ثناء اللہ صادق تیمی
نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے کبھی کبھی سیاسی مسائل پر قلم اٹھانا پڑ ہی جاتا ہے، بیگوسرائے ان دنوں پوری طرح ہیڈلائن بنا ہوا ہے، کنہیا کمار کی شخصیت کچھ ایسی ہے بھی کہ بیگوسرائے کو وہ توجہ مل سکے. پچھلے تین چار سالوں میں کنہیا کمار ایک ایسے جوان سیاسی رہنما کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہے ہیں جو مودی کی پالیسیوں پر جم کر تنقید کرسکیں اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کر سکیں، ان کے اندر زبردست کمیونیکیشن اسکل ( تقریری لیاقت) پائی جاتی ہے، وہ منطقی گفتگو کرتے ہیں اور اپنے حریف کو بالعموم لاجواب کردیتے ہیں. دیش مخالف نعرے بازی کو لے کر لگے الزام، جیل اور ضمانت سے لے کر بیگو سرائے سے لوک سبھا کے امیدوار بننے تک ان پر نیشنل میڈیا میں مناقشہ ہوتا رہا ہے۔
وہ بھومیہار ذات سے تعلق رکھتے ہیں، بیگوسرائے میں پہلے بھی بایاں محاذ مضبوط رہا ہے، لینن گراڈ تک اسے کہا گیا ہے، یہاں سے کمیونسٹ پارٹی ایک بار لوک سبھا الیکشن میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔ کنہیا کمار کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ یہ بیگو سرائے سے مہا گٹبندھن کے امیدوار ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، میڈیا رپورٹ کو درست مانا جائے تو اس میں آرجے ڈی کا ہاتھ زیادہ رہا۔
کنہیا کمار کے مقابلے میں گری راج سنگھ این ڈی اے کے امیدوار ہیں، وہ بی جے پی کے فائر برانڈ مانے جاتے ہیں، متنازع بیانات کے لیے مشہور ہیں اور کسی بھی متنازع لیڈر کی طرح کہیں بہت مقبول تو کسی کے لیے بہت مبغوض ہیں، جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ وہ بھی بھومیہار ہیں، ان کی پارٹی کا کیڈر ووٹ، آر ایس ایس کا سپورٹ اور پھر نتیش کمار سے شراکت کئی چیزیں انہیں کمزور امیدوار نہیں بناتیں، وہ کڑی چنوتی دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
ان دونوں کے بالمقابل ایک تیسرے امیدوار تنویر حسن ہیں، آر جے ڈی کے ٹکٹ پر مہاگٹبندھن کے امیدوار ہیں، اس سے پہلے والے پارلیمانی الیکشن میں دوسرے نمبر تھے، 2009 کے انتخاب میں جدیو سے جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے، 2014 میں ساٹھ ہزار کے فرق سے ہارے تھے، طالب علمی کے زمانے سے سیاست کا حصہ ہیں، اعلا تعلیم یافتہ ہیں، سوشلسٹ آئیڈیا لوجی کے پرچارک رہے ہیں اور زمینی سطح پر مضبوط پہچان رکھتے ہیں، ان کو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ آرجے ڈی امیدوار ہونے کا بھی پلس پوائنٹ حاصل ہے، اس حلقے میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں اور گٹبندھن کا اپنا ووٹ شیئر بھی ہے، اگر تنویر حسن کو مسلمان ووٹ کریں اور لالو یادو کی پارٹی کا بقیہ ووٹ بھی مل جائے تو تنویر حسن کی جیت کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ دونوں حریف امیدوار پر بھاری پڑ جائیں گے۔
اب تھوڑا ایک نظر ادھر ڈالیے کہ ساری توجہ کنہیا کمار اور گری راج ہی پر کیوں ہے؟ جب کہ ایک مضبوط امیدوار تنویر حسن بھی ہیں، پورا لیفٹ بیگو سرائے میں ہے، جے این یو جیسے چل کر بیگوسرائے آ گیا ہو، نجیب کی والدہ، شہلا رشید، سوارا بھاسکر اور تیستا ستلواڑ کے علاوہ دوسرے وہ لوگ جو چار پانچ سالوں کے اسٹرگل کا چہرہ رہے ہیں وہ بیگوسرائے میں ہیں ، ہمیں ان کی نیت یا ارادے پر کوئی شک نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کنہیا کمار جہاں سے بھی لڑتے کیفیت کچھ ایسی ہی ہوتی کہ نیشنل میڈیا کی توجہ بنی رہتی. میں اس کے بھی خلاف ہوں کہ بیگوسرائے سے کنہیا کمار کی امیدواری پر سوال اٹھایا جائے کہ وہ وہیں کے ہیں، یہاں لیفٹ مضبوط بھی رہا ہے اور کنہیا کمار لگ بھگ ایک شناخت بن کر سامنے آٰئے ہیں، مجھے اگر اعتراض ہے یا افسوس ہے تو اس رویے پر ہے جو تنویر حسن کو نظر انداز کررہا ہے، ان نام نہاد دانشوران پر ہے جو انہیں کیا کیا ” مخلصانہ مشورہ ” دے رہا ہے، اگر اس الیکشن کا مقصد شدت پسند فکر ونظر کو شکست دینا ہے تو یہ کہنے کی بات نہیں کہ اس معاملے کے سب سے بڑے چمپیئن لالو جی ہیں، تنویر حسن ان کی پارٹی کے پڑھے لکھے مضبوط امیدوار ہیں، وہ اگر جیت کر پارلیمنٹ پہنچیں گے تو وہ بھی اسی آئیڈیالوجی کو شکست دینے کا جتن کریں گے. ایک کنہیا کمار ایک پوری آئڈیالوجی کا شناخت نامہ ہوسکتے ہیں لیکن جہاں تعداد کی گنتی ہوتی ہے وہاں تنویر حسن زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔
کنہیا کمار کو سپورٹ کرنا آپ کا حق ہو سکتا ہے لیکن تنویر حسن کو الٹے سیدھے مشورے دے کر انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرنا آپ کے لیے قرین انصاف نہیں. ووٹر بہت سمجھدار ہے، اسے معلوم ہے کہ کسے ووٹ کرنا ہے اور کسے نہیں، ایک اچھی لیاقت کے لیڈر کو صرف اس لیے بیٹھنے کو کہا جائے یا اسے کمزور امیدوار باور کرایا جائے کہ اس کے مقابلے میں کوئی نیا لیکن معروف چہرا ہے، سیاسی خرد مندی کا ثبوت نہیں. ایک طرف مہاگٹبندھن کو ووٹ کرنے کا ذہن اور دوسری طرف کنہیا کمار کے لیے اتنی تگ ودو سب کا آخری نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ گری راج بیچ سے بازی مار کر نکل جائیں ۔
رہے نام اللہ کا