احمد شہزاد قاسمی
آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو نشانہ بناکر ہندوستان میں ان پر عرصہ حیات تنگ کر نے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا سیلِ رواں اس سلسلہ کی سب سے پہلی کڑی تھی اقتصادی طور پہ مضبوط اور خوشحال مسلم اکثریت والے علاقوں کو فسادات کی آگ میں جھلسا کر مسلمانوں کو اقتصادی طور پہ کمزور اور اپاہج کردیا گیا تاکہ ان میں آئندہ اٹھنے کی ہمت اور جرأت نہ ہوسکے۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پکڑ کر پابہ زنجیر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے اور انہیں سالہا سال تک جیلوں میں بند رکھنے کی صورت میں سامنے آئی دہشت گردی کا ڈرامہ اس لئے وضع کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو جسمانی ذہنی اور سماجی سطح پر اتنا کمزور کردیا جائے کہ یہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر نے کے بھی قابل نہ رہ سکیں، اور آج مسلمان اس پوزیشن میں ہیں کہ ان کی اکثریت خود کو تمام معاملات میں اپنے آپ کو حاشئے پر محسوس کر رہی ہے تعلیم صحت روزگار اور سیاسی نمائندگی میں وہ سب سے پیچھے ہیں سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے جبکہ جیلوں میں ان کا فیصد بڑھ کر ڈبل ہو جاتا ہے۔
17فیصد آبادی والے مسلمان سرکاری ملازمتوں میں محض ڈھائی فیصد اور جیل کی کال کوٹھریوں میں تیس فیصد سے زیادہ ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ زیادہ جرائم کرتے ہیں بلکہ یہ معاشی اور سماجی سطح پر بہت غریب ہیں جو مہنگے ترین مقدمات نہیں لڑ سکتے بلکہ اکثرو بیشتر ضمانت کے لئے رقم بھی ادا نہیں کر پاتے اسی لئے جیل ان کا مقدر بن جاتا ہے، گزشتہ سالوں میں مسلم نوجوانوں کی جو لاتعداد گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کی ٹھیک تعداد کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا تاہم یہ حقیقت ہے کہ پورے ہندوستان میں ایسا کوئی بھی مسلم اکثریت والا علاقہ نہیں جہاں کسی مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نہ کیا گیا ہو، چونکہ پولیس اور عدالتی شعبوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے اس لئے پولیس عصبیت کی بنیاد پر انہیں گرفتار کرتی ہے اور عدالت میں ان کے معاملات بھی اتنے ملتوی ہوتے ہیں کہ بے چارے ملزم کو جیل تک کھینچ لے جاتے ہیں۔
سولہویں لوک سبھا (عام انتخابات2014) کے بعد زمامِ اقتدار پر اکثریت کے سخت گیر نمائندوں کا قبضہ ہوگیا تو صورتِ حال اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہوگئی اس عرصہ میں ملک میں اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جس انسانیت سوزی کا رویہ اپنایا گیا اس سے ان میں اور زیادہ بے بسی گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہوگئی۔
اکتوبر 2017 میں مشہور امریکی میگزین “ٹائم” نے ہندوستانی مسلمانوں کے تیزی سے بگڑتے حالات پر مفصل رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ہندوستانی مسلمان ایک خطرناک خوف سے گزر رہے ہیں رپورٹ کے مطابق سن 2015 سے ہندو گینگ گھوم گھوم کر لوگوں کی ماب لنچنگ کر رہی ہے، مئی 2014 کے بعد سے اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے بہانے مارا جا چکا ہے، کسی بھی مسلم شخص کو سرِ راہ پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جاتا ہے مسلم گھروں میں دراندازی کر کے عورتوں اور بچوں تک پر لاٹھیاں برسا دی جاتی ہیں لیکن قانون کے ہاتھ ان مجرموں کے گریبا نوں تک نہیں پہونچتے پولیس کی کار روائی اور سرزنش سے یہ غنڈے بچ رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کی کونسی ایسی کوتا ہی ہے جس نے انہیں اتنابے بس اور بے حیثیت کر دیا کہ وہ ہر شعبہ میں عصبیت کا شکار ہیں جبکہ انتخابی عمل سے گزرنے والے جمہوری ممالک میں 17فیصد والی قوم بڑی معیاری زندگی گزارتی ہے حکومتوں کا اتار چڑھاؤ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں صورتِ حال اس سے مختلف ہے، معمولی غور وفکر سے اس نتیجہ پر پہونچنا آسان ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی سیاسی شناخت کو بالکل ختم کردیا اس لئے وہ ان مسائل سے دوچار ہیں جمہوری ملک میں عزت ومعیار کی زندگی گزار نے کے لئے اپنی سیاسی طاقت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی طاقت نہیں تو کچھ بھی نہیں ہماری سیاسی بے وزنی ہی سارے مسائل کی جڑ ہے اس بے وزنی کو ختم کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ بی جے پی کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے اس لئے اسے ان کی کوئی پرواہ نہیں اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہےکہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو، ادھر سیکولر پارٹیوں کو معلوم ہےکہ مسلمان کہاں جائے گا ووٹ بہر حال ان کو ہی ملنا ہے، اس لئے وہ بھی ان کے مسائل کو حل نہیں کرتے۔ کانگریس یا دیگر ریاستی حکومتوں نے زبانی جمع خرچ اور مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی نظروں میں معتوب و مغضوب بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔
اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ وہ کیا سیکولر پارٹیوں کے دامن سے وابستہ رہیں جنہیں ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ ان کو صرف ووٹ بنک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اپنی قیادت کھڑی کر کے اقتدار میں شریک ہوکر اپنے مسائل خود حل کرنے کی پوزیشن میں آجائیں؟ جن علاقوں میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی طاقت کو بنائے رکھا وہاں صورتِ حال اچھی ہے۔
کیرالہ میں مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت ” انڈین یونین مسلم لیگ “ اقتدار میں شریک رہتی ہے وہاں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورتِ حال خاصی بہتر ہے۔
تلنگانہ میں اگرچہ مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) اقتدار میں شریک نہیں رہتی لیکن مجلس کی وجہ سے وہاں کی حکومت مسلمانوں کے مسائل سے چشم پوشی کرنے کی جرأت نہیں کر پاتی، مسلمان وہاں تعلیم صحت روزگار اور تحفظ کے اعتبار سے کا فی مضبوط ہیں، مسلمانوں کو یہ تجربہ دوسری ریاستوں میں بھی کرنا چاہئے جہاں اپنی جماعت کے تحت انتخابات میں کامیابی کے امکان کم ہوں، وہاں مظلوموں اور پسماندہ قبائل کو ساتھ لیکر مظلوموں کا اتحاد قائم کر کے اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر ملک بھر کے مسلم اکثریتی حلقوں سے مسلم قیادت والی جماعت کےایسے امیدوار کو ہی کامیاب کرکے ایوان تک پہنچایا جائے جو مسلمانوں کمزوروں مظلوموں، اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کی بھرپور نمائندگی کریں۔
ہار جیت کی پرواہ کئے بغیر مسلم عوام و لیڈران طویل مدتی منصوبے سے اس طرز پر اپنی قیادت کھڑی کرکے اس کو مضبوط نہیں بنائیں گے تو شاید منظرنامہ تبدیل نہیں ہوگا اور یہ سوال منہ پھاڑے کھڑا رہے گا ‘ کب تک سیاسی بے وزنی کا شکار رہیں گے مسلمان ؟؟؟