انتخابی منشور اور مسلمان

خبر در خبر (608)
شمس تبریز قاسمی
پہلے مرحلے کی انتخابی مہم آج مکمل ہوگئی ہے ۔ 11 اپریل سے ووٹنگ کی شروعات ہوجائے گی ۔تمام سیاسی پارٹیوں کا انتخابی منشور جاری ہوچکاہے ۔ کانگریس کا انتخابی منشور سب سے زیادہ موضوع بحث ہے کیوں کہ اس میں کسانوں ،غریبوں ،نوجوانوں اور بے روزگاروں کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ 72 ہزار روپنے دینے کی بات تقریبا گھر گھرتک پہونچ گئی ہے ۔ بی جے پی نے بہت دیر سے اپنا انتخابی منشور جاری کیا لیکن اس میں کوئی تازہ جوش نظر نہیں آیا ۔ اپنی ناکامیوں کو کامیابی شمار کرایا ۔کچھ غلط حقائق پیش کیا اور شدت پسندو ہندﺅوں کو ووٹ حاصل کرنے کیلئے 2014 کی طرح اس مرتبہ بھی رام مندر کی تعمیر ، یکساں سو ل کوڈ ، آرٹیکل 35اے اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ۔گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بی جے پی نے خود اپنے عمل سے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ سب کسی بھی حکومت کیلئے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اسے سرکار عملی جامہ پہنا سکتی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کے ووٹرس 2014 کے طرح 2019 میں بھی بے وقوف بن جاتے ہیں اور بی جے پی کامیاب ہوجاتی ہے یا پانچ سالوں کے دوران بی جے پی کے وعدوں اور جملوں کاانہیں احساس ہوگیا ہے جس سے وہ سبق لینے کی کوشش کریں گے ۔
مذکورہ دونوں پارٹیوں کے علاوہ آر جے ڈی ،ٹی ایم سی ، ایس پی ،بی ایس پی سمیت سبھی پارٹیوں کاانتخابی منشور آچکاہے ۔ تمام منشوروں کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ مسلمانوں کو سرے سے نظر انداز کیاگیاہے ۔پہلے ایسا ہوتاتھا کہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے لمبے چورے وعدے کیا کرتی تھیں ۔ ہر ممکن انہیں لبھانے کی کوشش کرتی تھی ہر چندکہ کسی ایک وعدہ کی بھی تکمیل نہیں ہوتی تھی تاہم وقتی طور پر مسلمان خوش ہوجاتے تھے ۔ تالیاں بجالیتے تھے ۔کسی کو ووٹ دینے اور نہ دینے کا راستہ صاف ہوجاتاتھا لیکن 2019 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کی یہ حیثیت بھی ختم ہوگئی ہے ۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے پرکشش وعدے کسانوں ،دلتوں اور نوجوانوں سے کئے گئے ہیں ۔کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمان لفظ تک تذکرہ نہیں کیاہے۔ کسی طرح کا وعدہ تو اب سوچا بھی نہیں جاسکتاہے ۔کانگریس نے 2اپریل کو انتخابی منشور کی رسم اجراءتقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو دوررکھا ۔ آر جے ڈی کی پوری سیاست مسلمان اوریادو پر منحصر ہے لیکن اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھاہے ۔ دلتوں کیلئے پسماندگی کی بنیاد پر ریزویشن کا وعدہ کیاہے جبکہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کیلئے کوئی تذکرہ نہیں ۔دیگر پارٹیوں کے منشور کا بھی یہی حال ہے ۔
انتخابی منشور میں مسلمانوں کو نظر انداز کئے جانے کا مطلب صاف ہے کہ اب یہ پارٹیاں مسلمانوں کی مجبوری بن گئی ہیں ۔ان کے پاس کانگریس ایس پی بی ایس پی آر جے ڈی وغیرہ کے علاوہ کہیں اور جانے کا کوئی آپش نہیں ہے۔ اس لئے اب تذکرہ کرنا کوئی ضروری سمجھا نہیں جانے لگاہے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ کبھی بھی بی جے پی کو نہیں جاسکتاہے ۔ انہیں اس بات پر بھی شرح صدر ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم ،مولانا بدرالدین اجمل کی یو ڈی ایف ۔ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی ۔ایس ڈی پی آئی اور اس جیسی پارٹیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں کیوں کہ ہم انہیں بی جے پی ایجنٹ قرار دے چکے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان ان کے تئیں شک وشبہ پیدا کرنے میں ہماری کوششیں کامیاب ہوچکی ہے ۔ان کے ذہن میں یہ خوف بھی اچھی طرح سمایا ہواہے کہ اس جیسی پارٹیوں کووٹ دینے سے ہندو ووٹ متحدہوجائیں گے اس لئے بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیں ،اپنوں کو نظر انداز کردیں ۔ یہ وجوہات اور اسباب ہیں جس کی بنیاد پر اب مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی طرح کا وعدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔
مسلمانوں کی دل میں جگہ بنانے کیلئے کافی ہے کہ آپ کہیں بھی ان کی حمایت میں کچھ بول دیجئے ۔ لالو پرساد یادو اڈوانی کو گرفتار کرکے مسلمانوں کے ہیرو بن گئے ۔ان کا ووٹ حاصل کرکے بہار میں پندرہ سالوں تک حکومت کی اب مسلمان کا نام لینا ان کے یہاں گوارہ نہیں سمجھاتاہے ۔پارٹی کے اہم اور سینئر لیڈروں کو نظر انداز کیا جانے لگاہے ۔ اب کنہیا کمار مسلمانوں کو ہیرو بن گئے ہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر مسلمانوں کی حمایت میں بولنے کی وجہ سے و ہ مسلمانوں کے اس وقت سب سے بڑ ے مسیحا بنے ہوئے ہیں تعجب یہ ہے کہ اسد الدین اویسی مسلسل پارلیمنٹ میں تنہا مسلمانوں کی آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں مسلم دانشوران بی جے پی کا ایجنٹ کہتے ہیں اور اب کنہیا کمار کو نوجوانوں کے ساتھ مسلم دانشوران مسلمانوں کا سب سے بڑ ا محافظ اور لیڈر بنانے میں لگے ہوئے ہیں صرف اس امید پر کہ وہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی لڑائی لڑیں گے ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنوں پر بھروسہ نہیں رہ گیاہے ،دوسروں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہوگیاہے جہاں سے ہمیشہ دھوکہ ملتاہے لیکن اب بھی یہ قوم سوچنے سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اپنی لڑائی خود لڑنے کے بجائے دوسروں سے بھیک مانگ رہی ہے ۔
اس موضوع پر مزید تفصیلات اگلے کالم میں ملاحظہ فرمائیں ۔
stqasmi@gmail.com