پہلے مرحلہ کی پولنگ میں اتحاد کی زبردست لہر، بی جے پی کی حالت خراب

ٹنگ کے دوران بی جے پی والوں کی کھسیاہٹ بھی نظر آئی۔ مظفرنگر میں بی جے پی کے امیدوار سنجیو بالیان نے مسلم اکثرتی علاقے کی خواتین پر الزام عائد کیا کہ وہ برقہ پہن کر فرضی ووٹ ڈالنے آ رہی ہیں۔

لوک سبھا انتخابات 2019 کے پہلے مرحلہ کے لئے مغربی اتر پردیش کی 8 سیٹوں پر آج پر امن طریقہ سے ووٹنگ اختتام پزیر ہوئی۔ جن سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ان میں سہارنپور، غازی آباد، گوتم بدھ نگر، مظفر نگر، باغپت، کیرانہ، میرٹھ اور بجنور شامل ہیں۔ صبح 7 بجے سے شام 6 بجے تک تقریبا 63.69 فیصد رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
پہلے مرحلے کے تحت اگر ہم معروف سیاست دانوں کی بات کریں جو انتخابی مہم میں تھے تو ان میں مرکزی وزیر مہیش شرما (گوتم بدھ نگر) جنرل وی کے سنگھ (غازی آباد)، سابق کمشنر ممبئی پولس ستپال سنگھ (باغپت)، چودھری اجیت سنگھ (مظفرنگر) جینت چودھری (باغپت) کی قسمتیں ای وی ایم میں قید ہوگئیں۔ دیگر معروف چہروں میں عمران مسعود (سہارنپور)، نسیم الدین صدیقی (بجنور) اور حاجی یقوب قریشی (میرٹھ) قابل ذکر ہیں۔
الیکشن کمیشن سے موصول اطلاعات کے مطابق شام چھ بجے تک سہارنپور میں 70.68 فیصد، کیرانہ میں 62.10، مظفر نگر میں 66.66، بجنور میں 65.40، میرٹھ میں 63، باغپت میں 63.90، غازی آباد میں 57.60 اور گوتم بدھ نگر میں 60.15 فیصدی راہے دہندگان نے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیا۔الیکشن آفسر کے مطابق شام چھ بجے تک قطار میں لگ چکے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کاموقع دیا جائے گا۔ووٹنگ فیصد کے مقابلے میں سہارنپور70.68 فیصدکے ساتھ سرفہرست رہا جب کہ غازی آباد میں 57.60 فیصد کے ساتھ سب سے کم ووٹنگ ہوئی۔ واضح رہے کہ اس مرتبہ کا ووٹنگ فیصد سال 2014 کے مقابلہ کچھ کم نظر آ رہا ہے۔
پہلے مرحلہ کی ووٹنگ ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی کے اتحاد کا ٹرائل تھی جس میں وہ کامیاب رہا۔ آج کی ووٹنگ سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ اتحاد اتر پردیش میں بی جے پی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ پہلے مرحلہ کے بعد ماہرین کی نظر میں اتحاد بی جے پی سرے آگے نظر آ رہا ہے۔ حالانکہ سہانپور اور کرانہ اس کے برعکس ہیں جہاں کانگریس نے بھی بہتر کارردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سیکورٹی کے سخت انتظامات کے ددرمیان صبح سات بجے سے ہی گرمی سے بچن کے لئے سیر و تفریح کے لئے نکلے لوگوں نے اپنے ووٹ ڈال کر جمہوریت کے تئیں اپنے فرض کی ادائیگی کی۔ صبح سے پولنگ بوتھوں پر دکھائی دینے والی ووٹروں کی لمبی قطاریں دوپہر ہوتے ہوتے چھوٹی ہوتی چلی گئیں۔حالانکہ سورج کی کرنوں میں تمازت کم ہوتے ہی ووٹنگ میں ایک بار پھر سرگرمی دکھائی دی لیکن تمام جدوجہد کے باجود گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں ووٹنگ فیصد میں اس بار گراوٹ درج کی گئی۔اور 2014 کے عام انتخابات کے مقابلے 65 فیصد کے اندر ہی سمٹ گیا۔
ووٹنگ کے دوران بی جے پی والوں کی کھسیاہٹ بھی نظر آئی۔ مظفرنگر میں بی جے پی کے امیدوار سنجیو بالیان نے مسلم اکثرتی علاقے کی خواتین پر الزام عائد کیا کہ وہ برقہ پہن کر فرضی ووٹ ڈالنے آ رہی ہیں۔ انہوں نے اس کی شکایت الیکشن کمیشن سے کرتے ہوئے مسلم خواتین کا برقہ اترواکر ووٹنگ کرنے کی اپیل کی لیکن کمیشن نے ان کا یہ مطالبہ نامنظور کر دیا۔ سنجیو بالیان کا مقابلہ یہاں آر ایل ڈی کے اجیت سنگھ سے ہے۔ آر ایل ڈی حامیوں کا کہنا ہے کہ سنجیو بالیان کو ہار صاف نظر آ رہی ہے اس لئے وہ بیجا الزام لگا رہے ہیں۔
ووٹنگ کے دوران کیرانہ سے کچھ دلتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی بھی خبریں موصول ہوئیں۔ بی ایس پی کے ستیش مشرا نے اس کی شکایت الیکشن کمیشن سے بھی کی۔ بجنور اور کرانہ میں ایک دو مقامات پر ای وی ایم میں گڑبڑی کی بھی شکایت موصول ہوئی۔
مغربی اتر پردیش میں ووٹنگ کے حوالہ سے ملک بھر میں دلچسپی تھی۔ 2014 سے پہلے مظفر نگر میں فساد بھڑکے تھے جس کا کا پورا فائدہ بی جے پی کو ہوا تھا۔ اس مرتبہ ہندو مسلم ایشوز یہاں کے لوگوں پر اثر نہیں کر پائے اور بے روزگار، مہنگانی، کسانوں کے مسائل اور آوارہ جانوروں کی پریشانی یہاں کے اہم مسائل ہیں۔
اس مرتبہ کے انتخابات میں مودی ہٹاؤ اور مودی بچاؤ ہی سب سے بڑا ایشو نظر آ رہا ہے۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں مودی حکومت کے وزیر وی کے سنگھ غازی آباد سے، مہیش شرما گوتم بدھ نگر سے اور ست پال سنگھ باغپت سے چناؤ لڑ رہے ہیں، ان میں سے کسی کی بھی جیت کو یقینی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

(قومی آواز)