آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے

عرفان الحق
آپ سب دوستوں کو پتا ہے کہ آج پانچویں جمعرات ہے خطبہ حجۃ الوداع کو بیان کرتے ہوئے، کیونکہ آپﷺکے خطبات میں یہ سب سے آخری خطبہ ہے جس میں آپﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’آج دین مکمل ہو گیا۔‘‘ اس لیے دین کی تمام اساس، جتنے قوانین ہیں، وہ سارے کے سارے اِس میں موجود ہیں اور آپﷺنے اتنی حکمت سے اس میں چیزیں بیان فرمائی ہیں کہ جن پر ہم نے صحیح معنوں میں کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ ویسے تو بدقسمتی سے ہم تمام مسلمان پیغامِ ربانی کو بھول چکے ہیں۔ قرآن میں سات سو باون مقامات پر پروردگارِعالم نے ہمیں غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ اپنی اس تمام صنعت پر جو اس کی یہ کائنات ہے اور جو دیگر اشیاء ہیں، اِس میں غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے وہ تمام غوروفکر چھوڑ دیا اور وہ غوروفکر آج کل یہود و نصاریٰ کر رہے ہیں اور وہ ساری قوتیں اور نعمتیں جو غوروفکر کے عوض ہمیں عطا ہوتیں آج یہود و نصاریٰ کو میسر ہیں ۔ ہم اپنی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں اُن کے دستِ نگر ہیں، اُن کی طرف ہاتھ اور دامن پھیلائے دوڑیں لگائے ہوئے ہیں مگر غور و فکر نہیں کرتے۔ ہم نے دین کو روایات کا مجموعہ بنا دیا ہے، دین کو صرف عبادات تک سمجھ لیا ہے، اس کو مذہب کا درجہ دے دیا ہے۔ رسول اکرمﷺکا یہ خطبہ حکمت سے بھرا پڑا ہے مگر ہم نے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ سرسری طور پر الفاظ کو دیکھا اور جیسے تیز بارش کا پانی گزر جاتا ہے ایسے دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ کبھی غور نہیں کیا کہ وہ great ہستی، وہ عظیم ہستی جو اللہ تعالیٰ کے بعد بالکل مکمل ہیں، perfect ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آپﷺکی زبانِ مبارک سے ایک لفظ بھی بغیر حکمت لیے ادا نہیں ہو سکتا اور ویسے بھی جہاں بہت سے معجزات رسولِ اکرمﷺے ہیں وہاں اختصار بھی رسولِ اکرمﷺکا بہت بڑا معجزہ ہے۔ گفتگو میں، اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے میں، پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں، لوگوں کو خطاب کرنے میں جتنے کم اور مختصر الفاظ رسولِ اکرمﷺنے استعمال فرمائے ہیں، ایسا اختصار اور جامعیت کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ آپﷺکے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ’’جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی، اُس نے میری اطاعت کی۔‘‘ تو اطاعت کا مطلب ہوتا ہے کہ Prophet کے order کو obey کرنا، اس کے احکامات کو صدقِ دل سے مان لینا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے سارے احکامات، سارے الفاظ ، زبانِ مبارک سے ادا کی ہوئی باتیں اللہ تعالیٰ ہی کے پیغام ہیں۔ وہ اپنے لیے گفتگو نہیں فرماتے تھے، آپﷺکی ہر بات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوتی تھی۔ تو میں نے یہ بات اس لیے بیان کی ہے کیونکہ اس سے آگے جو الفاظ ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:
’’انسان سارے ہی آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے۔‘‘ اب یہ وہ جملے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺنے ادا فرمائے۔ اگر ہمیں صرف مساوات کا درس دینا مقصود ہوتا، لوگوں کو یہ سمجھانا مقصود ہوتا کہ تم سب ایک ہی نسل کے انسان ہو، تم میں سے کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے، کسی کوکسی پر امتیاز حاصل نہیں ہے تو کیا اتنا ہی کہنا کافی نہ تھا کہ تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو؟ جب ایک باپ کی اولاد ہوں گے سارے تو یقیناًایک کو دوسرے پر نسلی برتری نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ مگر آپﷺنے یہ کیوں فرمایا کہ ’’آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے۔‘‘ جب کہ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام واقعی مٹی سے بنے تھے۔ اللہ تعالیٰ جو کہہ رہا ہے کہ ’’میں نے اُس کو کھنکتے ہوئے گارے سے بنایا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺنے یہ بات یہاں بطورِ خاص کیوں بیان فرمائی خطبہ حجۃ الوداع میں کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے، اور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام دین ہے، مذہب ہے احترامِ آدمیت کا۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺیہاں آپ کو مٹی کا حوالہ دے کر احترامِ آدمیت کا سبق دینا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک ہمیں مٹی سمجھ میں نہیں آئے گی، انسان کا احترام سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہاں اس لیے بطورِ خاص اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺنے بڑی حکمت کے ساتھ ’’مٹی‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اب آپ خود دیکھیں کہ جتنی چیزیں آپ زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پانی بھی مٹی سے نکالتے ہیں، سبزیاں مٹی سے نکالتے ہیں ، پھل مٹی سے نکالتے ہیں، اناج مٹی سے نکالتے ہیں، معدنیات مٹی سے نکالتے ہیں، سونا مٹی سے نکالتے ہیں، ہیرے مٹی سے نکالتے ہیں، تیل مٹی سے نکالتے ہیں، پٹرول مٹی سے نکالتے ہیں۔ کون سی دُنیا کی ایسی چیز ہے جو آپ کو مٹی نہیں دیتی؟ تو جب اتنے فائدے کسی چیز سے ہوتے ہوں تو قابلِ احترام تو وہ ویسے ہی ہو جاتی ہے کیونکہ انسان جس چیز سے فائدے حاصل کرتا ہے اس کا احترام بھی کرتا ہے۔
تو مٹی کا ذکر یہاں کرنے کے بہت سے مقاصد ہیں پروردگارعالم کے پیارے حبیبﷺکے۔ آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ آپ کی زندگی، اس کا پروان چڑھنا، تمام آسائشیں، جو آپ کے گھر تعمیر ہو رہے ہیں یا گھروں میں سامان ہے، یہ مٹی دیتی ہے آپ کو۔ تو جو انسان مٹی سے بنا ہے، اس کا احترام آپ پر کتنا واجب ہو جاتا ہے کہ وہ اُس چیز سے بنا ہے جو سب فائدے آپ کو پہنچا رہی ہے۔ایک تو یہ مقصد ہے اس میں کہ احترامِ آدمیت آپ کے اندر پیدا کیا جائے۔ یہ جتلایا جائے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مٹی سے بنایا ہے جس سے سارے فائدے اُٹھا رہے ہو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک۔ جو کچھ ہے، مٹی ہی دیتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرمﷺنے احترامِ آدمیت کا درس دیا۔لوگوں سے فرمایا کہ ’’جب کوئی جنازہ آئے تو کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ ایک مرتبہ آپﷺتشریف فرما تھے تو دُور سے ایک جنازہ آتا ہوا نظر آیا۔ آپﷺکھڑے ہو گئے۔۔۔۔۔۔ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم عرض کرنے لگے: ’’یارسول اللہﷺ یہ یہودی کا جنازہ ہے۔‘‘ آپﷺکے چہرے پر غصے کی سرخی دوڑ گئی مگر خاموش رہے۔ جب جنازہ گزر گیا تو فرمانے لگے: ’’میں نے تمہیں کب کہا ہے کہ مسلمان کا جنازہ آئے تو کھڑے ہو جاؤ۔ میں نے تو یہ کہا ہے کہ جنازہ آئے تو کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ احترامِ آدمیت کا درس۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺنے فرمایا کہ ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔ تو جب یہاں مٹی کا ذکر کیا ہے تو یہ احترامِ آدمیت کا سبق دیا ہے مسلمانوں کو کہ تم نے احترامِ آدمیت کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر یہ چھوڑ دو گے تو دُنیا میں تذلیل ہو جائے گی تمہاری، ذلیل ہو جاؤ گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سُنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے پیار کرنا ہے۔
ایک تو مٹی کی افادیت یہ کہ ساری چیزیں آپ اس سے حاصل کرتے ہیں اور دوسرا مٹی کا ذکر اس لیے کیا کہ ہمارا سارے کا سارا مذہب، ساری کی ساری عبادات اور ساری کی ساری ریاضت، ہمارے عجز کے بغیر بالکل بیکار ہیں۔ اگر انسان کے اندر عجز نہ پایا جائے تو اس کی عبادت کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے، کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں اللّٰہ اکبر تو اس کا مطلب بھی اپنا ہی عجز ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کو بڑا مان لیتے ہیں تو یقیناًہم بہت چھوٹے ہیں۔ ہم اِقرار کرتے ہیں اپنی عاجزی کا۔ تو وہ مٹی جو سارے خزانے آپ پر اُنڈیلتی ہے مگر رہتی پیروں کے نیچے ہے۔ جب آپ مٹی کے بارے میں غور کریں گے اور آپ کو یہ احساس ہو گا کہ مجھے مٹی سے بنایا گیا ہے تو آپ عجز اختیار کریں گے۔ عجز کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ یہ عجز ہے اس مٹی کا کہ سارے خزانے آپ پر اُنڈیل رہی ہے، لُٹا رہی ہے مگر پیروں کے نیچے ہے۔ سب سے حقیر چیز آپ کہتے ہیں اِسے اور اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے، اللہتعالیٰ کو ماننے والے، اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے والے سب اس پر دندناتے پھرتے ہیں اور اِسی پر کودتے ہیں۔ جیسے مرضی اس مٹی کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ عجز کی انتہا ہے مٹی کی۔
تو دو چیزیں ہو گئیں کہ سب کچھ دینا مگر اپنے لیے کچھ نہیں اور پھر عاجزی۔ تو آپ جب مٹی کے بارے میں غور و فکر کریں گے اور آپ کو یہ احساس ہو گا کہ ہم مٹی سے بنے ہوئے ہیں توآپ عجز اختیار کر لیں گے۔ کوئی شخص مومن ہو سکتا ہے نہ دین دار ہو سکتا ہے جب تک عجز اختیار نہ کر لے کیونکہ جو بت ہم پالتے ہیں، اُن میں سب سے بڑے بُت ہماری اَنا کے بُت ہوتے ہیں۔ صرف وہی بت نہیں ہوتے جو لوگ مٹی اور پتھروں کے اور لکڑی کے بناتے ہیں۔جو ہم اَنا پرستی کرتے ہیں، یہ سب سے بڑا بُت ہے جس سے معاشرے میں نفرت پھیلتی ہے، ناہمواری پھیلتی ہے، ظلم پھیلتا ہے۔ تو ہمیں عجز اختیار کرنا ہے۔ یہ احساس ہمیں دلایا جا رہا ہے مٹی کا حوالہ دے کر۔ تو دو چیزیںیہ ہو گئیں۔
تیسری چیز جو بہت بڑی quality انسان میں ہونی چاہیے، وہ پردہ پوشی ہے۔ عیب ڈھانپنے کی، برائی دیکھ کر اُس پر شور نہ مچانے کی، نشر نہ کرنے کی ہونی چاہیے۔ بہت منع فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور اللہ تعالیٰ کے رسولﷺنے لوگوں کی ٹوہ میں رہنے سے، لوگوں کے راز جاننے سے، لوگوں کے معاملات کو جاننے کی کوشش کرنے سے، لوگوں پر بہتان باندھنے سے، افواہیں پھیلانے سے، بات کو پھیلانے سے۔ یہ مٹی کا کام ہے کہ ہر ایک کی پردہ پوشی کرتی ہے، سارے عیب اپنے سینے میں چھُپا لیتی ہے، یہ quality ہے مٹی کی۔ آپ دیکھیں کوئی dead body آپ دریا یا سمندر میں ڈالیں، وہ اُلٹ کر باہر نکال دے گا، اگر کوئی جانور نہ کھا جائے تو۔ dead body پانی اُچھال دے گا، اپنے اندر نہیں سموتا مگر کتنے کروڑ اور کتنے ارب انسان اس مٹی کے سینے میں دفن ہیں۔ بڑے بڑے پیغمبر علیہم السلام، بڑے بڑے مفکر، بڑی بڑی عظیم ہستیاں، بڑے بڑے ولی، بڑے بڑے گنہگار، یہ سب کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ کتنے راز اِن کے سینوں میں اُن کے ساتھ دفن ہیں۔ تو مٹی کا حوالہ جب اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ دے رہے ہیں تو اس میں حکمت ہے۔ بغیر حکمت کے کملی والےﷺبات نہیں کرتے۔ تو ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہم یہ سوچیں کہ مٹی کا حوالہ کیوں دیا اللہ تعالیٰ کے رسولﷺنے؟ ہمیں یہ سکھانے کے لیے کہ جو کچھ تیرے پاس ہے، دوسروں کے لیے اُنڈیل دے، لُٹا دے، تقسیم کر دے۔ مٹی یہ ہی کام کرتی ہے کہ اتنے خزانے رکھنے کے باوجود عاجزی اختیار کرتی ہے۔ عجز میں ہی تیری برتری ہے، عجز میں ہی تیرا قربِ الٰہی ہے، عجز میں ہی تیری ترقی ہے اور پھر زندگی اس طرح گزار کہ دوسروں کی پردہ پوشی کر، لوگوں کے پردے نہ اُتار جیسا کہ زمین پردہ پوشی کرتی ہے۔
اس کے علاوہ چوتھی بات۔۔۔۔۔۔۔ مٹی وہ واحد چیز ہے جس کے اندر دُنیا کی ہر چیز شامل ہو سکتی ہے، preserve ہو سکتی ہے، گُھل سکتی ہے۔ بے شمار چیزیں وہ ہیں جو پانی میں نہیں گھلتیں، بے شمارچیزیں وہ ہیں جو پٹرول میں نہیں گھلتیں، بے شمار چیزیں وہ ہیں جو تیل میں حل نہیں ہوتیں مگر مٹی وہ واحد چیز ہے جس میں ہر چیز شامل ہو جاتی ہے، مٹی اس کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ تو جب ہم مٹی سے بنے ہیں تو ہم میں بھی یہ قوت اور یہ quality موجود ہے کہ ہم بھی چیزوں کو اسی طرح جذب کر لیں اور یہ وہ اصول ہے جو ہمیں اس میں سے سمجھنا ہے، جس پر ہمارے تمام تصوف کی بنیاد ہے۔ تمام صوفی ازم کی بنیاد اس ایک فلسفے پر ہے جو مٹی اپنے اندر جذب کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ سارا کا سارا تصوف کیا ہے؟ صبغت اللہ، اللہ تعالیٰ کا رنگ۔۔۔۔۔۔۔ تصوف اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جانے کا نام ہے، اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جانے کا نام درویشی ہے۔ آپ کو پروردگارِعالم نے مٹی سے اسی لیے بنایا ہے کہ یہ سارے رنگوں کو قبول کر لیتی ہے۔ تو جتنا جتنا کوئی انسان صفاتِ الٰہیہ کو اپناتا جاتا ہے اتنا اتنا پکا صوفی بنتا جاتا ہے، اتنا بڑا درویش بنتا چلا جاتا ہے، اتنا اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور پھر وہ کہلاتا ہے صبغت اللہ کہ جس پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھ گیا، تو یہ بھی مٹی میں صفت ہے۔ جب میں مٹی کی یہ بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اولادِ آدم میں یہ ساری صفات موجود ہو سکتی ہیں، موجود ہیں۔ہم غوروفکر کریں، اس پر توجہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ساری صفات ہمارے اندر پائی نہ جائیں اور ہم ان کو لے کر اپنی منزلِ مقصود حاصل نہ کر لیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کر لیں۔ تو یوں ہی اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺنے لفظ ’’مٹی‘‘ نہیں فرما دیا۔ کوئی لفظ بغیر حکمت کے کملی والےﷺکی زبانِ مبارک سے ادا نہیں ہوتا۔
پھر آپ دیکھیں کہ طب کے کتنے بڑے اصول اس کے اندر موجود ہیں۔ آج تک انسانی جسم پر جتنی تحقیقات ہوئی ہیں، ہو رہی ہیں، ہوتی رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔ انسانی جسم کے بے شمار علوم دُنیا میں آ رہے ہیں مگر اس کی ساری بنیاد ایک ہی ہے کہ جو ingredients مٹی میں پائے جاتے ہیں، وہ سارے کے سارے انسانی جسم میں موجود ہیں۔ مٹی کے اندر چونا ہے، ہمارے اندر چونا ہے۔ مٹی کے اندر پانی ہے، ہمارے اندر پانی ہے۔ مٹی کے اندر تانبا ہے، ہمارے اندر تانبا ہے۔ مٹی میں چاندی ہے، ہمارے اندر چاندی ہے۔ مٹی میں کوئلہ ہے، ہمارے اندر کوئلہ ہے۔ مٹی میں تیزاب ہے، ہمارے اندر تیزاب ہے۔ مٹی میں گندھک ہے، ہمارے اندر گندھک ہے۔ یہ طب کے سارے اصول اس پہ آپ کے سامنے آتے ہیں کہ وہ تمام چیزیں جو مٹی کے اندر پائی جاتی ہیں، انسانی جسم میں بدرجہ اُتم موجود ہیں اور جب کسی چیز کا balance بگڑتا ہے، کسی خوراک کے کھانے یا نہ کھانے سے، کسی اور وجہ سے تو یا ہمارے جسم میں کچھ عناصر بڑھ جاتے ہیں یا کم ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہی چیز ہمارے جسم کو دوائیوں یا جڑی بوٹیوں کی شکل میں دی جاتی ہے، خصوصاََ ہومیو پیتھک سسٹم میں، بائیو کیمک سسٹم یا طب یونانی کے ذریعے۔ وہ تو base ہی اس پر کرتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جسم کو دیتا ہے جو جسم میں کسی وجہ سے کم ہو جاتی ہیں اور یہ ساری کی ساری وہ ہیں جو مٹی میں موجود ہیں۔ ہمارے جسم میں کوئی ایسی چیز نہیں جو مٹی میں already موجود نہ ہو، ایک بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے۔ تو یہ بھی حکمت ہے۔ آپ کو پورا طب سمجھا دیا ہے کملی والےﷺ نے ایک جملے میں کہ ’’تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے ہیں۔‘‘ طب بھی سمجھا دی آپ کو۔ آپ کے نظام جسم کے سارے اصول بھی سمجھا دیے۔ تو بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے غوروفکر کبھی نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے تو خود فرمایا ہے کہ ’’اے حبیبﷺ! اے میرے پیارے رسولﷺ میں نے تجھے عطا کی روشن کتاب اور حکمت۔‘‘ مگر ہم نے اس پہ کبھی غور ہی نہیں کیا کہ کملی والےﷺکا مختصر سے مختصر جملہ جو ہے وہ اپنے اندر پوری حکمتیں لیے ہوئے ہوتا ہے، ہم نے اس پر کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ ہم سرسری نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ یہ حکمتوں سے بھرپور ہے۔
پھر اس مٹی کی اہمیت دیکھیے کہ ہمیں مٹی سے بنے ہوئے اس انسان کی کتنی عزت و توقیر کرنی چاہیے کہ جب آپ کو پانی میسر نہیں ہوتا تو آپ اس مٹی پر ہاتھ مارتے ہیں اور تیمم کر لیتے ہیں۔ آپ کے جسم کو پاکیزہ کر دیتی ہے ۔ کبھی غور کیا اس کی importance پر؟ یہ چھوٹی سی بات کا کہ آپ نے ہاتھ مارا تو تیمم کر لیا، طہارت حاصل کر لی، ویسی طہارت جو آپ کو پانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر آپ سجدہ کہاں کرتے ہیں؟ اسی مٹی پر اپنا سر جھکاتے ہیں۔ پروردگار عالم کو سجدہ کرتے ہیں اسی مٹی پر سر رکھ کے۔ تو یہاں جب رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے‘‘ تو اس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ آپ کو یہ سبق دیا جائے کہ احترامِ آدمیت ہمارا پہلا اصول ہے۔
آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺکیا فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ ’’جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ اور ایک مرتبہ رسولِ اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف ہاتھ اُٹھا کر فرمایا کہ ’’سن لے اللہ تعالیٰ کے پہلے گھر! مجھے تیری حرمت سے ایک انسانی جان کی حرمت زیادہ عزیز ہے۔‘‘ تو مٹی کا حوالہ دینا جو ہے یہاں بنیادی طور پر احترامِ آدمیت کا سبق آپ تک پہنچانا ہے کیونکہ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ ’’تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو‘‘ تو وہ تو صرف یہ بات ہو جائے گی کہ ہم ایک نسل سے ہیں، ہم میں کسی کو کسی پر کوئی برتری یا فضیلت حاصل نہیں ہے ماسوائے تقویٰ کے مگر جب آپﷺنے یہ ساتھ میں add کر دیا کہ ’’آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے‘‘ تو پھر ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ مٹی میں وہ کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں جو ہم میں موجود ہوں گی اور جب ان صفتوں کو دیکھیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بانٹنے والے نہ ہو جائیں، کوئی وجہ نہیں کہ ہم عجز اختیار نہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کو اگر کوئی چیز سب سے زیادہ پسند ہے تو وہ عاجزی ہے کیونکہ پروردگارِ عالم میں تمام صفات موجود ہیں سوائے عاجزی کے۔ اللہ تعالیٰ عاجز ہرگز نہیں ہے اور جو عاجز ہو وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ تو یہ صفت وہ اپنی اِس مخلوق میں، اِس اشرف المخلوقات میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تو جب آپ اپنی ذات پر غور کریں گے مٹی کے حوالے سے تو آپ میں عجز پیدا ہو جائے گا اور آپ کی ساری عبادت کارآمد ہو جائے گی۔ پھر جو تصوف میں ایک بہت بڑی صفت قبول کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص صوفی نہیں بن سکتا، ولی اللہ کے درجے پر فائز نہیں ہو سکتا، جب تک وہ پردہ پوش نہ ہو۔ تو یہ صفت بھی مٹی میں موجود ہے۔
تو میں آج اس مختصر سی بات کے ساتھ کہ صرف مٹی کے حوالے سے اگر ہم غور کریں تو خود اپنا کتنا احترام کریں گے اور جب ہم اپنا ذاتی احترام شروع کرتے ہیں تو تب دوسروں کا احترام کرتے ہیں، ورنہ آپ دوسروں کا احترام نہیں کر سکتے ۔ رسول اکرمﷺنے فرمایا: ’’اپنے ماں باپ کو گالیاں نہ دو۔‘‘ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا: یا رسول اللہﷺ! ہم اپنے والدین کو گالیاں کب بکتے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: ’’جب دوسرے کے والدین کو برُا بھلا کہتے ہو تو اپنے ہی ماں باپ کو کہتے ہو کیونکہ پھر وہ تمھارے ماں باپ کو گالیاں بکتا ہے۔‘‘ تو احترامِ آدمیت کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ اپنی عزت کرنا سیکھیں۔ آپ کو پتا ہو کہ مجھ میں یہ یہ خوبیاں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں، میرا خمیر اس چیز پر میرے مالک نے اُٹھایا ہے تو تب دوسرے کا احترام کریں گے ورنہ ہر گز نہیں کر سکتے ۔ احترامِ آدمیت کا یہ ہی اصول ہے۔
ہمارا دشمن پوری کوشش کر رہا ہے کہ ہمیں مسلمان بنا دے مگر ہم مسلمان تب ہی بنیں گے جب اجتماعی توبہ کریں گے۔ ہم اجتماعی توبہ کی طرف نہیں آ رہے ہیں، اپنے روّیوں میں تبدیلی نہیں کر رہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری حمایت کرے، اللہ تعالیٰ ہماری تائید کرے، اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیں حاصل ہو، اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری مدد کو اُتریں۔ ہر گز نہیں اُتریں گے جب تک ہم من حیث القوم توبہ نہیں کریں گے، اور توبہ کیا ہے؟ ہماری توبہ کیا ہے قوم کی حیثیت سے کہ جو شخص اپنی زندگی کے جس شعبے میں ہو، سامان بیچنے والا ہو، سبزی اُگانے والا ہو، پھل اُگانے والا ہو، اناج بیچنے والا ہو، کپڑا بنانے والا ہو، جوتا بنانے والا ہو، سڑکیں بنانے والا ہو، پولیس میں ہو، فوج میں ہو، کسی اور ادارے میں ہو، حکمران ہو، سیاستدان ہو، طالب علم ہو جب تک اپنا کام دیانت داری سے نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ جب ہم اپنے کام دیانتداری سے شروع کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہماری توبہ قبول ہو جائے گی اور پھر دُنیا میں ہماری کوئی تذلیل نہیں کر سکے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے صحیح معنوں میں بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہدایت دے کہ ہم صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں (آمین)۔
کتاب ۔ منشور حق

SHARE