محمد علم اللہ
ہمارے عہد میں انسان کی تقدیر کو بنانے اور سنوارنے میں اطلاعات یعنی خبروں کا کردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ طاقت کا ایک خصوصی اور اہم ذریعہ ہیں، یہاں تک کہ اطلاعات نے دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں، امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ یا پھر دائیں بازو یا بائیں بازو کی وہ طاقتیں جو آپ کو یا ہم کو پسندنہیں، یا جن کے کرتوتوں اور کارناموں کو ہم انسانیت کے لئے مضر قرار دیتے ہیں، ان سب کی کام یابی کے پیچھے بھی اس ٹیکنالوجی کا اہم کردار رہا ہے۔
اس لئے اس حقیقت کو جتنا جلد ممکن ہو تسلیم کر کے اس پر قابو پا لیا جائے بہتری اسی میں ہے، یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ جو لوگ بھی اس عالم میں افتخار، طاقت اور ترقی چاہتے ہیں ان کو اس اہم ذریعہ کا نظم و انتظام سیکھ لینا چاہیے اور مسلسل ترقی کرتی ہوئی اطلاعات کی ٹیکنالوجی سے خود کو صرف ہم آہنگ ہی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی ہم آہنگ رکھنے کے لئے اپنی سی کوشش کرنی چاہیے۔
جدیداطلاعاتی ٹیکنالوجی کے دور میں ماجرا یہ ہے کہ جو بھی اطلاعات کو قابو میں رکھنے میں کام یاب ہوتا ہے، وہ تمام دنیا میں غلبہ پالیتا ہے۔ بہ ظاہر دیکھیں تو اس میں ہمیں اطلاعات کا طوفان دکھائی دیتا ہے، مگر یہ بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اہل یورپ بھی سمجھنے اور انتخاب کرنے کی صلاحیت میں پیچھے رہ گئے ہیں، جب کہ اطلاعات کو پیدا کرنے والے ادارے انہی کے ہیں اور ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے اِبلاغی اداروں کا کردار ثانوی ہے۔ مغربی تہذیب کے متوالے اطلاعات کی دنیا میں رو نما ہونے والے انقلاب کو ایک بہت ہی نمایاں کام یابی سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ کو اقتدار میں لانے میں اس مشین نے کتنا اہم کردار ادا کیا یہ کہنے والی بات نہیں ہے، مغربی میڈیا میں یہ آج بھی بحث کا موضوع ہے، جس طرح ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی بابت کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے مکمل طور پر میڈیا کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔
آج گروہی، ذاتی یا پارٹی مفادات کے لیے اطلاعات نہ صرف گڑھی جاتی ہیں، بلکہ من چاہی اطلاعات کو روکا اور پیش بھی کیا جاتا ہے اور حالیہ انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح اطلاعات روکی گئیں اور کس طرح انھیں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تاکہ ایک خاص مفاد اور طاقت کی حفاظت کی جائے، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج سارے ہی لوگ ایک خاص تناظر میں نہ سوچ رہے ہوتے۔
اطلاعات کا دائرہ ہمیشہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ ہمیں آج کی دنیا کے واقعات کے بارے میں صحیح معلومات سے باخبر ہونا اور کرنا دونوں لازمی ہے۔ ہم بار بار ایسی میڈیا اور اداروں کے قیام کی بات کرتے ہیں جو حق اور سچ کا داعی ہو، جھوٹو ں کو منہ توڑ جواب دینے والا ہو لیکن جب اس جانب توجہ دینے کی بات آتی ہے تو ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ کس قدر بد نصیبی کی بات ہے کہ جس ملک میں کسی کمیونٹی کی بیس کروڑ آبادی ہے، ہزاروں این جی اوز اور تنظمیں ہیں، لیکن اس کا ایک بھی اپنا ڈھنگ کا ابلاغی ادارہ نہیں ہے جو آنے والے سیلاب کا مقابلہ کر سکے یا اس پر بند ہی باندھ سکے۔ جو پرانے اور روایتی اطلاعاتی ذرائع تھے وہ دھیرے دھیرے بند ہو رہے ہیں، نئے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ کچھ ادارے اس جانب کوشش کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجئے ان کی بھی حیثیت اپنے ادارے کے ترجمان یا خبری بلیٹن سے زیادہ نہیں ہے، اور اس کا معیار اس قدر گھٹیا ہے کہ آج کی نوجوان نسل تو چھوڑیے بزرگ اور بوڑھے بھی پڑھنا گوارا نہیں کریں گے۔
کہنے کو تو ہم یہ بات بڑے زور و شور سے کہتے ہیں کہ اطلاعات کے بہاؤ میں بہنے سے رُکیں، ہر اطلاع پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں، کہی گئی ہر بات کو فوراً مان لینے سے باز رہیں، واقعات کی صحت اور اطلاعات کی صداقت اور ان کے افشا ہونے کا موقع ذہن میں رکھیں اور اس کے بعد ہی اپنی کوئی رائے قائم کریں یا تجزیہ پیش کریں، پھر اس کے ظاہر ہونے کا مخصوص وقت بھی دیکھیں کہ بہت سی پرانی اطلاعات روک کر مخصوص فائدے کے حصول کے لیے بعد میں ظاہر کر دی جاتی ہیں اور عام لوگ اس سے بے پروا ہو کر اس اطلاع کو قبول کرلیتے ہیں، جس سے اطلاع دینے والے کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن بات محض کہنے سے بننے والی نہیں ہے عملی قدم بھی اٹھانا ہوگا، آخر ہم کب تک رونا روتے رہیں گے اور دوسروں کے آسروں پر تکیہ کریں گے۔
اب وقت آ گیا کہ ہم اپنی تاریخی ارتقا اور سماجی بلوغیت کو پہچانیں اور اسے وہاں پہنچا دیں جہاں سے ہم دوسروں کے افکار اور ان کی کوششوں کے بارے میں صحیح فیصلہ کرسکیں اور اس طرح سے ہم دنیا میں اپنے مقام اور مرتبہ کو پہچان لیں اور اپنے گھر کو ٹھیک کرلیں۔ اس طرح ہم یہ انتخاب کرسکتے ہیں کہ نئی دنیا میں ہمارے لیے کیا چیز مفید ہے اور کیا چیز مضر۔ جو چیز غیر مفید ہیں ان کو رد کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے تین محاذوں پر متحرک ہونا ہوگا۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے عہد کی خصوصیات اور تمدن کواپنے دور کی سب سے بڑی علامت سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمدن کی اقدار اور اس کے اصولوں کو سمجھنا دونوں ضرر رساں انتہاؤں سے یعنی اس سے نفرت اور یا پور ے طور پر اس کے ساتھ بہہ جانے سے خود کو آزاد کرنا۔
دوسرے محاذپرہم لوگوں کو اپنی شناخت کو جو گوناگوں مصائب کا سامنا کرنے کے بعد بھی انسان دنیا کے لیے گراں قدر تحفے کی حامل رہی ہے، مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہیے۔
اور تیسرے محاذ پر ہمیں ان مسائل کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو ہمارے معاشرے کو باہر سے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وسعت پسندانہ اوچھی سیاست، اقتصاد اور ثقافت پر غلبہ پانے والا مزاج، ہمیں ساتھ ہی ساتھ اپنے اندرونی مسائل اور جھگڑوں کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم خود کو زیادہ طاقت ور اور مضبوط بنا سکیں۔
ہماری زیادہ تر روایتیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں، وہ اپنے عہد میں چاہے کتنی بھی عظیم رہی ہوں، وہ ایک مختلف تاریخی زمان و مکان سے متعلق ہیں اور بہر حال ہمارے لیے قابل احترام اور مقدس ہیں، لیکن بہت سی غیر منطقی اور وقت و حالات سے میل نہ کھانے والی چیزوں سے بھی چِپکے رہنا دانش مندانہ عمل نہیں ہے۔ آج خیالات میں کٹر پن کی وجہ سے ہمارے معاشرہ میں بہت سی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں جو انسانی افکار اور کامیابیوں کو استعمال کرنے سے روک رہی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف فطری دنیا ہی نہیں بلکہ مذہب کے سلسلہ میں بھی تشویش کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے اور نوجوان نسل تشکیک کا شکار ہے، کیا حق کا دعویٰ کرنے پر اس کے لئے کچھ ذمہ داریاں عائد نہیں ہوتیں؟ ۔ کیا اس جانب سوچنے اور سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک ہم اس جانب توجہ نہیں دیں گے ہم اعتماد اور عقل پیدا نہیں کر سکیں گے، حالات کے رحم و کرم پر ہی زندگی بسر کرنی ہوگی اور ہم اپنی قسمت کے مالک کبھی نہیں ہوں گے۔