گذشتہ اکتوبر سے اب تک امریکی حکام اور طالبان کے نمائندے سات مرتبہ براہِ راست مذاکرات کر چکے ہیں جن کا مقصد امریکی فوج کے انخلا کے بدلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سر زمین پر غیر ملکی دہشت گردوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سنہ 2001 میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے طالبان کی حکومت کو 9/11 کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کی الزام میں ہٹا دیا تھا۔
اب اس مسئلے کو پرامن انداز میں حل کرنے پر افغانستان کے اندر اور باہر اتفاقِ رائے ایک نایاب چیز ہے اور اس کا مطلب ہے کہ امن کا اتنا امکان اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ جون میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ یکم ستمبر سے پہلے معاہدہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مگر قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور بین الافغان مذاکرات جن میں کابل حکومت اور طالبان شامل ہیں، ایک طویل اور غیر یقینی نتائج والے اس عمل کا صرف پہلا قدم ہیں۔ اس میں کئی اور رکاوٹیں عبور کرنا ابھی باقی ہیں۔
کیا معاہدے کے لیے جنگ بندی ہونا ضروری ہے؟
اگرچہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہ کرنے کا اپنا فیصلہ بدل دیا ہے لیکن ابھی بھی شدید لڑائی اور افغان اور امریکی فوجوں کی جانب سے بہت زیادہ فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔ حالانکہ طالبان مذاکرات کر رہے ہیں لیکن سنہ 2001 کے بعد سے وہ آج ملک کا سب سے زیادہ حصہ کنٹرول کرتے ہیں۔ افغانستان کی جنگ اس وقت دنیا کا مہلک ترین محاذ ہے جہاں شام، لیبیا یا یمن سے زیادہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں جنگ کا طریقہ تبدیل ہو گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت افغان ہے، سویلین، فوجی، پولیس اہلکار اور طالبان جنگجو۔ جنوری میں صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کے سنہ 2014 میں اپنا عہدہ سنبھالنے سے اب تک ملک کے 45,000 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی دورانیے میں بین الاقوامی ہلاکتوں کی تعداد 72 رہی۔
فروری میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ سنہ 2018 میں سویلین ہلاکتیں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھیں۔ ان کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں 32,000 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ طالبان جنگجو بھی بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ اب کسی ایک طرف کا پلڑا بہت بھاری نہیں ہے اسی لیے امریکی صدر ٹرمپ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے بےتاب ہیں، جس کی لاگت امریکی حکام کے مطابق تقریباً 45 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ انھوں نے جب یہ اعلان کیا کہ تھا کہ وہ اپنے 14,000 فوجیوں کو جلد ہی واپس لے جائیں گے تو طالبان سمیت سبھی حیران ہو گئے تھے۔ افغانستان میں نیٹو کے مشن کے تحت تقریباً 1,000 برطانوی فوجی بھی ہیں جن کا کام افغان فورسز کی مدد کرنا ہے۔
لیکن اگر طالبان اور امریکہ اپنے بڑے مسائل حل کر بھی لیتے ہیں تو بھی افغانوں کو آپس میں متعدد اہم معاملات حل کرنے ہوں گے، جن میں جنگ بندی، حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور سب سے اہم نئی حکومت اور سیاسی نظام کا ڈھانچہ بنانا ہے۔
اچھا تو یہ ہو کہ جنگ بندی اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے ہو جائے اور طالبان ان میں شریک ہوں مگر ایسا ہونا مشکل ہے۔ مکمل یا کم از کم جزوی جنگ بندی کے بغیر کسی بھی انتخابی عمل پر جو سوالیہ نشان ہو گا وہ کسی امن کوشش کو ناکام کر دے گا۔
کیا اقتدار بانٹا جا سکتا ہے اور اگر ہاں تو کیسے؟
اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلے تو سب کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ صدارتی انتخابات جن میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے، پلان کے مطابق ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کابل میں نئی حکومت طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر سکتی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ حکومت اپنا وقت پورا کرے گی یا پھر تب تک اقتدار میں رہے گی جب تک بین الافغان سطح پر اقتدار کے بٹوارے کی بات ہو رہی ہے۔ مگر انتخابات کو مزید ملتوی بھی کیا جا سکتا ہے اور موجودہ حکومت کو توسیع دی جا سکتی ہے کہ جب تک نئی حکومت کا ڈھانچہ جو بشمول طالبان سب کو منظور ہو۔
کیا طالبان حکومت میں آ جائیں گے؟
ایک اس آپشن پر بھی غور ہو رہا ہے کہ طالبان کی شرکت کے ساتھ ایک غیر جانبدار حکومت یا حکومتی اتحاد بنایا جائے۔ افغانیوں کے ایک لویہ جرگہ کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے کہ وہ عبوری
حکومت کا انتخاب کریں جو کہ امریکیوں کے جانے کے بعد اور طالبان کے مرکزی دھارے کے آنے کے بعد انتخابات کروائے۔
ملک کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے سنہ 2001 میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی ایک کانفرنس جیسا کوئی اقدام بھی ایک تجویز ہے۔ اس میں افغان ہوں گے، بڑی عالمی طاقتیں، ہمسایہ ممالک اور طالبان بھی ہوں گے۔ بہت سارے طالبان رہنمائوں نے مجھے کہا ہے کہ انھیں افغان معاشرے میں واپس داخل ہونے اور الیکشن کی تیاری کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
کیا ماضی کے دشمن مل کر کام کر سکیں گے؟
دونوں جانب لاکھوں ہلاکتوں کے بعد ایسا کرنا مشکل ہو گا۔ مثال کے طور پر طالبان موجودہ حکومت کو نہیں مانتے اور اسے امریکہ کی کٹھ پیلی تصور کرتے ہیں۔ اب تک صدر غنی کی حکومت طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کر رہی کیونکہ طالبان ایک ایسی حکومت سے بات کرنے کو تیار نہیں جسے وہ قانونی نہیں مانتے۔ اب تک صدر غنی کی حکومت طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کر رہی کیونکہ طالبان ایک ایسی حکومت سے بات کرنے کو تیار نہیں جسے وہ قانونی نہیں مانتے
اسی لیے اندرونی دشمنیوں اور مقامی رہنمائوں کے بہت سے مختلف قسم کے ایجنڈوں کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات شاید امریکہ اور طالبان کے مذاکرات سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوں۔ تاہم کچھ مثبت
اشارے ہیں۔
ماسکو میں اس سال بین الافغان مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں جن میں سابق صدر حامد کرزئی سمیت افغان سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے طالبان سے بات چیت کی کہ جنگ کیسے ختم کی جائے۔ جولائی میں ایسی ہی ایک تیسری ملاقات ہوئی جس میں متعدد حاضر سروس افغان حکام نے شرکت کی تاہم ذاتی طور پر امید کی جا رہی ہے کہ ایسی ملاقاتیں طالبان اور دیگر افغانوں کے درمیان مذاکرات کو ممکن بنائیں گی۔
بہت سے افغانیوں کو اس بات کا خوف ہے کہ طالبان سے طاقت بانٹنے سے کہیں طالبان دوبارہ سے اسلامی عدل کی قدامت پسند تشریح نہ کرنے لگ جائیں۔ انھیں اس بات کا بھی ڈر ہے کہ بہت ساری آزادیاں بشمول خواتین کے حقوق میں کی جانے والی پیش رفت کھو بھی سکتی ہے۔90 کی دہائی میں اپنے دورِ حکومت کے دوران طالبان نے خواتین کے گھومنے پھرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور انھیں دی جانے والی سزاؤں میں سر عام سنگسار کرنا اور عضو کاٹنا شامل ہیں۔
اگر بات چیت سے امن نہ آیا تو؟
سنہ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پورے نہ ہونے والے معاہدوں اور جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ماضی میں کیے جانے والے بہت
سارے اقدامات دہرائے جا سکتا ہے۔ امریکہ کا افغانستان سے انخلا امن معاہدے کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر اس کے نتیجے میں کابل میں حکومت خود بخود نہیں گرے گی۔
جنگ جاری بھی رہ سکتی ہے اور ایسی صورت میں حکومت کی بقا کا دارومدار غیر ملکی اتحادیوں خاص طور پر امریکہ سے ملنے والی فوجی اور مالی امداد اور افغانستان کی سیاسی اشرافیہ کے باہمی اتحاد اور عزم پر منحصر ہو گا۔سنہ 1989 میں جب سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالیں تو کابل میں ماسکو کی حمایت یافتہ حکومت صرف تین سال ہی چل سکی
لیکن سنہ 1992 میں اس حکومت کے گرنے سے ایک خونی خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس میں بہت سارے افغان گروہوں کو خطے کی مختلف طاقتوں کی مدد حاصل تھی۔ اگر اس دفعہ بھی اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو ہینڈل نہیں کیا جاتا تو ان دونوں منظر ناموں کے دوبارہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس خانہ جنگی میں فاتح ٹھہرنے کے بعد طالبان نے سنہ 1996 میں کابل پر حکومت قائم کی اور تقریباً افغانستان کے ہر حصے پر سنہ 2001 تک حکومت کرتے رہے۔ سنہ 2001 میں امریکی کی سربراہی میں قائم اتحاد نے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اگر اس بار بھی امن معاہدہ نہ ہو سکا تو طالبان ریاست پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
افراتفری کا ماحول کیسا ہو گا؟
موجودہ امن کوششوں کے بعد طالبان کو افغانستان میں ایک نئے حکومتی نظام کا حصہ بننا پڑے گا۔اس کا مطلب لڑائی کا خاتمہ اور ایک نئی افغان حکومت کا قیام ہے جو امریکہ، خطے کی طاقتوں اور افغانوں کے لیے کامیابی ہو گی۔
لیکن اس کا متبادل خوفناک ہے۔ جس کے بعد ملک میں کشیدگی اور عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسے خطے کے لیے خظرناک ثابت ہو سکتا ہے جہاں چین، روس، انڈیا، ایران اور پاکستان جیسے ممالک موجود ہیں۔افراتفری کے ایک اور دور کے باعث نئے شدت پسند گروہ بھی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ افغانستان کے باسیوں اور دنیا کو ایک ایسے سکیورٹی خلا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو القائدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیموں کو سازگار ماحول فراہم کر سکتا ہے۔