متصف کرنے کی تلقین کی جارہی ہے تو دوسری طرف عام انسانوں کو خیر کی طرف بلانے اور شر سے روکنے کی دعوت دی جاری ہے اور اس طرح کے کاموں میں جو حالات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے اس سے بیزار ہوکر کام چھوڑ نے کے بجائے صبر کے دامن کو تھامنے کیلئے کہا جارہا ہے۔
یہ اور اس طرح کے بہت سارے اصول تربیت اولاد کیلئے ہمیں قرآن و سنت میں جگہ بجگہ ملتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا زید بن حارثہ کی تربیت کیلئے نرالا باب ہمارے لئے بہترین توشہ ہے۔
اللہ ہم سب کو قرآن و حدیث کی روشنی سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
میرے دینی بھائیوں!
ہم سبکو اپنی موت تک اپنی اولاد کے دین ،اسکے اخلاق کے تعلق سے فکرمندی کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے، جانوروں کا کام ہے بچے پیدا کرنا اور پھر دھیرے دھیرے بھول جانا ہم تو اشرف المخلوقات ہیں، ہمیں قدم قدم پر قرآن و سنت کے اصول کو زندگی کے ہر شعبے میں برتنا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ نے اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر اولاد کے تئیں ان کی فکرمندی کے ذیل میں بیان فرمایا ہے۔فرمایا کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنی ساری اولاد کو جمع کرکے فرمایا تم لوگ میرے بعد کس کی عبادت کروگے تو ساری اولاد نے بیک زبان فرمایا کہ آپ کے معبود اور آپ کے آبائ و اجداد ابراہیم، اسماعیل و اسحاق کےایک معبودبرحق کی عبادت کرینگے۔
اس واقعہ کو اللہ نے قرآن کریم میں جگہ دیکر صبح قیامت تک کے لئے سارے ماں باپ کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اپنی موت سے پہلے پہلے تک اپنی اولاد کے ایمان کی فکر ضرور کرتے رہا کریں۔آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ موت سے پہلے ہم لوگ اپنی اولاد کو دیگر بہت ساری وصیتیں ضرور کرتے ہیں۔ بیٹا فلاں سے میری دشمنی تھی میں تو بدلہ نہ لے سکا تم کو موقع ملے تو ضرور سبق سکھانا،کاروبار کے تعلق سے اور بھی دیگر غیر ضروری کاموں کے تعلق سے نصیحتیں یا وصیتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن ایمان و یقین کی تلقین اور حق پر ڈٹے رہنے کی ہدایت دینا بھول جاتے ہیں۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحم?اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میری تو یہ خواہش ہے کہ حضرت لقمان کے اس واقعہ کی تختی بناکر ہر مسلمان اپنے اپنے سرہانے میں رکھے تاکہ صبح و شام اپنی اپنی اولاد کے ایمان کی فکر دامن گیر رہے۔۔
مولانا مرحوم فرماتے تھے کہ آگے آنے والا دور الحاد و دھریت کا دورہوگا اسلئے ہرمسلمان اپنے بچوں کے ایمان کی فکر پہلی فرصت میں کرے۔
میرے دوستوں!
آج ہمارے بچوں کی صورتحال یہ ہے کہ زنار کاری، بدکاری، بے حیائ، دھوکے بازی، جھوٹ و فریب ،نکڑبازی اور نہ جانے کن کن برائیوں میں ہمارے بچے ملوث پائے جاتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل،ہماری قوم کا مستقبل، ہمارے ملک کا مستقبل روشن ہو تو ہمیں اپنے گھر، گلی، اسکول اور بچوں کے دوستوں کے ماحول پر گھری نظر رکھنی ہوگی۔
میرے بھائیو!
اپنے بچوں کو وقت دیجئے،ان کو کبھی اللہ کی وحدانیت، قدرت ،ربوبیت کا قصہ سنائیے۔نبی کی محبت اور اپنی امت کیلئے ان کی فکر مندی کا سبق پڑھائیے ،صحابہ کے واقعات ان کی قربانی کا تذکرہ ان کے سامنے کیجئے۔دین کی محنت کے تعلق سے اولیائ ،علمائ کی محنتوں اور کوششوں کو بتائیے۔آج ہمارے گھروں میں دن رات دنیا کے تو تذکرے ہوتے لیکن ان باتوں کا تذکرہ نہیں ہوتا تو بتائیں ہماری نسل کیسے اچھی تیار ہوگی۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے
(وما علینا الا البلاغ)
(مولانا شمیم اختر ندوی نوجوان عالم دین اور ممبئی کے ہر دلعزیز خطیب ہیں ۔ جمعیت علماءہند سمیت متعدد تنظیموں سے ان کی وابستگی ہے ۔اس کے علاوہ جامعہ الابرار وسئی روڈ ممبئی کے وہ مہتمم بھی ہیں ۔ مذکورہ خطاب انہوں نے گذشتہ 5 اپریل کو عرب مسجد مدن پورہ ممبئی میں جمعہ کی نماز سے قبل کیا ۔ اہم بیان ہونے کی وجہ سے قارئین کی خدمت میں ملت ٹائمز نے یہ تقریر یہاں شائع کی ہے)