سیاسی شعور کو بیدار کیجئے 

 فیروز احمد 

اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنادیا جائے لیکن ا س کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہوجائے ۔ (مولانا ابوالحسن علی ندوی، کاروان زندگی)۔

ملک کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی یہ باتیں آج کل واضح طور پر سامنے آرہی ہیں، مدرسوں پر طرح طرح کے الزامات اور کروگرام ہریانہ میں جبراً مسجد کو بند کرنا اور مختلف جگہوں پر نماز پڑھنے کی پابندی اسی طرح مسلمانوں کو ماب لنچنگ کر کے قتل کرنا ا ور پوری مسلم قوم میں خوف و ہراس پیدا کرنا، یہ سب وہ باتیں ہیں جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت نازک دور میں داخل ہورہی ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں بلکہ لگتا ہے آسام کے مسلمانوں کی حالت سے ہم بے خبر ہیں جہاں خود اپنے ملک میں رہتے ہوئے ان کو ملک بدر کرنے کا ڈر ستارہا ہے اور ہم برما کے حالات سے بھی سبق نہیں لے رہے ہیں جہاں پہلے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا اختیار چھینا گیا اور بعد میں مسلمانوں کو چن چن کر مارا کاٹا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا، جس کا ابھی کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ بی جے پی صدر امت شاہ کی کھلی دھمکی کہ اگر آیندہ حکومت ہماری آتی ہے توہم پورے ملک میں شہریت بل لاگو کریں گے اور غیر ہندوؤں کو ملک سے باہر کر دیں گے ۔ اور کئی لیڈروں کی دھمکی آمیز باتیں کہ اس الیکشن کے بعداب کوئی الیکشن نہیں ہوگا ، ہندوستان کے قانون کو بدل دیا جائے گا اور ہندو راشٹر قائم کردیا جائے گا ، اس طرح کی اور باتیں ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

دراصل ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ رکھا ہے ، دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے ہم میں سے بعض تو اس حد تک سیاست سے کنارہ کشی کئے ہوئے ہیں کہ اس پر بات کرنا یا کسی مناسب امیدوار کی تائید کرنا بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیاست گندی چیز ہے اس سے دور ہی رہا جائے ۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیا خوب کہا ہے : ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو 

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیاست اگر اسلامی نقطۂ نظر سے کیا جائے تو یہ اصلاً خدمت خلق ہے جس میں پوری انسانیت شامل ہے مسلمان ہندو یا سکھ عیسائی کی کوئی تفریق نہیں، یہی وجہ ہے اگر ہم اسوۂ رسول ﷺکو دیکھیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ کسی بھی نزاع کے اندر فیصلہ کرنے میں  ا سلامی اصول عدل و انصاف کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے یہ نہیں دیکھا گیا ہے کہ فیصلہ غیر مسلم کے حق میں جاتا ہے یا مسلمان کے حق میں جاتا ہے۔

اگر یہی اصول عدل و انصاف اج کل ملک کی سےاست میں اپنا ےاجائے تو یقیناً سماج کا ہر طبقہ ساتھ آجائے گا اور ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں جو نفرت بھر دی گئی ہے اس کے اندر محبت اور بھائی چارگی پیدا ہوجائے گی۔

آج کل ملک میں ووٹ اور جمہوری حق کے استعمال کرنے ، پارلیامنٹ میں اپنا صحیح نمائندہ بھیجنے کا موقع مل رہا ہے ، جو ہماری آواز بن کر ہمارے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ اورقانون کا مقابلہ کرنے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجائے، اس کے لئے سب سے پہلے ہم کو حد سے زیادہ چوکنا بھی رہنا ہوگا اور آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ کسی ایک ہی امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا تاکہ ہمارا ووٹ منتشر ہوکر بے وقعت نہ ہوجائے ، ہم بہت سے معاملات میں خواہ دینی ہو یا دنیاوی، مل بیٹھ کر ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ائندہ کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں خاص کر اگر ہم کوئی دینی جلسہ یا کوئی پروگرام کرتے ہیں تو اس کے لئے مہینوں پہلے ضلع ، بلاک ، قصبہ ، گاوں ، محلہ ہر سطح پر محنت کرتے ہیں کہ کس طرح جلسہ یا پروگرام کامیاب ہوجائے اور لوگوں کی اچھی بھیڑ جمع ہوجائے ، تو کیا ہم ملک کے موجودہ نازک حالات میں ہم اپسی اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر مسلمانوں کےلئے ہندوستان میں بقاء اور چین کی زندگی جینے کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار نہیں کرسکتے اگر ہم نے اس میں کوتاہی برتی تو ہماری حالت ویسی ہی ہوجائے گی کہ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ۔

(مضمون نگار متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں