روزہ ۔ فوائد و مقاصد

مولانا سید احمد ومیض ندوی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ۔ ( البقرہ )
ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پر ہیز گار بنو۔
اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام حضرت انسان پر فرض فرمائے ہیں ان میں اس کے لئے ان گنت فوائد ہیں۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اس لئے کہ یہ احکام اس ذات کے بنائے ہوئے ہیں جو انسان کا خالق ہے اور خالق سے بہتر مخلوق کے نفع اور نقصان کو کون جان سکتا ہے؟ دین کے ہر حکم میں یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس لحاظ سے او امرالٰہی پر عمل پیرا ہونا دراصل خود کو ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رکھنا ہے۔ اسلام کے دیگر مختلف احکام کی طرح اسلام کے چار ارکان روزہ، نماز، زکوٰۃ اور حج کا بھی یہی حال ہے ان میں بھی بے شمار انسانی فائدے ہیں۔کسی بھی کام کے فوائد و مقاصد کا علم آدمی میں اس کی رغبت پیدا کردیتا ہے اس لئے رسول اکرم ا نے بھی دین کے مختلف اعمال کے فوائد بتائے ہیں۔
روزہ اپنی مخصوص شکل کی وجہ سے اپنے اندر عظیم فوائد رکھتا ہے۔ اس کے بعض فوائد و مقاصد کا ذکر خود قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیات ۱۸۳ تا ۱۸۷ جن میں روزہ کے احکام بیان کئے گئے ہیں روزہ کے تین مقاصد ذکر کئے گئے ہیں۔
۱) تقویٰ لعلکم تتقون
۲) خدا کی بڑائی لتکبرواللہ علی ماھداکم
۳) شکر لعلکم تشکرون
یہ تینوں روزہ کے اہم ترین مقاصد ہیں بلکہ علماء نے مزید جن فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ سب ان تینوں کے اثرا ت ہیں۔ تقویٰ بجائے خود ساری خوبیوں اور بھلائیوں کی جڑ ہے۔ متقی انسان دنیا و آخرت کے ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے مختصر یہ کہ علماء کے بیان کردہ فوائد دراصل ان ہی تین کی تشریح و توضیح ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے جن کو اللہ تعالیٰ نے احکام خداوندی کے اسرار ورموز کا خصوصی فہم عطا فرمایا تھا، روزہ کے درج ذیل فوائد بیان فرماتے ہیں۔
۱) روزہ سے انسانی عقل کو نفس پر پورا پورا تسلط و غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔
۲) روزہ سے خشیت اور تقویٰ کی صفت انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لعلکم تتقون یعنی روزہ تم پر اس لئے مقرر ہوا کہ تم متقی بن جاؤ۔
۳) روزہ رکھنے سے انسان کی نظر اپنی عاجزی و مسکنت اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کی قدرت پر پڑتی ہے۔
۴) روزہ سے چشم بصیرت کھلتی ہے۔
۵) دور اندیشی کا خیال ترقی کرتا ہے۔
۶) کشف حقائق الاشیاء ( تمام چیزوں کی حقیقتوں کا انکشاف ) ہوتا ہے۔
۷) درندگی و بھیمیت سے دوری ہوتی ہے۔
۸) ملائکہ الٰہی سے قرب حاصل ہوتا ہے۔
۹) خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے۔
۱۰) انسانی ہمدردی کا دل میں ابھار پیدا ہوتا ہے۔
۱۱) روزہ موجب صحت جسم و روح ہے۔ چنانچہ قلت اکل و شرب کو اطباء نے صحت جسم کے لئے اور صوفیاء نے صفائی دل کے لئے مفید لکھا ہے۔
۱۲) روزہ انسان کے لئے ایک روحانی غذا ہے۔ جو آئندہ جہاں میں انسان کو غذا کا کام دے گا جنہوں نے اس غذا کو ساتھ نہیں لیا وہ اس جہاں میں بھوکے پیاسے ہوں گے اور ان پر اس جہاں میں روحانی افلاس ظاہر ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنی غذا کو ساتھ نہیں لیا۔
۱۳) روزہ محبت الٰہی کا ایک بڑا نشان ہے۔ جیسے کہ کوئی شخص کسی کی محبت میں سرشار ہوکر کھاناپینا چھوڑدیتا ہے اور بیوی کے تعلقات بھی اس کو بھول جاتے ہیں ایسے ہی روزہ دار خدا کی محبت میں سرشار ہوکر اس حالت کا اظہار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ غیر اللہ کے لئے جائز نہیں ہے۔ (المصالح العقلیۃ للاحکام النقلیۃ ۱۴۳۔ ۱۴۵)
حضرت علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمۃ نے بھی روزہ کے مقاصد و فوائدپر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان میں سے چند کو اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔
۱) روزہ کی فرضیت کا سب سے پہلا مقصد انبیاء علیہم السلام کے ان متبرک و مقدس ایام کی تقلید و پیروی ہے۔ یہودی بھی حضرت موسیٰ کی پیروی میں ۴۰ دن کا روزہ مناسب اور چالیس دن کا روزہ فرض سمجھتے تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی یہ حکم ہوا کہ وہ اپنے رسول کی پیروی میں چند دن اس طرح گزاریں۔
۲) روزہ کی مشروعیت میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ اس میں اس بات کا خاص اشارہ ہے کہ ۱۲ مہینوں میں ایک مہینہ ہر مسلمان کو اس طرح بسر کرنا چاہئے کہ دن رات میں ایک وقت کا کھانا کھائے اور ہوسکے تو ایک وقت کا کھانا اپنے فاقہ زدہ محتاج اور غریب بھائیوں کو کھلادے۔ ان تمام احکام پر نظر ڈالئے جو فدیہ اور کفارہ سے متعلق ہیں تو معلوم ہوگا کہ ان سب مواقع میں روزہ کا بدل غریبوں کو کھانا کھلانا قرار دیاگیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ اور غریبوں کو کھانا کھلانا یہ دونوں باہم ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں۔
۳) انسان گو کتنا ہی ناز و نعمت میں پلا ہو اور مال و دولت سے مالا مال ہوتا ہم زمانہ کا انقلاب اور زندگی کی کشمکش اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بنائے۔ جہاد کے ہر متوقع میدان کیلئے بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط سے اپنے آپ کو آشنا رکھنے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ ایک قسم کی جبری فوجی ورزش ہے جو ہر مسلمان کو سال میں ایک مہینہ کرائی جاتی ہے تاکہ وہ ہر قسم کی جسمانی مشکلات کے اٹھانے کے لئے ہر وقت تیار رہے اور دنیا کی کشمکش جدوجہد سختی و محنت کا پوری طرح مقابلے کرسکے۔
۴) انسان اگر اپنے دن رات کے اشغال اور مصروفیتوں پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کے وقت کا ایک اچھا خاصہ حصہ محض کھانے پینے اور اس کے اہتمام میں صرف ہوجاتا ہے اگر انسان ایک وقت کا کھانا پینا بندکردے تو اس کے وقت کا بڑا حصہ بچ جائے۔ یہ وقت خدا کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں صرف کیا جاسکتا ہے۔
۵) روزہ بہت سے گناہوں سے انسانوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس لئے یہ بہت سے گناہوں کا کفارہ بھی ہے چنانچہ اوپر جہاں روزہ اور خیر ات کے باہم بدل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی ہے بلکہ تو رات میں تو اس کو خاص کفارہ ہی کہا گیا ہے اور اسلام میں بھی بہت سے موقعوں میں یہ کفارہ بتایا گیا ہے۔
۶) اس حقیقت کو ایک اور روشنی میں دیکھئے تو روزہ کی یہ امتیازی خصوصیت نمایاں ہو جائے گی کہ روزہ کی بھوک اور فاقہ ہمارے گرم اور مشتعل قویٰ کو تھوڑی دیر کے لئے سرد کردیتا ہے۔ کھانے اور پینے کی مصروفیت سے ہم آزاد ہو جاتے ہیں۔ دوسرے سخت کاموں میں بھی اس وقت پرہیز کرتے ہیں۔ دل و دماغ شکم سیر معدہ کے فاسد بخارات کی پریشانی سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ہمارے اندورنی جذبات میں ایک قسم کا سکون ہوتا ہے۔ یہ فرصت کی گھڑیاں، یہ قوت کے اعتدال کی کیفیت، یہ دل و دماغ کی جمعیت خاطر، یہ جذبات کا پرسکون ہونا ہمارے غور و فکر اپنے اعمال کا محاسبہ اپنے کاموں کے انجام پر نظر اور اپنے کئے پر ندامت اور پریشانی اور خدائے تعالیٰ کی باز پرس سے ڈرکے لئے موزوں ہے اور گناہوں سے توبہ اور ندامت کے احساس کے لئے یہ فطری اور طبعی ماحول پیدا کردیتا ہے اور نیکی اور نیک کاموں کیلئے ہمارے وجدانی ذوق و شوق کو اُبھارتا ہے۔
۷) تمام عبادات میں روزہ کو تقویٰ کی اصل اور بنیاد اس لئے بھی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریاء اور نمائش سے بری ہے جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے، دوسرے پر اس کا راز افشاء نہیں ہوسکتا اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاص کی بنیاد ہے۔ اس اخلاص اور بے ریائی کا یہ اثر ہے کہ اللہ نے اس کی نسبت فرمایا۔ روزہ دار میرے لئے اپنا کھانا پینا اور لذات کو چھوڑتا ہے۔ ( ملخص از سیرت النبی ۔ ۵؍۱۶۵۔۱۶۹)
سیرت کی معروف کتاب ’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ کے مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے روزہ کا ایک اور مقصد یہ بتایا ہے کہ شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر لاکھڑا کردینے سے قوم میں مساوات کے اُصول کو تقویت ملتی ہے۔ ( رحمۃ للعالمین ۔ ۱؍۲۱۰)
حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ اپنے خاص اسلوب میں روزہ کے مختلف ثمرات و فوائد پر یوں روشنی ڈالتے ہیں ’’ یہ پر بہار موسم جب کسی کے شوق و ارمان میں گزرے گا، یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسر ہوں گی ، یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک پیاس کے صرف ہوں گے، یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں ہی میں کٹیں گی تو نا ممکن ہے کہ روح میں لطافت ، قلب میں صفائی اور نفس میں پاکیزگی پیدا نہ ہو جائے۔ حیوانیت دور ہوگی۔ ملکوتیت نزدیک آئے گی اور انسان خود اپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے کہ سوز دل اور تیز ہوجائے، قرب و وصل کی تڑپ اور بڑھ جائے، تزکیہ و مجاہدہ کے اثر سے زنگ دور ہوکر کسی کا عکس قبول کرنے کے لئے آئینہ قلب بے قرار اور مضطر ہونے لگے۔ نماز میں جس طرح عبدیت کی تکمیل ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح روزہ دار کو اخلاق الٰہی کے ساتھ کسی درجہ مناسبت و شباہت پیدا ہوجاتی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بے نیازی، صبر و ضبط ، قوت و اختیار، حلم و تحمل ، عفو و درگزر یہ سب شانیں بندہ کی ہیں یا مولیٰ کی؟ عبد کی یا معبود کی؟ پھر یہ کیوں کرہے کہ جو شئی کچھ ہی دیر کے لئے سہی آپ میں اس کیفیت سے مناسبت پیدا کررہی ہو، جوشئی ذرہ میں آفتاب کا پر توڈال رہی ہو، جو شئی آئینہ میں جلا پیدا کرکے اسے نورانیت کا ملہ کا عکس قبول کرنے کے قابل بنارہی ہو آپ اس نعمت عظیم کی جانب لپکنے میں تامل کرر ہے ہیں۔ ( تفسیر ماجدی ۱؍۵۲۷ ۔ ۵۲۸)
روزہ کے جسمانی اور طبی فوائد انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ روزہ کے فوائد کوشمار کرتے ہوئے ہمارے علماء نے اجمالی طورپر طبی فوائدکا بھی ذکر کیا ہے لیکن مغربی ماہرین طب کی تحقیقات کے ذریعہ جو حقائق سامنے آئے وہ حیرت انگیز ہیں۔ یہاں مغربی مفکرین اور میڈیکل سائنس کے ماہرین کے کچھ تاثرات نقل کئے جاتے ہیں ۔
پروفیسر مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں۔ انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزہ کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔ میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانوں کے طرز پر رکھنا شروع کردئیے۔ میں عرصہ دراز سے معدہ کے ورم میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے میں نے روزہ کی مشق جاری رکھی پھر میں نے جسم میں کچھ اور تبدیلی بھی محسوس کی اور کچھ ہی عرصہ بعد میں جسم کو نارمل پایا حتیٰ کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔
پوپ ایلف گالی ہالینڈ کا پادری گزرا ہے اس نے روزے کے بارے میں اپنے تجربات بیان کئے ہیں : ’’ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتاہوں۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعہ جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میں نے شوگر والے امراض اور معدہ کے امراض میں مبتلا افراد کو مستقل ایک ماہ روزے رکھوائے۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی اور ان کی شوگر کنٹرول ہوگئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا۔ معدہ کے مریضوں کو سب سے زیادہ افاقہ ہوا۔ ‘‘
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ نبر ائنڈ کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے۔ جسم انسانی میں مختلف ادوار آتے ہیں لیکن روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھنچاؤ اور ڈپریشن کا سامنا نہیں ہوتا۔ ( سنت نبوی اور جدید سائنس ۱۶۵۔۱۶۷)
نظام ہضم پر روزوں کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے حکیم طارق محمود چغتائی لکھتے ہیں : ’’ روزہ ایک طرح سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگرکے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ مزید پندرہ عمل ہوتے ہیں۔ روزہ کے ذریعہ جگر کو چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزہ کے بغیر ناممکن ہے۔ جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے ۔ روزے کے ذریعہ گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفہ کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توازن فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے بنتا ہے۔ دن میں روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈالیسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزہ کا سب سے بڑا اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چوں کہ روزہ کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہو جاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ روزہ کے دوران ہماری خواہشات چوں کہ علحدہ ہو جاتی ہیں اس وجہ سے ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو صحت اور اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ( حوالہ سابق ۱۷۱ ۔ ۱۷۵ ملخص)
روزہ اپنے اندر معاشی اور اقتصادی فوائد بھی رکھتا ہے۔ روزہ کے اقتصادی فائدہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ روزہ انسان کو صحت مند اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ جب سماج میں بیماریوں میں کمی ہو جائے گی تو علاج و معالجہ پر خرچ کی جانے والی لاکھوں کی رقم کی بچت ہوگی۔ ورنہ آج کا انسان اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ علاج اور دواؤں پر خرچ کرتا ہے۔
روزہ کے معاشرتی فوائد تو واضح ہیں۔ روزہ انسان کو ایک با اخلاق اور ذمہ دار انسان بناتا ہے۔ اس کے اندر غریبوں کے درد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ روزہ کی حالت میں جب آدمی کو بھوک پیاس کا احساس ہو تا ہے تو اس کو بھوکوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ نیز روزہ کے ذریعہ آدمی میں صبر و ضبط اور تحمل و برداشت کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے جو معاشرتی زندگی کے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس طرح ایک روزہ انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ تاہم یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان فوائد کا ذکر ان لوگوں کے لئے ہے جو ہر چیز کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ورنہ ایک مومن کامل کے لئے اصل تعمیل حکم الٰہی مقصود ہوتا ہے وہ روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ اسے یہ سارے فوائد حاصل ہوں گے بلکہ اس لئے رکھتا ہے تاکہ رضائے الٰہی کا حصول ہو۔(ملت ٹائمز)

SHARE