دارالعلوم دیوبند فتویٰ اور مدارس کمرشلائزیشن کے مضر اثرات

 مسعود جاوید

سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ فتویٰ ہوتا کیا ہے ؟

فتوی شریعت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام یعنی قران  و احادیث کی روشنی میں کسی فعل کےٰ جائز یا ناجائز کسی شئی کے حرام یا حلال اور کسی معاملے کا صحیح یا باطل کے سلسلے میں معتبر اور معترف دارالافتاء سے صادر ہونے والی رائے کو کہتے ہیں.

فتویٰ کب اور کس طرح صادر ہوتا ہے ؟

جب کسی دینی امر ،  خواہ عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے ،  میں صاحب معاملہ کو تذبذب ہو کہ شریعت کی روشنی میں یہ درست ہے یا نہیں تو وہ معترف دارالافتاء سے رجوع کرکے شریعت کی رائے طلب کرتا ہے. اس رائے دینے والے ادارہ کو دارالافتاء، رائے دینے والے کو مفتی ، رائے کو فتوی ، رائے طلب کرنے والے کو مستفتی اور رائے طلب کرنے کی درخواست کو استفتاء کہتے ہیں . 

فتویٰ کی قانونی حیثیت؟ 

فتویٰ کی قانونی حیثیت مسلمانوں کو حرام حلال جائز ناجائز کی وضاحت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے. جس کا جی چاہے اس پر عمل پیرا ہو جس کا جی چاہے اس سے انحراف یا انکار کرے. دارالافتاء محض  ایک ‘شرعی رائے’  دینے والا آرگن ہے اس فتوے کے نفاذ کے لئے کوئی طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا اور نا دارالافتاء کے ماتحت کوئی پولیس فورس ہوتی ہے.  نہ ماننے والے کو اس ملک کی تعزیرات کے تحت کوئی سزا نہیں. 

کل ہند سطح پر بلکہ بر صغیر ہند میں دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء ایک بہت ہی معتبر نام ہے اور مرجع خلائق کا درجہ رکهتا ہے . 

ریاستی سطح پر امارت شرعیہ نے بہار جهارکهنڈ اور اڑیسہ  کے مسلمانوں کے عائلی مسائل کے آپسی حل کے لئے مختلف ضلعوں میں دارالقضاء قائم کیا ہے جو بسا اوقات دارالافتاء کا کام بهی کرتا ہے.  ان کے علاوہ ملک کے بعض علاقوں میں بهی دارالافتاء قائم ہیں.  

مفتی کی تعریف 

دینی تعلیم سے فراغت کے بعد یعنی عالمیت یا فضیلت کے بعد مختلف شعبوں میں تخصص (Honours ) کا کورس ہوتا ہے. ان ہی تخصصات میں سے ایک تخصص کا نام ” افتاء ” ہوتا ہے. دارالعلوم دیوبند میں اس میں داخلے کا امتحان entrance test بہت سخت ہوتا ہے. اس کا کورس اچهے نمبرات سے پاس کرنے والے کو “مفتی” کی سند دی جاتی ہے.عصری علوم کی کمرشلائزیشن پرائیوٹ(پبلک) اسکول پرائیوٹ کالج اور پرائیوٹ یونیورسٹی کی طرح بعض  مدارس والوں نے بهی دینی تعلیم کو نشر التعليم الإسلامي فی سبیل اللہ کی جگہ پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے. چنانچہ جن طلباء کا دارالعلوم کے تخصص افتاء میں داخلہ نہیں ہوتا ان کے لئے دیوبند میں بعض لوگوں نے پرائیوٹ تخصص افتاء کا مدرسہ کسی دو تین کمرے کی فلیٹ میں کهول رکها ہے. ظاہر ہے اس کے فارغین بهی مفتی کہلاتے ہیں. 

فتویٰ کیا ہے ؟

اگر آپ کو کسی بڑے یا متوسط درجے کے وکلاء کا دفتر جانے کا سابقہ پڑا ہو تو آپ نے دیکها ہوگا کہ ان کی بک شیلف میں متعدد مجلد کتابوں جن پر مقدمے کا عنوان فیصلہ اور سن فیصلہ لکها ہوتا ہے. جب کبهی یہ وکلاء کسی مقدمے کی پیروی بحث یا جرح کے لئے عدالت جاتے ہیں تو اس سے قبل ان کتابوں (ریکارڈ) کا بغور مطالعہ کرتے ہیں کہ کس قانون کے کس دفعہ کے تحت کس جج نے کس سال کیا فیصلہ سنایا تھا. بالکل اسی طرح دارالافتاء میں فتاوی کی بے شمار جلدیں فتاوی عالمگیر فتاوی دارالعلوم فتاوی عزیزیہ وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں اور جب کوئی استفتاء وہاں پہنچتا ہے تو انہی جلدوں میں اس کا جواب تلاش کرکے فتویٰ تحریر کیا جاتا ہے معاون مفتی فتوی نویس فتویٰ لکھ کر صدر مفتی کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ اس میں ترمیم وتعديل اصلاح کے بعد منظوری دیتے ہیں اس کے بعد باضابطہ جواب یعنی فتوی لکها جاتا ہے جس پر صدر مفتی نائب مفتی اور معاون مفتی کے دستخط کے بعد سائل / مستفتی کو سونپا جاتا ہے.

 

میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز والوں کی فتویٰ اور دیگر دینی اصطلاحات سے عدم واقفیت اور بسا اوقات خباثت اور شرارت کی وجہ سے فتوی کا گمراہ کن مفہوم عوام میں پهیلایا جاتا ہے. ٰ اور فتوے کے تعلق سے دارالعلوم دیوبند اور علماء کا امیج مسخ ہوتا ہے. 

عموماً ٹی وی چینلز والے امام بخاری صاحب یا کسی مولانا کے بیان یا کسی پارٹی کے حق میں اپیل کو فتویٰ کا نام دے کر واویلا مچاتے ہیں اور اس طرح ہندو ووٹ پولرائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں.  فتویٰ صادر کرنے کے معترف ادارے authentic agency اور recognized authority ہیں امام بخاری صاحب یا کوئی مولوی مولانا اتھارٹی نہیں ہیں.

 

علمی بحث اور طلباء کے ذہن کهولنے کی غرض سے بعض مسائل مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں. اس کے استخراج میں کن پہلوؤں کا اعتبار کیا گیا اور کن پہلوؤں کو خارج کر دیا گیا اور کیوں.  یہ بحث برائے بحث ہوتی ہے امر واقع سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا. بال کی کهال نکالنے سے مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک مفتی کا ذہن ہر طرح کی صورتحال کو سمجهنے کے لئے لائق بنایا جائے. زکوٰۃ فرض ہے لیکن اس کی فرضیت اور ادائیگی کی شروط ہیں ان شروط میں سے ایک شرط حولان حول یعنی ضرورت سے زائد رقم جو نصاب کو پہنچتی ہو اس سر پلس رقم  پر ایک سال گزر گیا ہو. اب جس کی نیت زکوٰۃ دینے کی نہ ہو وہ گیارہویں مہینے میں اپنی رقم اپنی بیوی یا کسی معتمد کے نام سے کر دے گا. مفتی سے پوچهے گا کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں ظاہر ہے مفتی  دیکهے گا کہ سال گزرنے کی شرط پوری نہیں ہو رہی ہے اس لئے بتا دے گا کہ زکوٰۃ واجب نہیں ہے.  رمضان المبارک کے مہینے میں  صحرائی علاقے میں کوئی راستہ بهٹک گیا کھانے پینے کی کوئی چیز میسر نہیں بهوک سے مرنے کو ہے ایسی صورت میں کیا کرے . ظاہر ہے مفتی بتائے گا کہ جان بچانے کا ہر ممکن طرہقہ اپنایا جائے. کچھ نہیں تو رمق باقی رکهنے کے لئے اپنا پیشاب پی لے. اس طرح کے شاذ استفتاءات فتاویٰ کی جلدوں اور فقہ کی کتابوں میں ملتے ہیں. خبیث طبیعت ٹی آر پی بڑهانے کے لئے کسی بهی حد تک گرنے والے ٹی وی چینلز اسلام علماء اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ایسے فتووں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کمرشیل مفتی چند سکوں کے عوض ان چینلز کو ایندهن فراہم کرتے ہیں اب خبیث ذہنیت والے سیاق و سباق کو حذف کر کے یہ کہیں غے کہ اسلام میں پیشاب پینا جائز ہے تو پهر رام دیو کی بعض ادویہ پر پیشاب ملاوٹ کی وجہ سے اعتراض کیوں۔