عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
تراویح: عَنْ اَبِیْ ہُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ قاَلَ : مَنْ قَامَ رَمَضاَنَ اِیْماَناً وَاِحْتِسَاباً غُفِرَلَہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ۔ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
نمازِ تراویح کا پڑھنامردوں اور عورتوں کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے۔ اورجماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے ۔
نمازِ تراویح کا وقت نمازِ عشاء کے بعد سے فجر تک ہے وتر سے پہلے اور وتر کے بعد بھی لیکن تراویح کی نماز وتر سے پہلے پڑھنی چاہئے اگر کسی شخص کی کچھ رکعت تراویح کی رہ گئی ہوں اور امام وتر پڑھنے لگے تو یہ وتر میں شریک ہوجائے اور بعد میں چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرے اس طرح بھی جائز ہے۔
واضح ہوکہ تراویح کی ہر دو رکعت مستقل نماز کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ہر دو رکعت کے شروع میں نیت کرنا اور تکبیر تحریمہ کے بعد قرأت سے پہلے ثنا پڑھنا چاہئے۔
تراویح ایک مسنون نماز ہے،عام مسلمان رمضان المبارک میں اسے ذوق و شوق اور رغبت کے ساتھ ادا کرتا ہے ،اور اس کی ادائیگی میں ہمہ جہت سعی بھی کرتا ہے ،اس کے شرعی اغراض کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز تراویح کا مقصد فقط اقامت رمضان ہے،جس طرح رمضان کی فضیلتوں کی بناء پر اضافے کے ساتھ عبادات کئے جاتے ہیں اسی طرح معمولات رمضان میں تراویح بھی ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ،مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز پر مواظبت فرمائی ہے اور خلفائے راشدین نے نہ صرف اس مواظبت کو باقی رکھا بلکہ اسے مزید اہتمام کے ساتھ قائم بھی کیا ،تا آنکہ وہ نماز باجماعت پڑھی جانے لگی۔نماز باجماعت کی روایت کی بناء پر، امت کا تعامل خلفائے راشدین کے زمانے سے چلاآرہا ہے ۔نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی کا ایک دوسرا مقصد ،قرآن کریم کی مکمل سماعت بھی ہے ،گویا تراویح میں پورا قرآن سننا اور سنا نا بھی ایک اہم غرض ہے،ظاہری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ہر دو مقصد کا رِ ثواب و فضیلت ہے نہ کہ فرض و ضروری ہے اور یہی اس مسئلہ کا فقہی نقطۂ نظر بھی ہے اور آج امت کا تعامل بھی اسی نظریہ کا ہے اور جب نماز تراویح کا پہلو زیر تجزیہ آتا ہے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ تراویح کا اصل مقصد سماعت قرآن ہے ،خلفائے راشدین کا حد درجہ اہتمام فقط اسی لیے تھا کہ عوام کے قلب میں قرآن کی تلاوت کی گونج سنائی دے، اس کی مسنون حیثیت کو موکد حیثیت دینا ؛ تحفظ قرآن اور تحفظ تلاوت قرآن پر ہی منتج ہوتی ہے۔یہ نکتہ تو صاف ہے کہ تراویح چند شفعوں پر مشتمل ایک نماز ہے ،اس نماز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی ادا کرتے تھے، روایات میں کثرت قیا م کی وضاحت ملتی ہے مگر یہ وضاحت نہیں ملتی کہ وہ ان نمازوں میں پورے قرآن کی تلاوت فرماتے تھے اور شاید دور نبیؐ میں اس کی باجماعت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ فقط یہی تھی کہ شدائد کی بھیڑ میں ایک مشقت اضافہ نہ ہوجائے اور جماعت کاعمل کہیں اس کے فرض ہونے کی اطلاع نہ دے خصوصاً نماز تراویح کا اصل مقصد انفرادی طور پر ہی حاصل ہور ہا ہو تو اسے باجماعت نماز تراویح ادا کرکے حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ چونکہ قرآن اول کا زمانہ خصوصاً صحابہ کا زمانہ تلاو قرآن سے محروم نہ تھا ،ہر صحا بی تلاوت قرآن کے مشتاق تھے اور اس سے دلچسپی رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ عام نمازوں میں پور اپورا قرآن ختم کر دیاکرتے تھے،لیکن جب دور نبی ؐ ختم ہوا اور خلفائے راشدین کا زمانہ آیا تو اسلام لانے والے لوگوں کی کثرت کی بناء پروہ اعتصام عقیدہ نہ رہا جو صحابہ کا عقیدہ تھا اوامر میں استخفاف اور سنن سے کوتا ہی ہونے لگی تھی اور قرآن سے تمسّک اس درجہ کا نہ رہا تھا ۔ انہی بنیادوں کی بنا ء پر حضرت عمر نے تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا اور یہ بات تاریخی گوشوں سے معلوم ہوتی ہے کہ اس کا حکم ایک مقصد جہاں اقامت رمضان تھا وہیں ،یہ بھی تھا کہ عام لوگ مکمل قرآن سن سکیں ۔(ملت ٹائمز)