ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
سترہ سال کی ایک لمبی اور طویل عدالتی جدوجہد کے بعد بلقیس بانو کو ہمارے ملک کی عدالت عالیہ سے انصاف حاصل کرنے میں فتح حاصل ہوئی جس فتح کا اعلان کرتے ہوئے عدالت عالیہ (سپریم کورٹ آف انڈیا) نے گجرات سرکار کو حکم دیا کہ وہ بلقیس بانو کو پچاس لاکھ روپے معاوضہ کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری اور مکان فراہم کرے۔ یہ فیصلہ حق و انصاف کی لڑائی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلقیس بانو گجرات فسادات کی وہ مظلوم لڑکی ہے جس کے ہاتھوں سے اس کی تین سالہ بیٹی کو چھین کر قتل کردیاگیا تھا اور آج تک اس ماں کو یہ نہیں معلوم ہے کہ اس کی معصوم بیٹی کی قبر کہاں ہے۔ اس کے سامنے اس کے خاندان کے چودہ افراد کا قتل عام ہوا، بلقیس بانو جس کی عمر اس وقت ۱۹ سال تھی اور ماں بننے والی تھی لیکن اس مظلوم کو دنگائیوں نے اجتماعی عصمت دری کا شکار بنایا تھا۔
اس اندوہناک حادثہ کا مقدمہ پہلے تو احمدآباد کی عدالت میں شروع ہوا لیکن ابتدائی دور میں ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ گجرات میں اس وقت کی گجرات حکومت اور وہاں کی پولیس و انتظامیہ کی دخل اندازی کے ناپاک منصوبے نظام عدلیہ کو آزادانہ و مبنی برانصاف انداز سے اپنی کارروائیاں نہیں انجام دینے دیں گے اور فسادات کے ملزمین کے پے درپے ضمانت پر آزادی ملنے کے بعد آخرکارنیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی نے جسٹس آر ایس ورما کی سربراہی میں اس کیس کو بھی سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک کامیاب کوشش کے بعد گجرات سے ممبئی اگست ۲۰۰۴ء میں منتقل کرادیا۔
گجرات میں گواہوں اور ثبوتوں کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہا تھا۔ چار سال ممبئی کی سیشن کورٹ میں مقدمہ کا ٹرائل چلا جس کے بعد ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۸ء میں گیارہ لوگوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔ سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں اپیل داخل ہوئی جس میں ہائی کورٹ نے ۴ ؍مئی ۲۰۱۷ء کو اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سات لوگوں کو مجرم قرار دیا جس میں پانچ پولیس اور دو ڈاکٹر شامل ہیں جن کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکامی اور ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا مجرم قرار دیا گیا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دونوں ڈاکٹر اور چار پولیس جس میں آئی پی ایس افسر آر ایس بھاگورا بھی شامل ہیں، نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی جس کو ۱۰؍ جولائی ۲۰۱۷ء میں عدالت عالیہ نے یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ ان مجرمین کے خلاف پختہ ثبوت موجود ہیں۔
اگر ہم بلقیس بانو کے کیس پر نظر ڈالیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگرچہ ہمارے ملک میں انصاف حاصل کرنا مشکل ہے تاہم ایک مستقل اور منصوبہ بند قانونی جدوجہد ہمیں انصاف حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی ہے۔ یہ ایک لمبی جدوجہد تھی جس سے ہم سب کے لیے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا نیز فرقہ وارانہ فسادات سے زخمی سماج کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کی رہنمائی ملتی ہے۔
ہمارے ملک کے کرمنل جسٹس سسٹم میں سب سے اہم رول پولیس کا ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی بھی جرم واقع ہوتا ہے تو پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حادثہ سے متعلق ایمانداری سے ایف آئی آر درج کرے، ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ متأثرین کی میڈیکل رپورٹ پوری دیانتداری کے ساتھ تیار کرے، تاہم بلقیس بانو کے کیس میں پولیس نے ملزمین کی صحیح شناخت ہونے و عصمت دری کے پختہ ثبوت ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر مجرمین کو بچانے کی ایک ناپاک سازش کے تحت میڈیکل رپورٹ کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی اور ایک ایسے اندوہناک حادثہ کو بگاڑ کر اسے فسادیوں کے ذریعے زخمی کرنے کا معاملہ بناتے ہوئے ایف آئی آر درج کیا گیا جس میں نامزد ملزمین کی جگہ نامعلوم بھیڑ کو ملزم بنایا گیا تھا۔ لیکن انصاف کے لیے انصاف سے لڑی گئی اس طویل قانونی لڑائی نے ان تمام پولیس افسران اور ڈاکٹروں کو نہ صرف بے نقاب کردیا بلکہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۷۹۱ کی پناہ گاہ میں بھی ان مجرمین کو پناہ حاصل نہیں ہوسکی، جبکہ تین افسران کو پنشن کے حق اور سہولیات سے بھی محروم کردیا گیا جو کہ پولیس نظام میں موجود فرقہ پرست عناصر کو خبردار کرنے کے لیے ایک کھلا پیغام ہے۔
ہمارا نظام عدلیہ صرف مجرمین کو ان کے جرم کی سزا تک ہی خود کو حتی المقدور محدود رکھنے کے قواعد کا پاسدار رہا ہے، ہمارے قوانین میں معاوضے کو لے کر کوئی اسکیم آج تک تیار نہیں ہوسکی ہے۔ مظفر نگر فسادات میں بھی عصمت دری کی شکار خواتین کو پانچ لاکھ کا ہی معاوضہ ملا تھا، بلقیس بانو کو بھی جو معاوضہ ہائی کورٹ سے ملا تھا وہ پانچ لاکھ ہی تھا لیکن عدالت عالیہ میں بلقیس نے یہ بات جج حضرات کو سمجھانے میں کامیابی حاصل کی کہ جو ظلم اور بربریت اس کے ساتھ ہوا ہے اس کا ہرجانہ پانچ لاکھ نہیں ہوسکتا اور بالآخر عدالت عالیہ نے حادثے کی نزاکت اور اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے پچاس لاکھ کا معاوضہ دیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کرمنل پروسیجر کوڈ میں ۲۰۰۸ء کی ترمیم کے بعد دفعہ ۷۵۳ اے کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے مطابق ہر صوبائی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک فنڈ تیار کرے جس کے تحت مجرمانہ حادثات کے متاثرین اور ان کے متعلقین کے نقصانات کی بھرپائی و باز آباد کاری کے لیے اسکیم تیار کرے۔
فرقہ وارانہ فسادات ہمارے ملک و سماج کی ایک تلخ حقیقت ہیں، یہ فسادات جن کا شکار ہمیشہ اقلیتی و کمزور طبقات ہی رہے ہیں، جن کے ذریعہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مقاصد خوب حاصل کیے ہیں، ہمارے پولیس نظام اور سیاسی پارٹیوں کی آپسی سانٹھ گانٹھ نے فسادات کو مزید مہلک بنادیا ہے۔ سکھ فسادات میں کانگریس پارٹی کے قدآور نیتا سجن کمار اور دہلی پولیس کے رول سے متعلق دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ سماج کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھا لیکن کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ پولیس کی جواب دہی کو لے کر کوئی سماجی تحریک پنپتی دکھائی نہیں دیتی۔
فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام اور پولیس و انتظامیہ کی جواب دہی طے کرنے کے لیے فرقہ وارانہ فسادات (روک تھام) بل ایک عرصے سے سرد بستے میں پڑا ہے، تعجب تو یہ ہے کہ موجودہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کاسیاسی منشور بھی اس بل کے سلسلے میں خاموش نظر آیا۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملی و سماجی قائدین کی خاموشی تو پرانی کہانی ہوگئی سوال تو سماج کے سنجیدہ افراد سے بھی ہونا چاہیے کہ سماج کی حفاظت پر مامور پولیس و انتظامیہ کی جواب دہی کب طے ہوگی، سماج اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے سماجی تحریک کب شروع کرے گا۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام حکومت ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ عوام کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے اور ناکامی کی صورت میں نقصانات کی بھرپائی کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہی ہوتی ہے۔ بلقیس بانو کے کیس میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے حکومت کی اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت پر نقصانات کی ذمہ داری ڈالی۔ یہ اصول ان تمام حادثات میں ہونا چاہیے جہاں حکومت فرقہ وارانہ فسادات یا مجرمانہ حادثات کی روک تھام میں ناکام ثابت ہو۔ پولیس افسران کا فرقہ وارانہ فسادات میں کس قدر فرقہ پرستانہ رول رہا ہے یہ کسی بھی طرح سماج، حکومت یا عدالت سے چھپا نہیں ہے، بلقیس بانو کا کیس ہو یا سکھ فسادات پر سجن کمار کا کیس ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔
ایک مثالی و پرامن سماج کی تشکیل کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم حکومت، پولیس اور عدالت کے رول پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سماج کی ذمہ داریوں اور ماضی میں ہوئی کوتاہیوں پر بھی غور کریں، مستقبل کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی سے نصیحت حاصل کی جائے۔ قانونی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمارے ملک میں عوامی بیداری کی بنیادی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ سماج اپنے دستوری و شہری حقوق سے پوری طرح ناواقف ہے۔ قانونی رہنمائی اور بنیادی مدد و تعاون کے لیے کسی بھی طرح کا کوئی عوامی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ ظلم کے شکار افراد کی بازآباد کاری کے علاوہ سماج کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لیے کوئی منظم لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ قانونی امداد فراہم کرنے میں جمعیۃ العلماء اور جماعت اسلامی ہند کا کام لائق ستائش ہے لیکن سماج میں ایماندار و صلاحیت مند وکیلوں کی کمی کے باعث قانونی لڑائی ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ انصاف کا قیام اور فرقہ وارانہ فسادات و حادثات کی روک تھام تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب مجرمین کو مروجہ قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ان کو ان کے جرائم کی سزا ملے، متأثرین کو ان کے نقصانات کا بھرپور معاوضہ ملے، نیز حکومتی ادارے خاص کر پولیس ایماندارانہ تفتیش کے ساتھ ساتھ عدالت میں مقدمہ منصفانہ طریقے سے لڑا جاسکے، جہاں نہ تو متأثرین کی جان کو خطرہ ہو اور نہ گواہ خوف یا لالچ میں اپنا بیان بدلنے پر مجبور ہوں نیز ملزمین کو بھی ان کی پسند کا وکیل ان کا دفاع کرنے کے لیے میسر ہو۔