نئی دہلی: (ملت ٹائمز) ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ایک ماہ سے ”مسنون نکاح“ مہم دہلی میں چلائی جارہی تھی اس مہم کے اختتام پر 24اپریل بروز بدھ کو ایک خصوصی اجلا س برائے خواتین ایوان غالب ماتا سندری لین نئی دہلی میں رکھا گیا۔ اس اجلاس میں پرانی دہلی، نئی دہلی اور قرب جوار کی خواتین و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں خطاب کرنے کےلئے رامپور، دیوبند، سنبھل، جے پور اور جموں کی فعال خواتین نے بھی شرکت کی اور اجلاس سے خطاب کیا۔
اجلاس کا اغاز قرآت کلام پاک اور درس قرآن سے ہوا۔ محترمہ ممدوحہ ماجد صاحبہ رکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے افتتاحی کلمات پیش کیا۔
محترمہ طیبہ کامل صاحبہ نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں احکام نکاح سمجھائے۔ انہوں نے کہا نکاح میں ایجاب وقبول اور مہرلازمی ہے اور دونوں فریقین کی طرف سے دو دو گواہ کا ہونا ضروری ہے، اسمیں سادگی ہے اور یہ سادگی رحمت ہے۔
محترمہ بشریٰ فاطمہ صاحبہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ نکاح کے سنت طریقہ میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور برکت رکھی ہے۔ جہیز کی لعنت سے سماج کھوکھلا اور کمزور ہوتا جارہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جہیز کی لعنت سے سماج کو بچایا جائے۔
محترمہ حمیرہ صاحبہ رامپور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسلام خدا کا عطا کردہ قانون ہے، یہ دین ہماری آزادی اور پابندی کے حدود کو طے کرتاہے۔ اس دین میں کوئی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ نکاح کے سلسلہ میں اسلام میں مکمل رہنمائی کی گئی اور اسے عبادت قرار دیا گیا ہے، خوشی کے اظہار کے طریقے اگر سنت سے ثابت ہیں تو ہم عمل کرسکتے ہیں لیکن اگر یہ طریقہ رسومات باطل اغیار اقوام کے ہیں تو حدیث میں ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہے۔ ہم کو اپنی اصلاح کرنی ہے اور مکمل دین کی اطاعت اور فرماں برداری میں لگ جانا ہے۔
محترمہ ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ صاحبہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نکاح کے رشتے میں مضبوطی کے لئے کوشش کرنا ہے اصلاح معاشرہ کے ہر کارکن کے لئے ضروری ہے۔ ہم اگر لڑکے اور لڑکی کو شادی سے پہلے اس رشتے کی عظیم ذمہ داری سے واقف کروائیں یہ بے حد ضروری ہے۔نکاح کو اسلام میں آدھا ایمان کہا گیا ہے اور اس ایمان کو مکمل کرنے میں ہمیں شرعی حدود کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ اسکی برکت سے ہماری صالح نسل پروان چڑھے۔
محترمہ خورشیدہ خاتون صاحبہ دیوبند نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ صراحتاً ثابت ہے کہ مہر محض عورت کا حق ہے اور اسے نکاح کے بعد ادا کرنا فرض ہے، اگر یہ باقی رہ گیا تو یہ ایک قرض ہے جس کا ادا کرنا فرض ہوگا۔ جو معاف نہیں کیا جاسکتا یہاں تک کہ ایک حدیث کے مطابق قرض رکھنے والے شہید کو بھی معافی نہیں ہے۔ مہر کی ادائیگی میں اصل جلداز جلد ادا کرنا ہے۔ مہر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کہ مہر کی مقدار اتنی زیادہ مقرر کردی جائے کہ مرد کبھی بھی اپنی عورت کو طلاق دینے کی ہمت نہ کرسکے اور خدانحواستہ طلاق کی نوبت آتی ہے اور طلاق دیتا ہے تو اسے یہ بھی رقم ادا کرنی پڑیگی۔
ڈاکٹر اسماءزہرہ صاحبہ ویمنس ونگ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ”اللہ کی نشانیوں میں ہے کہ تمہارے لئے تمہارے ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاﺅ“ جہاں اللہ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک بڑی نعمت رشتہ ازدواج (نکاح کا رشتہ) ہے، یہ نکاح کی سنت ایک عبادت بھی ہے اور صالح معاشرہ کی تعمیر اور تشکیل کے لئے عظیم بنیاد ہے اور نسل انسانی کی ترقی اور فروغ کے لئے ایک قدرتی نظام ہے، نکاح کی بنیادیں دین داری اور تقویٰ پر ہو، لڑکا اور لڑکی کا انتخاب کے موقع پرقرآن و حدیث اور شریعت کے احکام کو اہمیت دیںگے تو دنیا اور آخرت کی فلاح سے ہم ضرور ہمکنار ہوںگے۔ آج ہم سب کو ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالنا ہے، ہمارے گھروں کی شادیوں سے بے جا رسومات، بدعات، خرافات، منکرات، بے حیائی اور باطل اقوام کے طور طریقہ کو نکال پھینکنا ہے، مہنگی شادیوں کے بوجھ سے ہماری معیشت جو کمزور ہورہی ہے اسے ختم کرنا ہے اور سادگی کو اپناتے ہوئے بلا قرض سنت طریقہ اختیار کرنا ہوگا اور یہاں سے یہ عہد کرکے جائیں کہ ہم آج سے شریعت کے مطابق عمل کریں گے۔
اس اجلاس کومحترمہ مبینہ رمضان صاحبہ جموں، محترمہ ذکیہ معین ایڈوکیٹ صاحبہ حیدرآباد، محترمہ یاسین فاروقی صاحبہ جے پور وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ اس اجلاس میں عارفہ حیدر خان سمیت سیکڑوں خواتین و طالبات نے شرکت کی۔