موجودہ حالات سے باہر آنے کے لئے مسلمان خود احتسابی کو لازم پکڑیں

مدثر احمد قاسمی 

انسان اپنی زندگی میں جو پیشہ،مشغلہ یا مشن اپنا تا ہے،اس میںوہ بہت آگے جانا چاہتا ہے کیونکہ کامیابی کی اوجِ ثریا تک پہونچنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ماضی اور حال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ اس دنیاں میں بہت سارے افراد انے اپنے اپنے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور منزل آشنا بھی ہوئے لیکن ایسے لوگوں کی بھی ایک طویل فہرست مل جاتی ہے جو ناکام ہوگئے اور اپنی اپنی منزلوں کو ترستے رہے۔ہمیں یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کامیابی اور ناکامی کے پیچھے جہاں مختلف وجوہات کار فرما ہوتی ہیں وہیں ایک اہم وجہ خود احتسابی کا ہونا اور نہ ہونا بھی ہے۔ انسانی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے لئے یہ کہنا آسان ہوجاتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی خود کا احتساب کیا ،ان کے سامنے اُن کے مثبت اور منفی پہلو اُجاگر ہوگئے اور پھر ترقی کے خوگر اِن لوگوں نے مثبت ڈگر پر مزید مضبوطی سے چل کر ایک بعد ایک سنگِ میل کو عبور کرلیا اور منفی پہلو کو کامیابی کی راہوں کا پتھر سمجھ کر اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کیا ۔اس کے بر خلاف جن لوگوں نے بھی دانستہ یا نادانستہ خود احتسابی سے پہلو تہی کیااور اسی وجہ سے اپنی زندگی کے مثبت و منفی پہلو سے بے خبر بھی رہے ،ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے اپنے میدانوں میں ترقی سے دور رہے بلکہ تنزلی کے گہرے غار میں بھی گر گئے۔

دراصل خود بینی ایک ایسا مرض ہے جس سے انسان خود کو دوسروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے لگتا ہے ،اپنے کاموں کو درجہ کمال پر فائز سمجھ تا ہے اور دوسروں میں اسے عیب ہی عیب نظر آنے لگتا ہے۔ یہی وہ مرض بھی ہے جو انسان کو خود احتسابی سے روکتا ہے، جس کی وجہ سے انسان اپنی صحیح تصویر دیکھنے سے قاصر رہتا ہے، معاملات کی تہ تک نہیں پہونچ پاتا،وقت اور حالات کے تقاضوں سے غافل ہوجا تا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی کمزوریوں سے نظریں چرالیتا ہے۔ جس کا نقصان اس شخص کو تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ارد گرد بسنے والے لوگ بھی اس سے تعلق کی حد تک ضرور متأثر ہوتے ہیں۔ اس بحث سے ہمارے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے لئے خود احتسابی انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ خود بھی ترقی اور کامیابی کے راستہ پر گامزن ہوجائے اور دوسرے لوگ بھی اس سے فیض حاصل کریں۔

اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ جس طریقہ سے دنیاوی معاملات میں کامیابی و ترقی کے لئے خود احتسابی ضروری ہے بعینہ اسی طریقہ پر دینی معاملات میں بھی خود احتسابی لازم ہے بلکہ زیادہ ضروری ہے کیونکہ دنیاوی معاملات میں عدمِ خود احتسابی کی صورت میں صرف نقصان دنیا ںہی میں ہوگا جبکہ دینی معاملات میں عدمِ خود احتسابی کا نقصان دنیاں میں ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کا بھیانک انجام ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک انسان کسی گناہ میں ملوث ہے اور عدمِ خود احتسابی کی وجہ سے اسے اس کا احساس ہی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ اس گناہ کی سزا بے برکتی یا حادثات کی شکل میں وہ دنیا میں بھی جھیلے گا اور آخرت میں اس کے لئے عذاب تو متعین ہے ہی۔ اس کے بر خلاف اگر وہ خود احتسابی کے ذریعہ اپنے گناہ پر نادم ہوجاتا ہے اور اس سے باز آجاتا ہے تو دنیا و آخرت دونوں جگہ وہ رسوائی سے بھی بچے گا اور اس کے لئے کامیابی کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔ غور فرمائیں کہ خود احتسابی کے ذریعہ اپنے گناہوں پر نادم ہونے والوں کو کس طرح خوش خبری سنائی گئی ہے۔ چنانچہ سور فرقان کی آیت نمبر ستر میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : “مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تو بخشنے والا ہے اور مہربان ہے۔ “اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ گناہ کرنے والے ،برے کاموں میں ملوث اور نافرمان لوگ اگر اپنے گناہوں پر نادم ہوجائیں اور سچے دل سے توبہ کرلیں تو ایسے لوگوں کا مقدر بھی جگمگا اٹھتا ہے اور گناہ کی صلاحیت نیکیوں کی صلاحیت سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خود احتسابی کے ذریعہ ہی انسان کو اپنے صحیح اور غلط ہونے کا اندازہ ہوتا ہے اور اسکے بعد ہی غلطی سے بچتا ہے اور صحیح راستہ اپناتا ہے اسی لئے اصلاحِ نفس کے باب میں بھی خود احتسابی کا ایک کلیدی کردار ہے۔

اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ جس طریقہ سے انفرادی زندگی میں احتساب ضروری ہے اسی طریقہ سے اجتماعی زندگی میں بھی احتساب ضروری ہے کہ ایک ملت اور قوم ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمارے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے اعتبار سے اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کیا ملت اسلامیہ کہ تئیں ہماری جو ذمہ داریاں تھیں وہ پوری ہورہی ہیں یا نہیں ،وہیں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ من حیث القوم کریں اور دیکھیں کہ برادرانِ وطن کے حوالہ سے ہماری جو ذمہ داریاں تھیں ہم اس کو نبھا رہے ہیں یا نہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ ہمیں یہاں یہ اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ نہ تو ہم ملت اسلامیہ کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا محاسبہ کرنے میں کما حقہ کامیاب ہیں اور نہ ہی برادرانِ وطن کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں کا محاسبہ کرنے میں ہم خاطر خواہ کامیاب ہیں۔

مثال کے طور پر آج ملت اسلامیہ ہند مختلف مسائل سے دو چار ہے ، انہیں متعدد چیلنجز کا بھی سامنا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ متعدد خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور محاسبہ کے عمل کے ذریعے اجتماعی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی موثر کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ ان حالات میں مسائل کبھی نہیں سلجھ سکتے ہاںان کے مزید الجھنے کا قوی امکان موجود ہے۔ کیا بیس کروڑ مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بیک قوت اپنی آواز اٹھاتے تو بہت سارےمسائل اب تک حل ہو نہیں گئے ہوتے؟ دراصل بطورِ ملت ہم اپنا محاسبہ کرنے میں ناکام ہوگئے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کے مانند ہیں، جیسا کہ مسلم شریف کی ایک حدیثِ مبارکہ میں اس کی تعلیم دی گئی ہے ،چنانچہ نبیِ اکرم ﷺ فرماتے ہیں: “مسلمان آپس میں پیار و محبت، رحم و شفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کی جسم کا ایک عضو بیمار پڑجائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔” اسی طریقہ پر برادران وطن میں سے پسماندہ طبقوں پر آج بھی ظلم کا بازار گرم ہے، نبیِ رحمت کے امتی ہونے کی حیثیت سے اور من حیث القوم بھی ہماری یہ ذمہ دارہ بنتی ہے کہ ہم ظالموں کا پنجہ مروڑ دیں لیکن ہم اس میں بھی ناکام ہیں کیونکہ ہم نے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احتساب نہیں کیا، حالانکہ اگر ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے تو وہ بھی آج ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ،جس کی موجودہ ملکی تناظر میں سخت ضرورت ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ خود احتسابی ایک آلہ ہے جو ہمیں ناکامی سے دور اور کامیابی سے قریب لے جاتا ہے اسی لئے چاہے انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی یا پھر دینی معاملات ہو یا دنیوی معاملات ہمیں ہمیشہ خود احتسابی کو اپنا آلہ کار بنانا چاہئے تاکہ ہم منفی پہلوؤں سے بچتے ہوئے مثبت پہلوؤں کا اپناتے رہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہیں۔ انفرادی زندگی میں احتساب کا ایک آسان اور عملی طریقہ یہ ہے کہ ہم روزانہ سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے کاموں پر غور کریں کہ آج کیا کیا صحیح ہو ا اور کیا کیا غلط؟ پھر غلط کاموں سے توبہ کریں یا اس کی اصلاح کا راستہ ڈھونڈیںاور صحیح کاموں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اور اسے مزید بہتر ڈھنگ سے کرنے کا عزم کریں۔