مسلم ووٹ اور لوک سبھا کا انتخاب 2019 ٭ خواتین کی نماز اورتسلیمہ نسرین ٭ جوتے اہم، کتابیں غیراہم ٭ رمضان کریم

سید منصور آغا، نئی دہلی

لوک سبھا انتخابات کے 7 میں 4مرحلے پورے ہوگئے۔ پانچواں جاری ہے۔ پولنگ 6 مئی کو ہوگی۔ باقی دومرحلوں کے لیے پولنگ 12اور19مئی کو ہوگی۔ بنگال میں وزیراعظم مودی نے یہ اعلان کرکے کہ 40ٹی ایم سی ایم ایل اے ان کے رابطے میں ہیں، یہ اشارہ دیدیا ہے کہ لوک سبھا میں اکثریت نہ ملی تو ممبران اورچھوٹی پارٹیوں کو خریدلیا جائے گا، جیسا کئی ریاستوں میں ہوا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ پی ایم اس حد تک اترآئے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے اس الیکشن کوکوشش کے باوجود مسلم مخالف لہر میں تبدیل نہیں کیا جا سکا جیسا کہ شمشان، قبرستان، رمضان اوردیوالی پر بجلی کے شوشے چھوڑ کر یوپی اسمبلی چناؤ میں کر لیاگیا تھا۔اس کے لیے اہم مسلم شخصیات اوررائے دہندگان کی خاموشی کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے بعض دوستوں کو تکلیف ہے کہ مسلم ووٹرایک ناکے میں نہیں نکلے۔ ہمارے خیال سے یہ اچھا ہوا۔انہوں نے ایک مرتبہ پھرثابت کردیا کہ وہ فرقہ پرستی سے دور ہیں۔ اورہراچھے امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔ جیسا بیگوسرائے میں ہوا۔

انتخاب کے اصل فریق: 2019کی انتخابی لڑائی ’ہندتووا لاؤ‘ اور ’سیکولرآئین بچاؤ‘ کے درمیان تھی۔ مسلم رائے دہندگان کے رویہ نے اس میں مفیدرول ادا کیا جس سے سنگھیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمیں یہ بات ڈنکے کی چوٹ کہنی چاہئے کہ مسلم ووٹ فرقہ پرستی کے خلاف گیا ہے۔ الیکشن میں مسلمانوں نے بھیڑاچال نہیں چلی کہ ایک بھیڑ جس طرف چل پڑی ساری بھیڑیں اسی کے پیچھے ہولیں۔ رائے دہندگان نے اپنی ترجیح اپنے شعور کے مطابق طے کی۔وہ کہیں بھی سیاسی فرقہ پرستی کے جال میں نہیں پھنسے۔ ہمارے انتخابی نظام کی خرابی یہ ہے کہ ووٹ ذات، برادری، قوم اوردھرم کے نام پربٹ جاتا ہے جس سے خراب امیدوار ایوان میں پہنچ جاتا ہے اور بہتر میدان میں کھڑا رہ جاتا ہے۔

ووٹ کسے دیں؟ امیدوار کے انتخا ب کا ایک معیار تو یہ ہے کہ جو اچھا ہے اس کو چن لو، برے کوچھوڑ دو۔ اب اگرمیدان میں کوئی بدیع عالم جیسا نہیں،سب برے ہیں، تو ووٹ اس کو دینا چاہئے جو بروں میں سب سے کم برا ہو۔ اگرایک غیرمسلم امیدوار عوام کی خدمت بہترطورسے کرسکتا ہے تواس کو ترجیح دی جانی چاہئے نہ کہ اپنی ذات برادری یا دھرم کے کسی ایسے امیدوار کو جس سے بھلائی کی توقع کم ہواورخودکی جیب بھرائی کا اندیشہ زیادہ ہو۔ مجھے کئی مسلم رہنماؤں، دانشوروں اورکالم نویسوں کی یہ بات پسندآئی کہ انہوں نے بیگوسرائے میں، جہاں معاملہ شرعظیم کو شکست دے کرپورے ملک کو ایک پیغام دینے کا تھا، رائے دہندگان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ہم قوم امیدوارکے بجائے اس امیدوار کوووٹ دیں جو سنگھی فساد کے خلاف ایک علامت بن گیا ہے اورسیاسی شرکا مقابلہ زیادہ مضبوطی اورسمجھ داری سے کرسکتا ہے۔

اسی دوران ہمارے بعض دوستوں نے اس پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ ’مسلم ووٹ‘ ایک جگہ نہیں پڑا۔ یہ کچھ نیا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک کی انتخابی تاریخ،سیاسی ماحول اورانتخابی نظام اورسیاسی ضرورت، سب کا تقاضا ہے کہ ووٹ مقامی اورقومی ترجیحات کو سامنے رکھ کر ہو اور مذہب، ذات اورفرقہ ہرگز وجہ ترجیح یا ناپسندیدگی نہ بنے۔ ہمارا نمائندہ ایسا ہوجو عوام کو بانٹے کا کام نہ کرے بلکہ علاقے میں ترقیاتی کام کرواسکے۔ جولوگ مسلم ووٹ متحد ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کا استعمال مخالفین کس طرح کرتے ہیں؟ رہا ایوان اقتدار میں مسلم نمائندگی کا خیال، تو یہ حقیقت نگاہ میں رہے کہ قانون ساز اداروں میں کوئی ممبر اپنے فرقے کا نہیں اپنی پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اسی کی ہدایت کے مطابق ایوان میں رخ اختیارکرتا ہے اور ووٹ دیتا ہے۔ہمارا ایک مشاہدہ اورہے۔ 2007کے اسمبلی الیکشن میں یوپی میں ریکارڈ56مسلم امیدوار چن کر آئے۔ ہمارے یاد نہیں کہ ان ممبران نے کبھی خاص مسلم مسائل پر کوئی مشترکہ رخ اختیارکیا ہو۔ اس سال لوک سبھا چناؤ میں سیاسی ماحول کے دباؤ میں مسلم امیدوار بہت کم ہیں۔قانون ساز اداروں میں مختلف مذہبوں اور فرقوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے اعتبارسے ہوتی تو جمہوریہ ہند کی بہترشبیہ عالمی برادری میں بنتی اوردنیا جان لیتی کہ ہندستانی جمہوریت اکثریتی فرقہ کی بالادستی پر نہیں بلکہ ایک فلاحی ریاست کے عوام کی بہبود کی بنیاد پر قائم ہے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔لوک سبھا کے پہلے ہی چناؤ میں امیدوارآبادی کو دیکھ کرکھڑے کیے گئے۔ اب بات بہت دورچلی گئی ہے۔ کانگریس خود فرقہ ورانہ تقسیم کے سنگھی جال میں پھنس گئی اوریہ سمجھ بیٹھی کہ تالا کھلوادینے،شیلانیاس کروا دینے اور رام راجیہ کا نعرہ لگادینے سے پالا مارلیں گے۔ اس نے زہر کا تریاق زہرمیں تلاش کیا اورخود بے لباس ہوگئی۔ مگرجیسا کہ اوپر عرض کیا، جب دو برائیوں میں انتخاب ہو تو کم ترکو چن لینا چاہئے۔ بھاجپا کے مقابلے کانگریس اوراس کے بعد علاقائی پارٹیاں بہتر ہیں۔ ہرچند کو ان کو بھی بھاجپا کی گود میں جانے میں اعتراض نہیں۔بہرحال یہ انتخابی دورتواب ختم کے قریب ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ پیشگی قیاس آرائی فضول ہے۔دیکھا گیا ہے کہ نتائج تمام اندازوں اورپیش گوئیوں کے بالکل الٹ نکل آتے ہیں۔

 نماز اور تسلیمہ نسرین: تسلیمہ نسرین کا ایک مضمون’مسجد میں مہیلاؤ ں کا پرویش‘ عنوان سے 20اپریل کے ہندی اخبار’امراجالا‘ میں شائع ہوا ہے۔ یہ خاتون عرصہ سے گمراہی میں گرفتار ہیں۔ ان کو برابھلا کہہ کر مطمئن ہوجانا کافی نہیں۔ وہ نفیساتی طورسے متاثر ہیں اور توجہ اورہمدردی کی مستحق ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں نماز کے لیے مسلم خواتین کو روکے جانے کے خلاف عذرداری کے حوالے وہ بات کہہ دی ہے جو اس طرح کی مہمات کی اصل ہوتی ہے۔ لکھا ہے ”جب خواتین کو مسجد میں مردوں کی نظروں سے بچ کر ہی نماز پڑھنی ہوگی تو پھر برابرکا حق کہاں ہوا؟ مسجد میں نماز کی اجازت مل بھی گئی تو ان کو مردوں کے ساتھ ایک ہی قطار میں نماز نہیں پڑھنے دی جائے گی“…… ”کیونکہ عورتوں کا امام بننا یہ مردوں کے ساتھ صف میں نماز پڑھنا حرام ہے۔“

وہ لکھتی ہیں، ”یہ سمجھنے کی بات ہے کہ مذہب کے دائرے میں رہ کر مساوی حقوق کی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لئے مذہب کے دائرے سے باہر نکلنا ضروری ہے۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے مسلم لڑکیاں کیا نکاح، طلاق اورورثہ میں برابرکے حق کی مانگ کرسکیں گی؟ اسلام پرایمان رکھنے پر اسلام میں مردوں میں اورعورتوں میں اونچ نیچ پر بھی ایمان رکھنا ہوگا۔“

یہ ارتداد کی کھلی دعوت ہے۔ اس تحریر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں اصلاح کی نہیں بلکہ ارتداد کی فکرمند ہیں۔ طنز کیا ہے مسلم خواتین تو وہی کریں گیں جو نبی نے کہہ دیا۔ عرض یہ ہے مسلم خواتین نماز گھرمیں پڑھیں یا مسجد میں،اس کو کیا لینا دینا جو خود اسلام کی حقانیت اورافضلیت پر یقین نہ رکھتا ہو اوراسلام اس کا نظریہ زندگی نہ ہو؟

ایک تصویر: دہلی میں مقیم ایک سول انجنیر فیروز مظفرنے، جو جامعہ ملیہ سے فارغ ہیں ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں اوپرجوتوں کے ایک شاندار شوروم کا منظرہے۔ جوتے شیشوں کے اندرسجے ہیں۔ اسی کے ساتھ فٹ پاتھ کی تصویر ہے جس پر کتابیں بکھری ہوئی ہیں اورایک شخص اکڑوں بیٹھا ہوا ایک کتاب دیکھ رہا ہے۔ ان پرکیپشن لکھا ہے: ”جب شیشے کی الماری میں رکھ کر جوتے بیچے جائیں اورکتابیں فٹ پاتھ پر فروخت ہوں توسمجھ لینا چاہیے قوم کو علم کی نہیں بس جوتوں کی ضرورت ہے۔“

یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی میں کتابوں کی اہمیت روز کم ہورہی ہے۔ تقریب ہوتی ہے تو دنیا بھر کے تحفے دئے جاتے ہیں، مگر کتاب کوئی نہیں ہوتی۔ ہمارے گھروں میں جوتوں کے لیے توالماری ہوتی ہے، کتابیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہرچند کہ انٹرنیٹ پر بے شمارنادرکتابیں موجود ہیں۔ میں نے خود کئی بار ان سے فائدہ اٹھایا لیکن سچائی یہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی، ٹی وی، اسکرین ٹچ موبائلس نے ایسا مصروف کردیا کہ کتاب پڑھنے کو وقت ہی نہیں رہتا۔چند دہائی قبل تک صبح کوبہت سے گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز آتی تھی، اب سناٹا رہتا ہے۔کچھ لوگ میوزک کی طرح کسی قاری کا ٹیپ لگالیتے ہیں اوردوسرے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

رمضان مبارک: ماہ رمضان چندروز میں شروع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکتوں سے سرفراز کرے۔ اپنی صحت اوررمضان کی مصروفیت کی وجہ سے آئندہ چند ہفتے کالم پیش نہیں کرسکوں گا۔ دعا کی درخواست۔