اگر آپ یہ فیصلہ کنہیار کمار کے حق میں کرتے ہیں تو سیکولرزم کی مضبوطی کاپیغام جائے گا ،شدت پسندوں اور آئین پر یقین نہ رکھنے والوں کی ہمت پست ہوگی۔ نوجوانوں کو حوصلہ ملے گا ۔نئی نسل میں الیکشن لڑنے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔اگر ڈاکٹر تنویر حسن کے حق میں آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں تو گری راج کو روکنے میں کامیابی مل جائے گی لیکن یادرکھیئے! مسئلے کا حل صرف گری راج کو روکنا اور بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنا نہیں
خبر در خبر (609)
شمس تبریز قاسمی
عام انتخابات 2019 میں بیگوسرائے سب سے ہاٹ سیٹ بن گئی ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حالیہ انتخاب میں سونیاگاندھی کے حلقہ انتخاب رائے بریلی ، راہل گاندھی کے حلقہ انتخاب امیٹھی ،نریندر مودی کے حلقہ انتخاب وارنسی سے بھی زیادہ موضوع بحث بیگوسرائے لوک سبھا سیٹ ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جے این یو اسٹوڈینٹ یونین کی تحریک سے سیاست میں قدم رکھنے والے کنہیار کمار وہاں سے لوک سبھا کا الیکشن لڑرہے ہیں جن کے سامنے دو مضبوط امیدوار ہیں ۔بی جے پی سے گری راج سنگھ اور مہاگٹھبندن سے آرجے ڈی کے ٹکٹ پر ڈاکٹر تنویر حسن ۔
کنہیار کمار الیکشن لڑنے والے امیدواروں میں سب سے زیادہ موضوع بحث ہیں ۔ ملک بھر میں ان کے نام کا ذکر ہورہاہے ۔ فلم ،صحافت ،سماج سمیت مختلف شعبہائے حیات سے تعلق رکھنے والے بیگوسرائے میں پہونچ کر ان کیلئے ماحول بنارہے ہیں اور زمین پر کام کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی جیت آسان نہیں نظر آرہی ہے کیوں کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا وہاں شدید خدشہ ہے اور ماہرین کا مانناہے کہ سیکولر ووٹ وہاں دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور بی جے پی امیدوار گری راج سنگھ بآسانی جیت جائیں گے ۔
بیگوسرائے میں بھومیہار رائے دہندگان تقریبا چار لاکھ پانچ ہزار ہیں ۔ مسلم رائے دہندگان کی تعداد دولاکھ پانچ ہزار ہے جبکہ یادو رائے دہندگان کل 80 ہزار ہیں ۔ بقیہ گیارہ لاکھ رائے دہندگان کا تعلق دلت اورآدی واسی طبقے سے ہے ۔
2014 میں وہاں بی جے پی کے امیدوار آنجہانی بھولاسنگھ کو 60000 ووٹوں سے جیت ملی تھی جنہیں کل 39 فیصد ووٹ ملا تھا جبکہ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر تنویر حسن تھے جو 34 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ تیسرے نمبر پر وہاں سی پی آئی امیدوار راجند ر پرساد تھے جنہیں کل 17 فیصد ووٹ ملاتھا ۔ بیگوسرائے کو کمیونسٹوں کا گڑھ ماناجاتاہے حالاں کہ وہاں سے صرف ایک مرتبہ سی پی آئی امیدوار کو 1967 میں کامیابی ملی ہے ۔
2019 کے عام انتخابات میں سبھی کی نظر بیگوسرائے پر ہے ۔ دانشوران کا مانناہے کہ بیگوسرائے میں دونظریہ کے درمیان لڑائی ہورہی ہے ایک ہندتوار اور رشٹرواد کا نظریہ ہے جو ملک کیلئے سنگین خطرہ ہے دوسرا سیکولرزم کا نظریہ ہے جس کی جنگ کنہیا رکما ر لڑرہے ہیں لیکن کنہیار کمار کی جیت آسان نظر نہیں آرہی ہے کیوں کہ بھومیہار وں کا بی جے پی سے اٹوٹ رشتہ ماناجاتاہے اور وہاں بھومیہار ووٹ سب سے اہم کردار اد اکرتے ہیں ۔دوسری طرف مسلمانوں ،یادو اور دلتوںکے ووٹس پر ڈاکٹر تنویر حسن اور کنہیا کمار دونوں کی نظر ہے اور یہ ووٹ دوحصوں میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں کیوں کہ ڈاکٹر تنویر حسن بھی مضبوط امیدوار ہیں ۔ طالب علمی کے زمانے سے سیاست میں فعال ہیں ۔ پانچ مربتہ ایم ایل سی رہ چکے ہیں ۔گذشتہ انتخابات میں صرف 60 ہزار ووٹ سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ اس لئے مسلم یادو اور دلت ووٹس کے ایک بڑے حصے پر وہ اثر انداز ہوں گے ۔ کنہیار کمار خود بھومیہار ہیں لیکن ان کی امیدیں اپنی کمیونٹی سے زیادہ مسلمانوں اور دلتوں سے وابستہ ہیں اور اسی ووٹ بینک کو اپنی جانب منتقل کرنے کی وہ مسلسل جدوجہد کررہے ہیں ۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ ڈاکٹر تنویر حسن اور ڈاکٹر کنہیا کمار ایک دوسرے کے خلاف بولنے اور ایک دوسرے کو مقابل ماننے کے بجائے گری راج سنگھ کو اپنا مقابل بنارہے ہیںاور انہیں ہرانا اپنا مشن بنا رکھا ہے تاہم بیگوسرائے کی زمینی صورت حال بتارہی ہے کہ بیگوسرائے میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے اس مرتبہ بھی بی جے پی کی بآسانی جیت ہوجائے گی ۔ گراج راج کو روکنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ڈاکٹر تنویر حسن اور کنہیا رکمار میں سے کوئی ایک قربانی پیش کریں لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ قربانی کون پیش کرے ؟۔میدان کون چھوڑے ؟۔
ملک بھر میں موجود کنہیا ر کمار کے حامیوں کا کہناہے کہ کنہیار کمار تنہا ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ اور آئیڈیا لوجی کا نام ہے بیگوسرائے سے کنہیار کمار کی شکست ہوجاتی ہے تو یہ پیغام جائے گاکہ ہندوستان میں سیکولرز م کمزور ہوچکی ہے ۔ شدت پسندی اور نفرت کی سیاست حاوی ہوچکی ہے ۔ ڈاکٹر تنویر حسن کے حامیوں کا کہناہے کہ گذشتہ الیکشن میں انہوں نے بی جے پی کو سخت ٹکر دیاتھا اس لئے اس مرتبہ بھی وہی بی جے پی کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ان کے حامیوں کا یہ مانناہے کہ اگر ڈاکٹر تنویرحسن میدان چھوڑتے ہیں توان کاسیاسی کیریئر داﺅ پر لگ جائے گا اور پارٹی ان کے ساتھ سوتیلا سلوک کرے گی اس لئے بہتر حل یہ ہے کہ آر جے ڈی پر دباﺅ بنایاجائے اور وہ خود اپنے امیدوار کو وہاں سے دعویدای واپس لینے کیلئے بولے ۔
بہر حال بیگوسرائے میں مقابلہ سخت ہے اور گری راج کو روکنے کیلئے واحد حل یہی ہے کہ ڈاکٹر تنویرحسن اور کنہیا کمار میں سے کوئی ایک قربانی دیں ورنہ بی جے پی دوبارہ وہاں جیت جائے گی اور یقینی طور پریہ پیغام جائے گا ہندوستان میں نفرت پسندی کی جڑیں گہری ہوگئی ہیں ۔یہاں اس بات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے کہ بیگوسرائے میں مسلم ووٹس کسی کی فتح اور شکست کا میں کردار ضرور اداکرسکتے ہیں لیکن تنہا مسلم ووٹ کسی کی جیت اور ہار کا سبب نہیں بن سکتے ہیں ۔یادو ووٹ بھی وہاں زیادہ نہیں ہیں ۔ بھومیہار ووٹ وہاں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ دلت ووٹوں کابھی کسی کی جیت اور ہار میں نمایاں کردار ہوتاہے ۔ اگر ڈاکٹر تنویرحسن اور کنہیار کمار میں سے کوئی ایک میدان نہیں چھوڑتے ہیں تو نتیجہ اسی وقت گری راج کے خلاف آئے گا جب کسی ایک کو دلت ووٹ یکطرفہ طور پر ملے گا۔اگر یہ ووٹ دو یا تین حصوں میں تقسیم ہوجاتاہے تو پھر 23 مئی کو بیگوسرائے سے شاید کوئی اچھی خبر نہ مل پائے ۔
ابھی بھی وقت ہے ۔ اس لئے سوچئے ،غور وفکر کیجئے ۔ ارد گرد کے ماحو ل کا جائزہ لیجئے اور کوشش کیجئے کہ کوئی ایک امیدوار میدان چھوڑ دیں اگر آپ کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوپاتی ہے تو پھر کسی ایک کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں اور انہیں یکطرفہ طور پر ووٹ کرکے کامیاب بنائیں ۔اگر آپ یہ فیصلہ کنہیار کمار کے حق میں کرتے ہیں تو سیکولرزم کی مضبوطی کاپیغام جائے گا ،شدت پسندوں اور آئین پر یقین نہ رکھنے والوں کی ہمت پست ہوگی۔ نوجوانوں کو حوصلہ ملے گا ۔نئی نسل میں الیکشن لڑنے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔اگر ڈاکٹر تنویر حسن کے حق میں آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں تو گری راج کو روکنے میں کامیابی مل جائے گی لیکن یادرکھیئے! مسئلے کا حل صرف گری راج کو روکنا اور بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنا نہیں بلکہ اس نظریہ اور فکر کو شکست دینا ہے جو ملک کے آئین کیلئے خطرہ ہے ۔جس کی وجہ سے انصاف ،مساوات ،آزادی اور بھائی چارہ کا فقدان ہورہاہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com