عرفان الحق
روزے میں آپ کوئی act نہیں کرتے، صرف چھوڑتے ہیں۔ جتنی نیکیاں ہم کرتے ہیں، جتنے کام ہم کرتے ہیں اُن میں کسی عمل کے ’کرنے‘ کا دخل ہوتا ہے۔ جب ہم کچھ کرتے ہیں وہ نیکی میں شمار ہوتا ہے اور جب ہم کچھ چھوڑتے ہیں وہ پرہیزگاری میں شمار ہوتا ہے۔
جتنی عبادات اللہ تعالیٰ نے ہم پہ فرض کی ہیں اُن سب کا تعلق نیکو کاری سے ہے، سوائے روزے کے۔ روزہ پرہیزگاری میں آتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے قریب پرہیزگاروں کے ہوتا ہے۔ نیکوکاروں کا وہ درجہ نہیں ہے جو پرہیزگاروں کا ہے اور قرآن حکیم میں بھی پروردگارِعالم نے پرہیزگاروں ہی کو زیادہ مخاطب کیا ہے، اس لیے کہ نیکی تو وہ عمل ہے جسے معاشرہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کا معاوضہ معاشرہ ہمیں نیک نامی کی صورت میں ادا کر رہا ہوتا ہے مگر پرہیزگاری وہ عمل ہے جس میں معاشرہ نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ اگر آپ اپنے گھر میں کھا پی رہے ہیں، کسی کو نہیں معلوم۔ غیبت کر رہے ہیں اندر، کسی کو نہیں معلوم۔ تو روزہ بنیادی طور پر پرہیزگاری میں آتا ہے، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے قریب ہوتا ہے۔ اس میں جو خاص بات ہے، وہ کیا ہے؟ ہم جو بھی دُنیا میں act کرتے ہیں، وہ فرشتے record کرتے ہیں مگر فرشتے نیت record نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے حبیبA نے فرمایا کہ ’’جو کچھ آپ بُری باتیں سوچتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور جو اچھے گمان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر پورا اجر دے گا۔‘‘
ایک شخص کا فیصلہ ہو چکا، وہ جنت میں لے جایا جا رہا تھا۔ تو فرشتے جب اس کو جنت میں لے کے جا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے کہا: ’’اِس کو دوزخ میں ڈال دو۔‘‘ فرشتے کہنے لگے: یا اللہ تعالیٰ! اس کے تو اتنے اعمال ہیں کہ کاغذ کالے ہو چکے ہیں، اس کا سارا حساب کتاب ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ’’ایک بات ایسی ہے جو تم نہیں جانتے اور میں جانتا ہوں، وہ ہے نیت۔ تم نے اعمال تو اس کے دیکھ لیے مگر اس کی نیت کا مجھے علم ہے۔‘‘ تو نیت ایک ایسی چیز ہے جو فرشتے record نہیں کر سکتے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ اس لیے روزے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی روزے دار کو بدلہ دوں گا۔‘‘ روزہ واحد عبادت ہے جو خالصتاََ نیت پہ base کرتی ہے۔ آپ act کوئی نہیں کرتے، چھوڑتے ہیں۔ تو یہ واحد پرہیزگاری کی عبادت ہے۔ میں روزے کو تھوڑا مختلف انداز میں بھی دیکھتا ہوں۔ اس سے پہلے تین چار مرتبہ روزے پر گفتگو ہو چکی ہے اور ہم اس کی تفصیلات میں جا چکے ہیں۔ رسولِ اکرمA کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’نکاح کرو کہ نکاح میری سنت ہے اور جو استطاعت نہ رکھے، جو صاحبِ حیثیت نہ ہو تو روزہ رکھ لے تاکہ شہوت کو مار سکے۔‘‘ یہ رسولِ اکرمA کا فرمانِ مبارک ہے کہ جو صاحبِ حیثیت نہ ہو، روزہ رکھ لے تاکہ شہوت کو مار سکے یعنی شہوت کو مارنے کے لیے انٹی بائیوٹک ہے روزہ۔ جیسے جراثیم کش دوائیاں ہوتی ہیں، ایسے شہوت کو مارنے کے لیے اگر دُنیا میں کوئی طریقہ موجود ہے تو وہ روزہ ہے۔ تو ہم میں سے کون ہے جو آج اس سے مغلوب نہیں ہے، اس میں گرفتار نہیں ہے؟ اب اس بات کا حُسن کیا ہوا۔ اب دوسری طرف اس کو تھوڑا سا آگے لے کے چلیں کہ فرمانِ رسولِ اکرمA ہے کہ ’’ہلاک ہوا وہ شخص، برباد ہوا وہ شخص جس کی دو چیزیں قابو میں نہیں ہوتیں۔ ایک وہ جو اس کے دانتوں کے درمیان ہے اور دوسری چیز وہ جو اس کی رانوں کے درمیان ہے۔‘‘ تو انسان کی بربادی دو چیزوں سے، ایک اس کی زبان سے اور اس کے آلۂ شہوت سے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تو ایسا شخص ہلاکت میں ہے۔ جس نے ان دونوں کی حفاظت کی، وہ بچ گیا۔ روزہ جو ہے وہ بنیادی طور پر ایک تو میں نے پہلے آپ کو بتا دیا کہ شہوت کو توڑنے والی چیز ہے کہ رسولِ اکرمA نے فرمایا کہ ’’جس میں استطاعت نہ ہو نکاح کرنے کی، وہ روزے رکھے۔‘‘ اب دوسری بات یہ کہ جو روزہ ہے، وہ منہ ہی کو basically باندھنا ہے۔ آپ کے منہ ہی کو باندھتا ہے، جو دانتوں کے درمیان ہے اُسی کو باندھتا ہے۔ کھانے سے رُکتے ہیں۔ تو جب آپ کھانے سے رُکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ حرام کھا رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں۔ آپ کو احساس ہو گا۔ بات کرنے سے رُکیں گے۔ روزے میں ممکن ہے غیبت کر رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں گے۔ ممکن ہے کسی پر الزام تراشی کر رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں گے۔ کسی پر بہتان باندھ رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں گے۔ کوئی افواہ پھیلا رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں گے۔ کوئی جھوٹ بول رہے ہوں، اُس سے بچ جائیں گے۔ کاروبار میں بددیانتی کے لیے بات کر رہے ہیں، اُس سے بچ جائیں گے۔ تو روزے کی جو بنیاد ہے، وہ پہلے تو آپ کی ان دونوں چیزوں کی حفاظت کا نام ہے کہ آپ کی جو دانتوں کے درمیان ہے، اس سے بھی بچیں اور جو آپ کی رانوں کے درمیان ہے، اس سے بھی بچیں کہ روزہ آپ کو ان دونوں سے پناہ میں لے جاتا ہے۔ روزے کی بنیاد یہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان یہ ہے کہ ’’تم پہ روزے اس لیے فرض کیے گئے اور تم سے پہلی قوموں پر بھی کہ تم متقی بنو۔‘‘ متقی یعنی پرہیزگار بنو۔ تو ایک کمال کی بات اس میں سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کو ہم کہتے ہیں ھدی اللمتقین کہ قرآن ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔ دوسرے لوگ اس سے فائدے تو اُٹھا سکتے ہیں، قرآن سے شفا تو حاصل کر سکتے ہیں مگر ہدایت متقی کو ملے گی، پرہیزگار کو ملے گی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس حوالے سے ہم سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ میں نے تم پہ روزہ فرض کیا اور تم سے پہلی اُمتوں پر بھی تاکہ تم متقی بن سکو، پرہیزگار بن سکو تو قانون یہ سمجھ میں آتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہ وہ شخص ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا جو روزہ نہیں رکھتا۔ اُسے ہدایت نہیں مل سکتی۔ تو بدنصیب ہوئے نا پھر چاہے روز قرآن پڑھیں، ناظرہ پڑھیں، ترجمہ پڑھیں مگر روزہ نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب ہے، آپ کو ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ آپ متقی نہیں بنیں گے۔ متقی آپ کو روزہ بنائے گا اور اس کی base کیا ہے؟ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ میں جہاں کہیں ہوں، جس حالت میں بھی ہوں، میرا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھتا ہے۔ یہ ہے تقویٰ کہ پھر اسی خوف کے زیرِاثر کہ میرا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے میں کوئی غلط کام نہ کروں، کوئی نافرمانی پروردگارِعالم کی نہ کروں۔ یہ ہے تقویٰ اور جب یہ کسی میں پیدا ہو جائے تو یقیناًاس کو ہدایت مل جائے گی، اُس کو روشنی میسر آجائے گی، اور وہ روشنی کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نور کہا، روشنی کہا ہے، روشن کتاب کہا ہے مگر ہدایت کون پائے گا۔۔۔۔۔۔؟ جو متقی ہے اور متقی کون بنے گا جو روزے رکھتا ہے۔ اصل میں آپ کبھی اس پہ غور کریں کہ روزے سے آپ متقی کیسے بنتے ہیں؟ کبھی آپ انٹرویو کریں ایسے بندے کا جس نے سرکس میں شیر سدھائے ہوں، چیتے سدھائے ہوں، ہاتھی سدھائے ہوں۔ اس سے آپ پوچھیں۔ ریچھ والا مداری ریچھ لیے پھرتا ہے۔ اس سے کبھی پوچھیں کہ وہ اتنے خطرناک جو درندے ہیں، ان کو کیسے اپنے ہنٹر سے مارتا ہے کہ وہ آگ کے گولے میں سے بھی کودتے ہیں اور سرکس میں بھی نظارے دکھا رہے ہیں اور اس کے آگے آگے ناچتے ہیں۔ کس چیز سے۔۔۔۔۔۔؟ کہ وہ ان جانوروں کو بھوکا رکھتے ہیں اور بھوک میں سدھاتے ہیں۔ تو بھوک اور فرماں برداری لازم و ملزوم ہو گئیں۔ تو فرماں برداری جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی اختیار کرنی ہے اور تقویٰ اختیار کرنا ہے تو یقیناًبھوک کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اسی لیے کوئی اُمت ایسی نہیں گزری، ایک اُمت بھی ایسی نہیں گزری جس پر اللہ تعالیٰ نے روزے فرض نہ کیے ہوں کیونکہ پروردگارِعالم کو فرماں برداری تو ہر اُمت سے چاہیے تھی، سب سے یہ خیال چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس پیدا کرنا رب العزت کو مقصود تھا۔ تو جیسے جانور سدھائے جاتے ہیں بھوک دے کر، ویسے ہی پروردگارِعالم ہماری سدھار کرنا چاہتا ہے اس بھوک کے ساتھ۔ جب یہ بھوک ہمیں لگتی ہے تو ہمارے تمام حواس بیدار ہو جاتے ہیں اور اس وقت ہم تابع داری اختیار کرتے ہیں۔ جتنے بڑے صوفی آج تک گزرے ہیں، جتنے عظیم لوگ جنہوں نے برصغیر میں کیا پورے عالم میں اسلام کی تبلیغ کی، اسلام کو پھیلایا، ان میں سے کوئی ایسا اللہ تعالیٰ کا ولی نہیں گزرا کہ جو اکثر و بیشتر روزے سے نہ رہتا ہو۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ مجھے رُوحانی منازل نصیب ہو جائیں، رُوحانی مرتبہ مجھے میسر آجائے، میرا گیان اور دھیان بڑھ جائے، میری باطنی قوت بڑھ جائے، میں صاحبِ بصیرت ہو جاؤں تو یہ بھوک کے بغیر ممکن نہیں ہے، ممکن ہی نہیں ہے۔ بھرا ہوا پیٹ یا تو ہوا خارج کرے گا یا خراٹے خارج کرے گا۔ خالی معدہ جو ہے، وہ آپ میں اتنی قوت پیدا کرتا ہے کہ جس کی حد و حساب نہیں اور تخیل کی بے پناہ قوت آپ میں پیدا کرتا ہے۔ جتنے ایسے لوگ جو روحانیت سے وابستہ رہے ہیں، ایسے مذاہب میں بھی جو اسلام سے پہلے موجود تھے، وہ بھی سارے کے سارے (جتنے بھی گیانی لوگ تھے) روزہ ضرور رکھتے تھے کیونکہ روزہ آپ کے اندر کی قوتوں کو بیدار کرتا ہے۔ جو آپ کے ذہن پہ وزن ہوتا ہے اور جو آپ کا دھیان دُنیا داری کی طرف ہوتا ہے اس کو ہٹاتا ہے۔ تو روزہ واحد چیز ہے جس میں بے پناہ تقویٰ پایا جاتا ہے، بے پناہ خوف پایا جاتا ہے اور تقویٰ کی مثال جو ہے وہ ایک بڑی حسین مثال۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا کہ تم یہ بتاؤ کہ تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرے نزدیک تقویٰ یہ ہے کہ ایک پگڈنڈی ہے یا ایک راستہ ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہیں اور اس میں سے ہمیں گزرنا ہے اپنا دامن بچا کر، ان کانٹوں میں وہ دامن نہ اُلجھے۔ یہ ہی ہماری زندگی کا حال ہے کہ ہم اس ڈگر پر، اس پگڈنڈی پر سفر میں ہیں اور ایک طرف اولاد ہے، مال ہے اور جان ہے اور دوسری طرف لذتِ طعام ہے، لذتِ کلام ہے اور خواہشات ہیں جو ہر وقت ہمیں گھیرے رہتی ہیں۔ کوئی ضرورت کے حوالے سے، کوئی بیماریوں کے حوالے سے، کوئی مستقبل کے خوف کے حوالے سے۔ اِن سے اپنے دامن کو بچا کر نکل جانا اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ یہ تقویٰ ہے۔ یہ پرہیزگاری ہے کہ آپ نے بچنا ہے اُن تمام چیزوں سے جن میں آپ کسی لمحے بھی اُلجھ سکتے ہیں۔ اُن سے نکل جانا، اُن سے بچ جانا، یہ تقویٰ ہے۔ اور یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ پر پوری طرح یہ گمان غالب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کی واحد مثال روزہ ہے۔ کوئی اور عبادت اس کی مثال نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب آپ اپنی انتہائی تنہائی میں ہوتے ہیں، اپنے بیڈ روم میں ہوتے ہیں، اپنے باتھ روم میں ہوتے ہیں، ایک پانی کا گھونٹ آپ پی سکتے ہیں مگر جب آپ اپنی اس تنہائی میں بھی پانی نہیں پیتے یا سگریٹ پینے والا سگریٹ نہیں پیتا یا کسی کو بھوک لگ رہی ہے اور وہ کوئی چیز نہیں کھاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا عملاََ یقین ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو روزہ ایک ایسی چیز ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو اپنے اللہ تعالیٰ پر عملاََ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ باقی آپ کی کسی عبادت سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔ تو یہ وہ واحد عبادت ہے جس میں آپ یہ گواہی دیتے ہیں، یہ شہادت دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب جگہ موجود ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے۔ جب یہ شہادت آپ نے provide کر دی، آپ یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی آپ کو نصیب ہو گیا کیونکہ وہ یہ ہی تو چاہتا ہے کہ آپ اس یقین کو حاصل کر لیں کہ اللہ تمہیں ہر لمحہ دیکھتا ہے اور تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس احساس کو آپ کی کوئی عبادت confirm نہیں کرتی سوائے روزے کے۔ اور ہم لوگ جتنے مسلمان ہیں، گھٹیا سے گھٹیا حالت کو پہنچ چکے ہیں، بد اعمال ہو چکے ہیں، ہماری نیتوں میں کھوٹ ہے، حرام کھاتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، بددیانتیاں کرتے ہیں، غیبتیں کرتے ہیں مگر جب روزہ رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی، پندرہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی ہم تنہائی میں بھی کچھ نہیں کھاتے اور کوشش کرتے ہیں کہ بچ جائیں برائیوں سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ پروردگارِعالم ہم سے یہ confirmation لے رہا ہے کہ ہم تجھے صحیح معنوں میں حاضر و ناظر جانتے ہیں اور یہ ہی وہ احساس ہے مگر ہماری بدقسمتی کیا ہے؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اِس احساس کو تیس دن تک رکھتے ہیں بس، اس کے بعد چُھٹی۔ حالانکہ اصول تو یہ ہے کہ یہ تیس دن کی practice تین سو پینسٹھ دنوں پر محیط ہو جائے۔ ہم نے تیس دن یہ کام کیا اور باقی تین سو پینتیس دنوں کے لیے فارغ۔ پھر ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ ہے یا نہیں ہے؟ ہمیں دیکھتا ہے یا نہیں دیکھتا؟ تو روزہ بنیادی طور پر اس بات کی practice ہے کہ آپ کو یہ احساس دلائے کہ آپ نے سارا سال اِسی طریقے سے گزارنا ہے۔ جب سارا سال اس طرح سے گزاریں گے تو ساری عمر بھی اِسی طریقے سے گزاریں گے۔
دوسری چیز جو روزے میں سب سے بڑا پیغام ہے وہ جہاد کا ہے۔ روزے سے بڑھ کر جہاد کی کوئی علامت موجود نہیں اور مسلمان کو یہ سبق ہے اس میں۔ پنجابی کی ایک مثال ہے وہ دینی پڑتی ہے ’’بھوکا بٹیرا چوکھا لڑ دا اے۔‘‘ جو پہلا جہاد ہے، غزوہ بدر وہ رمضان ہی میں شروع ہوا۔ تو رمضان جب آئے اور آپ کو جہاد کی یاد تازہ نہ ہو، جہاد کا شعور بیدار نہ ہو، جہاد کا شوق بیدار نہ ہو تو آپ یقین کر لیں کہ آپ نے روزہ رکھا ہی نہیں کیونکہ اسلامی مملکت بننے کے بعد جب رمضان آیا تو وہ مسلمانوں کو بدر میں آیا۔ اور واقعی مسلمانوں نے پھر ثابت کیا کہ بھوکے مسلمان زیادہ لڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے رسولA نے فرمایا کہ ’’میری اُمت کا فتنہ مال ہے‘‘ کہ جب اس نے مال کھایا ہوا ہو گا، پھر یہ نہیں لڑ سکتی۔ اس لیے روزے میں مسلمان زیادہ لڑتا ہے، بھوکا ہوتا ہے۔ تو جہاد اور روزہ لازم و ملزوم ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ یہ جہاد ہمیں سکھاتا ہے، روزہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم لالچ کا بھی روزہ رکھیں، غیبت کا بھی روزہ رکھیں، دروغ گوئی کا بھی روزہ رکھیں، کسی پہ معترض ہونے کا بھی روزہ رکھیں، تفرقہ بازی کا بھی روزہ رکھیں، شہوت کا بھی روزہ رکھیں، نفرت کا بھی روزہ رکھیں، حسد کا بھی روزہ رکھیں، لذت کا بھی روزہ رکھیں اور تمام چیزوں کا روزہ رکھیں کیونکہ بنیاد اس کی پرہیزگاری میں ہے اور ہر وہ برائی جو اخلاقی طور پر موجود ہے، جس سے مذہب نے آپ کو روک دیا ہے، اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولA نے آپ کو جس سے روک دیا ہے، ساری کی ساری خرابیوں سے رُک جانا، پرہیزگاری میں آتا ہے اور ان سب چیزوں سے رُک جانا ہی روزہ ہے۔
روزے کی بنیاد رُک جانے پر ہے اور بڑی خوبصورت بات ہمارے ایک دوست نے کی ہے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ حالتِ احرام میں ہوں۔ حالتِ احرام ذرا لمبا ٹائم ہوتا ہے اور اس میں سولہ گھنٹے یا اٹھارہ گھنٹے یا جیسے بھی موسمی حالات ہوتے ہیں، اس کے مطابق ہوتا ہے۔ حلال چیزیں آپ پر حرام کر دی جاتی ہیں۔ جب حلال چیزیں بھی آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں تو میں تو بڑا حیران ہوتا ہوں یہ سوچ کر کہ باقی دنوں میں یا باقی معاملات میں آپ نے حرام چیزیں بھی اپنے اوپر حلال کر رکھی ہیں۔ یہ بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ روزے کا مفہوم ہی نہیں سمجھ رہے۔ بھئی رشوت ہے، لے رہے ہیں، حرام ہے۔ سود ہے، کھا رہے ہیں، حرام ہے۔ چوری کا مال کھا رہے ہیں، حرام ہے۔ کسی یتیم کا مال کھا رہے ہیں، حرام ہے۔ بہن بھائی کا مال کھا رہے ہیں، حرام ہے۔ وہ آپ نے اپنے اوپر حلال کر رکھا ہے باقی دنوں میں اور پھر روزے بھی جاری ہیں۔ بھئی روزے کا تو مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تابع داری میں، اللہ تعالیٰ کے احکام کو مانتے ہوئے حلال چیزیں بھی ایک خاص وقت تک اپنے اوپر حرام کر لیں اور جو اس نے permanent حرام کی ہوئی ہیں وہ تو ہیں ہی حرام۔ تو آپ اپنے آپ کو زندگی میں روزے کی حالت میں سمجھا کریں تاکہ کم از کم حرام چیزیں تو آپ پر حرام رہیں۔ رمضان میں تو حلال بھی حرام ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کی practice کریں۔ یہ نہیں ہے کہ آپ ایک مہینہ روزے رکھیں اور باقی معاف۔۔۔۔۔۔۔ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کیا سمجھا رہا ہے آپ کو۔ جب آپ اس کے حکم سے حلال چیزوں سے رُک گئے ہیں تو حرام سے کیوں نہ رُکیں؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو حرام سے رُکے ہوئے ہیں؟ کیا ان کو یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے؟ رمضان میں پورا احساس موجود ہوتا ہے۔ کوئی بندہ کسی کونے میں چھپ کر بھی روزہ نہیں توڑتا۔ میں تو اس بات پہ دنگ رہ جاتا ہوں کہ رمضان میں ہماری کیفیت بالکل ہی بدل جاتی ہے اور رمضان کے بعد بھی ہماری کیفیت جو ہے وہ بالکل ہی بدل جاتی ہے۔ اس کو تھوڑا practice کر لیں، آگے بڑھائیں اور اس پہ غور کریں۔ اگر روزے کا مفہوم ہم نے زندگی میں اپنا لیا اور اس کو سمجھ لیا تو آپ یقین کریں کہ آپ کو قرآن سے بھی ہدایت ملے گی کیونکہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے، آپ کی نیتیں بھی درُست ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بھی آپ سے راضی ہو جائے گا۔ اس کی یہیں پہ آپ کو تصدیق ہو جائے گی۔ سب سے بڑا فائدہ روزے کا یہ ہے کہ آپ کی رُوحانی آنکھ کھل جائے گی، آپ صاحبِ بصیرت ہو جائیں گے۔
اس دُنیا کا نظام یہ ہے کہ جو یہاں اندھا ہے، آپ جتنی مرضی لائٹیں جلا دیں، اُس بے چارے کے سامنے تو اندھیرا ہی رہے گا۔ اور رمضان میں یا رمضان کے علاوہ کتنی ہی نورانی بارش ہو رہی ہو مگر جس کی باطنی آنکھ بند ہو وہ کیسے دیکھ سکتا ہے؟ وہ ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔ لیلتہ القدر آتی ہے اس مہینے میں کہ جو نورانی رات ہے، روشنیوں والی رات ہے۔ بھئی کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے اس کا فائدہ اُٹھایا ہو؟ اس لیے کہ باطنی آنکھ بند ہے ہماری اور باطنی آنکھ اس لیے بند ہے کہ اندر کہیں نہ کہیں کوئی ایسا مال ہم نے کھایا ہوا ہے، کوئی ایسا چکر ہم نے کیا ہوا ہے کہ ہماری اس روشنی پر پردے پڑے ہوئے ہیں، تہیں جمی ہوئی ہیں گرد کی، زنگ لگا ہوا ہے۔ تو جب ہم بھوکے رہتے ہیں اور صحیح معنوں میں روزہ رکھتے ہیں تو اندر ایسے آثار پیدا ہوتے ہیں معدہ خالی ہونے کی وجہ سے جو اس زنگ کو دھوتے ہیں۔ ہمارا زنگ دُھلتا ہے اور ہماری باطنی آنکھ میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اُس پر سے غلاظت دُور ہوتی ہے اور پھر بفضلِ تعالیٰ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ پروردگارِعالم پہلی تاریخوں میں بھی لیلتہ القدر رکھ سکتا تھا، آخری میں کیوں رکھی۔۔۔۔۔۔؟ تاکہ میرے بندے محروم نہ رہ جائیں۔ ستائیس راتیں گزار کے اپنا زنگ دھو چکے ہوں۔ روزے کے مفہوم کو سمجھ چکے ہوں۔ تو روزہ basically آپ کے اندر کے زنگ کو دھوتا ہے۔ آپ کی باطنی آنکھ پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں، جو تہ ہے گندگی کی، غلاظت کی، اس کو wash کرتا ہے۔ تو کم سے کم ستائیس راتیں ان کو درکار ہیں۔ اگر ٹکا کے ستائیس دن آپ لگا لیں گے تو لیلتہ القدر کا بھی فائدہ آپ کو پہنچ جائے گا۔ روزے کے مفہوم کو سمجھیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ زنگ صاف کرنے کے لیے ہے، آلودگی کو دھونے کے لیے ہے اور وہ بھوک کے بغیر، روزے کے بغیر، روزے کی شدت کے بغیر نہیں دُھلتی۔ جتنے رُوحانی لوگ اِس دُنیا میں ہوئے ہیں، جتنے صوفی ہوئے ہیں، اُنہوں نے اپنے زنگ کو اس بھوک سے مٹایا ہے۔ سارا سارا سال روزے سے رہتے تھے۔ تو آپ کم سے کم رمضان کو اس نکتۂ نظر سے گزاریں متقی بننے کے لیے تاکہ قرآن سے آپ کو روشنی اور ہدایت نصیب ہو، اپنے زنگ کو دھونے کے لیے کہ لیلتہ القدر میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو، اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب ہو تاکہ آپ کی باطنی آنکھ کھلے اور تیسرا یہ کہ اپنی آئندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے۔ تو پروردگارِ عالم آپ کو اور مجھے صحیح معنوں میں روزے کو سمجھنے کی، روزہ رکھنے کی اور روزہ دار بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔ (ملت ٹائمز)