ڈاکٹرعبدالقادرشمس
وزیراعظم نریندرمودی نے انتخابی مہم کے دوران کہاتھا کہ ”اب کی بار تین سوکے پار“اوروہ سچ ثابت ہوتانظر آرہاہے کیونکہ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو دن کے تین بجے ہیں اور پارلیمانی انتخابات کے رجحانات میں این ڈی اے کو 349 سیٹوں پر سبقت حاصل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اورامیدکی جاتی ہے کہ معمولی ردوبدل کے ساتھ یہی صورتحال قطعی نتائج کے اعلان تک باقی رہے گی ۔نتائج سے بے حدقریب رجحانات کو دیکھ کر کچھ لوگوں کوتعجب وحیرانی ہے توکچھ لوگوں ماتم کناں ہیں اورکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جواس شک وشبہ میں مبتلاہیں کہ ای وی ایم سے چھیڑچھاڑکے نتیجے میں ہی یہ صورتحال سامنے آئی ہے،لیکن راقم الحروف ان تمام اندیشہ ہائے دوردراز کو خارج کرتے ہوئے اپنے مستحکم موقف کاایک بارپھر اعادہ کرتاہے کہ نریندرمودی اور امت شاہ کی قیادت میں اس دیش کو فرقہ وارانہ خطوط پر گلے گلے اس طرح ڈبودیاگیاہے کہ وہاں سے عوام کاباہر نکل کرجمہوری اقدارپر جلدلوٹ پانا کافی مشکل نظر آرہاہے۔فی زمانہ ہندوستان میں آرایس ایس نے گراؤنڈ سطح پر ایک خاص قسم کے ’راشٹرواد‘ کے نام پر ہندوتو کا ایسا گہرا درس دیا ہے کہ یہاں ایک ہی نظریہ کام کررہاہے اقلیت اوراکثریت کا،اوریہاں کی اکثریت کو یہ باورکرادیاگیاہے کہ وہ ہندوتوکے نام پر ووٹ دیں کیونکہ ہندوتوتحریک مضبوط ہوگی تووہ مضبوط ہوں گے۔دوسری طرف این ڈی اے کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے ہندوتوکی الکھ تو نہیں جگائی البتہ وہ ذات پات کے نام پر اپنا گھروندہ بناتے رہے ،کوئی یادوؤں کارکشک بن گیاتوکوئی دلتوںکا۔جہاں تک کانگریس کی بات ہے تواس نے ایک جمہوری اورسیکولرحکومت کی تشکیل کی بات ضرور کی مگراسی کے ساتھ ساتھ آرایس ایس کے خلاف بھی آوازلگاتے رہے جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ہندوتوکی راہ پر چلنے والے فرقہ وارانہ خطوط پر پوری مضبوطی سے کاربند اور متحدہوگئے جو انتخابی نتیجے کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہندوستان میں داخلی وخارجی پالیسی اوراصول و اقدارکی بنیادپر سیاسی صف بندی ہوتی تھی ،حکمراں کانگریس کے خلاف بائیں بازوکی پارٹیاںتھیںجن کی مخالفتوں اور زیر و زبر کی انتہا محض کمیونسٹ نظریات تھیں لیکن بعدکے دنوں میں ذات وطبقہ کی سیاست نے اپنی جڑیں مضبوط کیںپھر مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کی سیاست زورپکڑنے لگی اورجب رام مندرتحریک شروع ہوئی تواسی کے ساتھ شروع ہوگئی فرقہ واریت کی سیاست۔حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران سبھی جماعتوں کے ایجنڈے میں ترقی، گڈگورننس اوربدعنوانی سے پاک حکومت سازی تھی اوربی جے پی کے وزیراعظم کے امیدوارنریندرمودی نے بھی انہیں ایجنڈوں کے ساتھ پورے ملک کادورہ کیا لیکن انہوں نے نہایت تکنیک سے ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی بھی جاری رکھی اوراس ملک کی اکثریت کو یہ باورکرادیاکہ ہندوؤں کامحافظ صرف اورصرف بی جے پی ہے۔
بی جے پی کے لیڈران فرقہ وارانہ صف بندی کے لیے ایک عرصے سے مصروف ہیں ،2014کے انتخابی مہم کے دوران بھی نریندرمودی ترقی کی باتیں خوب کرتے رہے لیکن انہو ںنے ایسی باتوں سے پرہیز بھی نہیں کیاجو فرقہ وارانہ سوچ کومہمیزکرتی ہوں،حدتواس وقت ہوگئی جب ان کے سپہ سالار اورفرقہ وارانہ صف بندی کے لیے مامورامت شاہ نے پہلے مظفرنگرفسادکے متاثرین کو آتنگ وادسے جوڑنے کی کوشش کی پھر اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قراردیا،خودمودی جی نے بھی فیض آبادجاکرنہ صرف رام راج کی بات کی بلکہ رام مندرکاماڈل دکھاکریہ پیغام بھی دیاکہ انہیں اگراقتدارسونپاگیاتووہ ضروربھویہ رام مندرتعمیرکرائیں گے۔نریندرمودی جب بہارگئے توانہوں نے وہاں ’پنک ریولیوشن‘کی بات کی اورواضح طورپرگوشت خووروں اوراس کاکاروبارکرنے والوں کو چیلنج بھی کیااوراشاروں اشاروں میںگﺅہتھیاکی بات بھی اچھال دی،اسی طرح جب وہ آسام گئے تووہاں انہوں نے بوڈولینڈ کے حامیوں کی پیٹھ تھپتھپائی اوربنگلہ دیشی گھس پیٹھ کی بات اٹھاکر ہندواورمسلم رائے دہندگان کے درمیان ایک لکیرکھینج دی۔
نریندرمودی نے بنارس سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی سوچ سمجھ کرکیاتھا ،کیونکہ ہندوآستھاکے اس مرکز سے وہ پورے ہندوستان میں نہایت خاموشی سے فرقہ واریت اورہندوتوکاپیغام دینا چاہتے تھے۔انہوں نے وہاںجاکرکہاکہ مجھے نہ کسی نے بھیجاہے اورنہ میں خودسے آیاہوں بلکہ مجھے توگنگا میانے بلایاہے ،اسی طرح انہو ںنے ’ہرہرمودی ،گھرگھرمودی‘کے بھی نعرے لگوائے جن کا صاف مقصدیہی تھاکہ وہ رائے دہندگان کوہندوتوکی راہ پر ڈال کرفرقہ وارانہ صف بندی چاہتے ہیں۔2014کے انتخابی مہم کے دوران امت شاہ نے بنگلہ دیشی دراندازی کا ایشوخوب اٹھایااوراین آرسی کی بحث خوب چلائی جس کاایک ہی مقصدتھا کہ ہندوﺅں کامحافظ اگرکوئی ہے تووہ بی جے پی ہی ہے۔قارئین اگرپوری سنجیدگی سے بی جے پی کی انتخابی مہم کاجائزہ لیں گے توسامنے آئے گا کہ تمام ریلیو ںمیں بی جے پی لیڈران ایئر اسٹرائک کی بات کرتے رہے اورپاکستان کوسبق سکھانے اوراس کے گھر میں گھس کرمارنے جیسی حصولیابیو ںکو بارباردوہراتے رہے ،بظاہر یہ کوشش فوج کے ساتھ ہمدردی اور راشٹر کے ساتھ محبت کوظاہرکرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کامقصد یہ باورکرناتھاکہ مسلمان ہویامسلمان دیش اس کو بی جے پی حکومت ہی سبق سکھاسکتی ہے۔مودی جی بے حدخوبصورتی سے ایسی صف بندی کرنے میں کامیاب رہے جس کانتیجہ ’تین سوسے پار‘ کی صورت میں سامنے آناہی تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کے لیے صرف نریندرمودی سرگرم ہیں بلکہ اس کام میں بہوجن سماج پارٹی،آرایل ڈی،سماجوادی پارٹی اورکانگریس کے لیڈران بھی کچھ کم نہیں ہیں،لیکن ان پارٹیوںنے جن بنیادوں پر صف بندی کی کوشش کی اس کارینج چھوٹاتھا،وہ ذات پات تک محدودرہے ،شایدیہی وجہ ہے کہ عام ووٹروں نے بی جے پی کوپسندکیاکیونکہ ان کی نظر میں یہ پارٹی ہندوتوکابھی رکشک تھی اوراس کے پٹارے میں ترقی کے طرح طرح کے نعرے بھی تھے ۔اس بات میں سچائی ہے کہ بی جے پی نے جس قدرووٹروں کی فرقہ وارانہ خطوط پر صف بندی کی کوشش کی ہے ویسی کوشش کسی اورپارٹی نے نہیں کی، بہارمیںبی جے پی لیڈرگری راج سنگھ نے 2014کے الیکشن میںتویہاں تک کہہ دیا تھاکہ مودی مخالفین کو الیکشن کے بعدپاکستان جاناہوگا۔آج جب انتخابی رجحانات سامنے آرہے تھے تواسی دوران بیگوسرائے سے جب یہ خبرآئی کہ پہلے راﺅنڈکی گنتی سے ہی گری راج سنگھ اپنی سبقت بنائے ہوئے ہیں تواسی وقت یہ طے ہوگیاکہ یہ ملک فرقہ واریت کے ایک ایسے دلدل میں پھنس چکاہے جہاں سے اس کاجلدنکل پانا ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے،کیونکہ بیگوسرائے پر ساری دنیاکی نگاہیں جمی ہوئی تھیں اوریہ پہلے سے طے ہوگیاتھا کہ وہاں کنہیاکمارکی جیت سیکولرزم کی جیت ہوگی اوراس کی ہارسیکولرزم کی ہارتسلیم کی جائے گی ۔
ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوریہاں کی اکثریت کے ذہن و مزاج میں سیکولرزم پوری طرح پیوست ہے ،اس کے باوجودسیاسی مفادات
کے لیے مذہبی منافرت کی کسی بھی کوشش کی نہ اجازت دی جاسکتی ہے اورنہ اسے کامیاب ہونے دینا چاہیے۔مگرصورتحال نہایت سنگین ہوتی جارہی ہے اوریہ فکر وتشویش کی بات ہے کہ آخر ہماراسیکولردیش کدھرجارہاہے۔فکرمندی کی بات اس لیے بھی ہے کہ پورادیش بی جے پی کی منفی کارکردگی سے پریشان تھا اورنوٹ بندی،روزگار کی قلت،کسانوںکے مسائل ،متوسط درجے کے لوگوں کی مصیبتیں اورنوجوانوں کے گوناگوں مشکلات سب کے سامنے تھیں مگرلوگوں نے تمام مشکلات کو جھیلناتوبرداشت کیالیکن ہندوتوکاپرچم سرنگوں ہونے نہیں دیا۔بہرحال انتخابی کامیابی کے لیے بی جے پی نے چاہے جوبھی حربہ استعمال کیاہو،اب جب کہ انہیں عوام نے اقتدارسونپ دیاہے تواسے اپنے پرانے نعرے”سب کاساتھ ،سب کاوکاس “ کے تحت ایک نئے بھارت کی تعمیر وترقی کے لیے کام کرناچاہیے اوریہاں کسی صف بندی کوترجیح نہیں دینی چاہیے۔