تعاقب
آبیناز جان علی، موریشس
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ وماہی (اقبالؒ)
بقول شاعرمشرق ِ دنیا کی ہر شے کسی نہ کسی چیز یا مقصد کے حصول میں مضطرب نظر آتی ہے۔ محد سے لحد تک انسانی زندگی ایک سمت کی جانب بڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میرا یہ مضمون استاد نعمان علی خان کی یوٹیوب ویڈیو سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اس ویڈیو نے میرے ذہن کو جلا نخشی اور میں اس کو دوسروں تک پہنچانے کی متمنی ہوں۔
قرآن میں کہیں بھی براہِ راست خوشیوں کے تعاقب کا درس نہیں دیا گیا ہے بلکہ سکینہ اور طمانیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ صورۃ النجم میں اللہ فرماتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں وہی کچھ ملے گا جس کے بارے میں وہ جدوجہد کرتا ہے۔ خوشیاں حاصل کرنا آسان ہے۔ خوشیوں کا دار ومدار خارجی چیزوں سے ہے۔ آج اگر اعلان کردیا جائے کہ موسلادھار بارش کی وجہ سے اسکول بند کیا جارہا ہے تو بچے خوش ہوجائیں گے۔ خوشیاں پانا آسان ہے اور خوشیاں چھوٹی چیزوں پر محیط ہے۔ ایک دلچسپ فلم دیکھنے سے، دوستوں کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنا یا ریستوراں میں لذیذ کھانا کھانے سے خوشیاں آتی ہیں۔ اسی طرح جلدی چلی بھی جاتی ہیں۔ اس سے طبیعت افسردگی کے بابت مرجھا جاتی ہے اور دوبارہ خوشی حاصل کرنے کے لئے ہم مزید جدوجہد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک نشہ سا بن جاتا ہے لیکن انسانی زندگی میں اسے کئی تجربوں سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ تمام جذبات و محسوسات صحتمند زندگی کے حصّے ہیں۔ امتحان کی تیاری کرتے وقت یا امتحان دیتے ہوئے ہم خوشی محسوس نہیں کرتے یا ورزش کرتے ہوئے ہم خوش نہیں ہوتے لیکن جب نتیجہ سامنے آتا ہے تب ہم ضرور خوش ہوتے ہیں۔
اس سے اونچا تعاقب دوسروں کے رنگ میں رنگ جانا ہے، انہیں کی طرح دکھنا، بولنا، کپڑے پہننا اور انہیں کی طرح زندگی گذارنا ہے۔پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ہم الگ نہ دکھیں اور الگ نہ سوچیں۔ یہ کالج یا یونیورسٹی کے طلبا کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے کہ وہ اسکول میں کیسے کپڑے پہنتے ہیں۔ صبح کپڑے یا جوتے منتخب کرتے ہوئے اس با ت کا خوف لگا رہتا ہے کہ ہم کسی کے تمسخر کا نشانہ تو نہیں بن جائیں گے۔ خریداری کرتے وقت یہی خیالات شعور و ادراک پر مسلسل دستک دیتے رہتے ہیں۔ سب کی طرح دکھنے میں کافی محنت لگتی ہے۔ اس اثنا میں دوسروں کے حلقے میں شامل ہونے کے لئے وہ اپنی انفرادیت کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
اس تعاقب سے بھی اعلیٰ شہرت کے پیچھے جاناہے۔ دوسرے ہمارا مذاق نہ اڑائیں اس لئے ہم دوسروں کی کھلی اڑانے لگتے ہیں۔ انسان پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ مرکزی توجہ کا حامل ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں بات کریں یا اس کے کام کو سراہا جائے۔ اداکاروں کی زندگی میں یہ غور کیا گیا ہے کہ جب انہیں اپنے کام میں مزید شہرت نہیں مل پاتی تو وہ شرمناک حرکتوں میں منہمک ہونے سے نہیں کتراتے جس سے وہ اخبارات کی زینت بن سکیں اور انہیں مقبولیت حاصل ہو۔ اس تعاقب میں وقت، دولت اور خود پر مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگوں کے درمیان اپنا عہدہ برقرار رکھنے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
اس سے بھی بڑا تعاقب ایسی چیز یا شخص سے وابستگی ہے جو بہت قیمتی یا ممتاز ہو۔ اپنا نام کسی معتبر ادارے کے ساتھ جوڑنا باعثِ افتخار ہوتا ہے۔ کسی بڑے برانڈ یا ڈزائن کے کپڑے پہننا، گاڑی چلانا، کسی مخصوص طبقے کے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یا کسی صاحبِ جاہ و ثروت کے ساتھ سیلفی لینا باعثِ اعزاز ہوجاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو حافظ القرآن اور ڈاکٹر بنانے کے آرزومند رہتے ہیں۔ گویا دنیا اور آخرت دونوں میں اپنی جگہ محفوظ ہوگئی۔ قرب و جوار کے لوگوں کو اکثر یاد دلایا جاتا ہے کہ ہمارا صاحبزادہ حافظِ قرآن ہے اور وہ اولاد والدین کے لئے ایک تمغہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی کمپنی میں ملازمت کرنا تشہیر کی وجہ بن جاتی ہے۔
اس سے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جن کے لئے پیسے سے زیادہ کوئی بھی چیز معنی نہیں رکھتی۔ ایسے لوگوں کو دوسروں کی پرواہ نہیں۔ وہ پیسہ کمانے میں پوری توانائی صرف کردیتے ہیں۔ انہیں سستے کپڑے پہننے میں، چھوٹے گھر میں قیام کرنے میں یا چھوٹی گاڑی چلانے میں کوئی عذر نہیں کیونکہ ان کا ماہانہ مشاہرہ ایک کڑور تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ اپنے کاروبار کی توسیع و ترویج میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ انہیں رکنا نہیں آتا۔ یہاں تک پہنچنے میں بہت محنت و مشقت لگتی ہے۔
اس کے آگے ان لوگوں کا شمار ہوتا ہے جو زندگی کے ہر میدان میں بہترین کارکردگی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اول آنا چاہتے ہیں اور آگے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ تب تک خود سے خوش نہیں رہتے جب تک وہ اپنے فن میں مہارت حاصل نہ کرلیں۔ انہیں ہر حال میں بازی لے جانا ہے۔ وہ دوسروں کی طرف دھیان نہیں دیتے اور اپنا مقالہ اپنے ماضی سے کرتے ہیں۔ وہ آج جو ہیں اپنے گذرے ہوئے کل سے بہتر ہیں۔ یہی ان کے لئے باعثِ مسرت و طمانیت ہے۔ درآنحالیکہ وہ کبھی مطمئن نہیں رہتے اور مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان پر دوسروں کی تعریفوں کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کی زندگی مشین کی طرح گذرتی ہے اور وہ بس آگے جانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ سبقت پانے کا تعاقب ہی ان کا نصب العین ہے۔
اس سے بھی اعلیٰ ان لوگوں کا تعاقب ہے جو زندگی میں اپنی چھاپ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں دولت، شہرت یا اول درجہ میں نہیں رہنا ہے۔ وہ دوسروں کی بھلائی کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ دنیا میں ان کا وقت محدود ہے اس لئے وہ ایسا کام سرانجام دینا چاہتے ہیں جس سے عالم کو فیض پہنچے۔ وہ اس تسلی سے دنیاسے رخصت پانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کو دوسروں کے لئے بہتر بنایا۔ وہ اپنے ماحول، دوسرے لوگوں اور اپنے آس پاس کی چیزوں پر اپنا نقش ثبت کرجانے کی سعی میں زندگی گذارتے ہیں۔ وہ ایسے اداروں اور تنطیموں سے منسلک ہیں جو تعلیم، صحت، ماحولیات یا لوگوں کے حالات میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ وہ قرأہ ارض میں اچھائی کو فروغ دینا چائتے ہیں اور دوسروں کی فلاح و بہبودی میں معاون ومددگار ثابت ہونا چاہتے ہیں۔ اس زمرے میں بہت کم لوف شامل ہیں اور انہیں لوگوں نے دنیا کا نقشہ بدلا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے پوری زندگی جیل میں گذاری۔ منزلِ مقصود تک رسائی کے لئے وہ خود کو قربان کردیتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بھی نہیں سوچتے۔
سب سے بلند تعاقب صداقت کا ہے۔ ایسے لوگ حق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ انصاف میں یقین رکھتے ہیں اور انصاف دنیا میں پوری طرح نظر نہیں آتا لیکن اس کی فکر کئے بغیر وہ حق کے لئے کام کرتے ہیں۔ کسی خیال کے حق میں اگر پہل کی جائے اور اس کا نتیجہ نظروں سے اوجھل ہو تو یہ زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اپنے ارادے پر قائم رہنا اور لوگوں کے شک و شبہ کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنا جسارت کی بات ہے۔ اسلام کے تمام انبیاء کا تعاقب حق کے لئے تھا۔ وہ عوام میں حق کا پیغام پھیلا رہے تھے۔ قیامت کے روز ایسے لوگ جب خدا کے سامنے حاضر ہونگے چاہے ان کے پیچھے کوئی بھی نہیں ہوگا پھر بھی خدا کی نظروں میں وہ کامیاب ہونگے کیونکہ انہوں نے حق کا ساتھ دیا۔
سبق پھر بڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
جب ہم بہترین کارکردگی کا تعاقب کرتے ہیں ہم خود سے کبھی مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ خدا نے تمام انسانوں کو دنیا میں اپنی چھاپ اور اثر رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہم دنیا میں ایک دوسرے کی مدد کے لئے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے خدا نے ہم پر بہت ذمے داریاں رکھی ہیں جس کا شاید ہی ہم کو اندازہ ہوتا ہے۔ ہم سب میں بہتر عادات واطوار کی گنجائش ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور بہترین انسان بنیں اور اس کو دکھا سکیں کہ ہم کیا کیا کرسکتے ہیں۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشرمیں ہے
پیش کر غافل کوئی اگر دفتر میں ہے
خوشیاں خدا کی طرف سے رحمت بن کر آتی ہے۔اس لئے اس کا تعاقب مسلمانوں لئے معنی خیز نہیں ہے۔ ہمیں سب کی طرح نہیں بنناہے کیونکہ ہر انسان میں کمزوری ہے تو ہم ان کی کمزوریوں کی عکاسی کیوں کریں؟ ہم شہرت کے متمنی بھی نہیں ہیں کیونکہ اس انسان کی نظروں میں مشہور ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جس نے اپنی ہی زندگی کے اعراض و مقاصد نہیں سمجھا ہو۔ ہم عزت کے پیچھے بھی نہیں ہیں کیونکہ عزت خدا سے آتی ہے۔ انبیاء اپنے گھروں سے نکالے گئے تھے۔ پھر بھی ان کی عزت برقرار تھی۔ پیغمبروں پر تھوکا گیا تھا۔ پھر بھی ان کو بلندی حاصل ہوا۔
ایک مسلم کو خود کو بہتر بنانے کی سعی میں ہمہ تن کوشاں رہنا چاہئے۔ پڑھائی میں، ملازمت میں، رضاکارانہ کام میں بہتر سے بہتر کام انجام دینا ہماری ذمے داری ہے۔ انسانی زندگی کا دارومدار اس دن کی تیاری پرہے جب وہ خالقِ حقیقی سے روبرو ہوگا۔ اس دن وہ اپنے خدا کو دکھائے گا کہ اس نے صداقت کے لئے اپنی بساط کے مطابق کتنی کوششیں کیں۔ سونے میں، کھانے میں، ورزش میں، مطالعے میں، عبادت میں بہترین عمل پیش کرنا ہمارا فرض ہے۔ ظاہراًدنیا میں شہرت اور دولت معنی رکھتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے کام میں انسانیت کو فیض پہنچاتے ہیں انہوں نے زندگی کو بخوبی سمجھا ہے۔
نوعؑ نے ۰۵۹ سال تک جدوجہد کی کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان کو بٹھا سکیں لیکن ناکام رہے۔ پھر بھی آپ نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔اپنے مقاصد کو پہنچاننے سے خدا ہمیں خوشی عطا کرتا ہے۔ جب زندگی ایک طے شدہ جہت میں چلتی ہے تو اس سے خوشی ملتی ہے۔ انسان کو نتیجے کی فکر ستاتی ہے اور خدا جدودہد کی قدر کرنے والا ہے اور اس کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ اجر دنیااس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے طے شدہ وقت پر ثواب عنایت فرماتا ہے۔