ندیم عبدالقدیر
کیا گوڈسے واقعی دیش بھکت تھا ؟ گوڈسے کا جنم ۱۹۱۰ء میں ہوا تھا۔ ۱۹۳۲ء میں اس نے آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے پہلے وہ ہندو مہاسبھا کا رکن تھا۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں اس نے اپنا اخبار بھی شائع کیا۔ ۱۹۴۲ء میں اس نے اپنی خود کی ایک تنظیم قائم کی۔ کل ملاکر وہ پورا عرصہ جس میں گوڈسے سیاسی اور سماجی طور پر انتہائی سرگرم تھا اس وقت اس کی محبوب ’ بھارت ماتا ‘ (جس سے محبت کے اس کے دعوے آسمان سے اونچے تھے ) درحقیقت انگریزوں کے پنجہ میں جکڑی ہوئی تھی، لیکن اس پورے عرصہ میں گوڈسے کا ایک بھی اقدام انگریزوں کے خلاف نظر نہیں آتا ہے۔
انگریزوں کے دور میں گائے کھلم کھلا ذبح کی جاتی تھی لیکن گوڈسے کو کبھی بھی انگریز ہندو دھرم ورودھی نظر نہیں آئے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے کافی پہلے درحقیقت انگریزوں نے بنگال کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیا تھا۔ بنگال کی مذہب کے نام پر تقسیم نے ہی اس سوچ کو تقویت دی تھی کہ ہندوستان کو بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے اس کے باوجود ’بھارت ماتا‘ پر بلاشرکت غیرے راج کرنے والے انگریزوں کے خلاف گوڈسے کا کوئی بھی عمل نظر نہیں آتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب سارا ملک انگریزوں کے خلاف جدوجہد کررہا تھا۔ ہزاروں مجاہدینِ آزادی نے جامِ شہادت نوش کیا یا آزادی کی نیلم پری کیلئے جیلوں میں کئی سال گزار دئیے۔ ایسے وقت میں گوڈسے ایک دن کےلئے بھی جیل نہیں گیا۔ ۱۹۴۲ء میں ’بھارت چھوڑو ‘ تحریک شروع ہوئی لیکن گوڈسے اس میں بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ ان سارے تناظر میں یہ سمجھنا کہ گوڈسے دیش بھکت تھا سوائے دھوکہ کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ گوڈسے کسی بھی طور پر دیش بھکت نہیں تھا۔ اگر وہ دیش بھکت ہوتا تو اس کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف ہونی چاہئے تھی جو بالکل بھی نظر نہیں آتی۔ پھر گوڈسے کیا تھا؟ اور اس میں وہ کونسی خوبی تھی جو اسے مہاتما گاندھی کے قتل کرنے جیسے جرم کے ارتکاب اور انگریزوں کے خلاف کوئی بھی جدوجہد نہیں کرنے کے باوجود بھی دیش بھکت بنائے ہوئے ہے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ’ مسلم دشمنی ‘ کے نظریات۔گوڈسے کو ملک سے کوئی محبت نہیں تھی اس میں کچھ تھا تو وہ صرف مسلم نفرت تھی ۔گوڈسے نے ہی سنگھ پریوار کو اس کا سب سے طاقتور نعرہ ’ مسلمانوں کی خوشنودی کی پالیسی ‘ دیا۔
’ مسلمانوں کو خوش کرنے‘ کا جھوٹا نعرہ ہی درحقیقت سنگھ پریوار کے وجود کا سب سے بڑا مدد گار بنا۔
اس نعرے کا ہی پروپیگنڈہ کرکرکے کے سنگھ پریوار آج سیاست کی اِن بلندیوں پر پہنچا گیا ہے جہاں پورے ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اس نعرے کو تقویت دینے میں کانگریس بھی برابر کی حصہ دار رہی۔ کانگریس نے کبھی بھی اس نعرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اس پر خاموش رہ کر پسپائی اختیار کرتی رہی۔ ’ مسلمانوں کی منہ بھرائی ‘ کا نعرہ سنگھ کیلئے آکسیجن ہے اور گوڈسے درحقیقت یہ نعرہ بلند کرنے والی سب سے بڑی علامت۔ وہ سارے لوگ جو گوڈسے کی حمایت اورگاندھی جی کے قتل کو واجب ٹھہراتے ہیں ان کے پاس سب سے بڑا جواز یہی نعرہ ہے۔ اس نعرے کے پیچھے مسلمانوں سے نفرت کی سوچ ہے۔اس سوچ کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا یا پھر مسلمانوں پر ظلم نہیں کرنا بھی ’ مسلمانوں کو خوش کرنے ‘ کے زمرے میں آتا ہے ۔
سادھوی نے جو کچھ کہا ایسے خیالات کا اظہار سنگھ پریوار کے ہمدردان اور متفقین ایک لمبے عرصے سے کرتے رہے ہیں۔ درحقیقت گاندھی جی کی شبیہ پورے ہندوستان میں بہت بڑی تھی اور اس وقت گوڈسے کو دہشت گرد کے ہی روپ میں دیکھا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ شبیہ دھندلی ہوتی چلی گئی۔ آہستہ آہستہ ہندو شدت پسندی نے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کی اور حالات دھیرے دھیرے گاندھی کی بجائے گوڈسے کی حمایت میں ہوتے چلے گئے۔ ۹۰ء کی دہائی میں مہاراشٹر میں گوڈسے کی حمایت میں ایک ڈرامہ پیش کیا گیا ۔اس کے ذریعہ گاندھی جی کے قتل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں میرٹھ میں اور پھر ۲۰۱۷ء میں گوالیار میں گوڈسے کا مندر بنانے کی کوشش کی گئی۔ گوڈسے کے یوم پیدائش کو ’ یومِ شجاعت ‘ کے طور پر منائے جانے کا اعلان ہوا۔ حال ہی میں علی گڑھ میں پوجا پانڈے نامی بھگوا خاتون نے تو اس وقت حد ہی کردی جب اس نے گاندھی کے پتلے پر نقلی پستول سے گولیاں چلائیں ۔اس پورے عمل کا ویڈیو بھی اتارا گیا۔ اس پتلے میں لال رنگ کا مائع بھرا گیا تھا جس سے خون کے بہنے کا تاثر دیا گیا یعنی بھگوا دھاری گاندھی کے بہتے خون کے تاثر سے محظوظ ہونا چاہتے تھے۔
غرض وقفہ وقفہ سے گاندھی کے قتل کو جائز ٹھہرانے اور گوڈسے کی عزت افزائی کا کام ہوتا رہا ہے ۔
یہاں سب سے اہم اور غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ یہ سارے کام اعلیٰ ذات ہندو ہی کرتے رہے ہیں۔ وہ خاتون جس نے گاندھی کے پتلے پر گولی چلائی، برہمن ہے۔ سادھوی پرگیہ، اعلیٰ ذات ٹھاکر ہے۔ وہ سارے لوگ جنہوں نے گوڈسے کا مندر بنایا، اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ گوڈسے خود برہمن تھا۔ ہندوتوا نظریات کا بانی ساورکر بھی برہمن ہی تھا۔ یہ صرف اعلیٰ ذات ہندو طبقہ ہی ہے جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا خواہشمند ہے اور اس کےلئے پوری دیدہ دلیری سے کام کرتا رہتا ہے۔ اس میں قانون کا ڈر، پولس کا خوف یا عدلیہ کی پروا بالکل بھی نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کی اس دیدہ دلیری کیلئے اگر کوئی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے تو وہ یقیناً کانگریس ہے۔
کانگریس نے کبھی بھی ایسے لوگوں کے خلاف معمولی کارروائی بھی نہیں کی جنہوں نے گاندھی کو بے عزت کرنے اور گوڈسے کی مدح سرائی کرنے کا کام کیا۔ کانگریس اس وقت بھی ہمیشہ خاموش ہی رہی جب گاندھی کو بدنام کرنے کےلئے طرح طرح کے جھوٹ گڑھے گئے اور گوڈسے کی تعریف و توصیف کے لئے دلیلیں اور تاویلیں تلاش کی گئیں۔ ان تمام دلیلوں اور تاویلوں میں سب سے بڑی دلیل ’ مسلمانوں کو خوش کرنے کی ‘ ہی رہی ہے۔ ’ مسلمانو ں کی خوشنودی کی پالیسی ‘ کا نعرہ دراصل ایسا نعرہ ہے جس سے اعلیٰ ذات ہندو دیگر تمام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا سکتے ہیں۔ اس نعرے کے پیچھے وہ اپنے سارے سیاہ کارنامے اور اپنی برتری قائم رکھنے نیز تعداد میں کم ہونے کے باوجود بھی سب پر حکومت کرنے کے منصوبے پر عمل کرسکتے ہیں۔ کانگریس نے کبھی بھی سنگھ پریوار کے اس منصوبے کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا۔ پوری طاقت ہونے کے باوجودبھی کانگریس نے سنگھ پریوار اور اس کے نظریات کو پھولنے پھلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
کانگریس آج بھی گوڈسے کو قاتل تو مان رہی ہے لیکن دہشت گرد نہیں مان رہی ہے۔ دگ وجئے سنگھ جیسے لیڈر نے سادھوی کے بیان کے بعد جو مذمتی کلمات ادا کئے اس میں بھی انہوں نے گوڈسے کو ’ دہشت گرد ‘ قرار دینے کی ہمت نہیں کرسکے اور ’ قاتل ‘ کہنے پر پر اکتفا کیا۔ جب دگ وجئے سنگھ کا یہ حال ہے تو دیگر لیڈران کا کیا حال ہوگا۔ کمل ہاسن نے حال ہی میں گوڈسے کو پہلا ہندو دہشت گرد قرار دیا تو کانگریس کے کسی بھی لیڈر نے کمل ہاسن کے بیان کی توثیق نہیں کی اور نہ ہی کمل ہاسن کے دفاع کو آگے آئے ۔ مسلم دشمنی اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا شوق بے قابو ہے جو کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ اس کےلئے مسلمانوں پر ظلم کرنا، ان کو ہراساں کرنا ہی قوم پرستی ہے اور جو اس ظلم میں کندھے سے کندھا یا قدم سے قدم نہیں ملاتا اس کی دیش بھکتی قابل شک ہے۔ مسلمانوں کی منہ بھرائی کے نعرے سے شروع ہونے والی تباہی اس نہج پر پہنچ گئی جہاں بابائے قوم کی حب الوطنی بھی خطرہ میں پڑ گئی ۔