پیرطریقت حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ

عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی ، مدیر ماہنامہ مظاہرعلوم سہارنپور 

برکۃ العصر حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیٔ کے خلف ارشد ،خانقاہ خلیلیہ سہارنپور کے روح رواں ، ہزاروں علماء و صلحاء اور عوام کی اصلاح و تربیت کرنے والے قلندر صفت مردِ خدا شناش حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلویؒ ایک طویل علالت کے بعد آج عیدالاضحیٰ ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۲؍اگست ۲۰۱۹ء بروز پیر پونے تین بجے دوپہر میرٹھ کے آنند اسپتال میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے انا للہ و انا الیہ راجعون

ولادت: ۲؍جمادی الاولی ۱۳۶۰ھ مطابق ۲۸؍ مئی ۱۹۴۱ء یوم دوشنبہ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم : مظاہرعلوم سہارنپور میں حاصل کی

فراغت: مدرسہ کاشف العلوم مرکز نظام الدین دہلی سے ہوئی

ابتدائی تعلیم کے احوال خود حضرت پیر صاحب کی زبانی

میری والدہ محترمہ چھ ماہ سہارنپور اور چھ ماہ دہلی نظٓم الدین رہا کرتی تھیں اور والدہ کا جہاں قیام ہوتا میری تعلیم وہیں ہوتی ،بیماری اور کمزوری کی وجہ سے تکمیل حفظ میں مجھے خاصی دیر لگی ،البتہ حفظ کی تکمیل تک مستقل قیام سہارنپور ہی رہا اور ۱۶؍رجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۲۹؍فروری ۱۹۵۶ء میں قرآن پاک مکمل ہوا،پہلی محراب ۱۳۷۶ھ میں مسجد شاہ جی دہلی میں سنائی،

فارسی کی تعلیم کا آغاز ۵؍دسمبر ۱۹۵۶ء میں سہارنپور میں ہوا ،پھر اس کے بعد چھ سال نظام الدین دہلی میں بسلسلہ تعلیم رہنا ہوا البتہ مہینہ میں ایک مرتبہ مولانا محمد یوسف صاحب نوراللہ مرقدہ کے ساتھ سہارنپور آتا تھا ،بندہ کی اعلی تعلیم نظام الدین دہلی میں ہوئی اور وہیں سے فراغت ہوئی ،

والد محترم حضرت شیخ محمد زکریا نوراللہ مرقدہ کی ذات چونکہ اس وقت کے علماء و مشایخ کے لئے مرجع تھی اور علماء و اتقیاء کی کچے گھر میں خوب آمد رہا کرتی تھی اس لئے ان بزرگان دین سے بچپن ہی سے استفادہ کا خوب موقع ملا ،حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجڑاڑوی،شیخ الاسلام حضرت مدنی،مولانا محمد یوسف ،مفتی محمود گنگوہی جیسے اکابر کی خدمت میں میرا بچپن گذرا ہے اس وقت کے کئی واقعات لوحِ ذہن میں محفوظ ہیں ۔

(۱) ایک مرتبہ اپنے کتب خانہ یحیوی پر بیٹھاکھیل کھیل میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بیعت کررہا تھا،اتنے میں حضرت مدنیؒ کا تانگہ آگیا ،حضرت تانگہ سے اترے اور مجھے بیعت کرتے دیکھا تو فرمایا کہ ’’مجھے بھی بیعت کرلیں‘‘ میں نے بلا تکلف کہہ دیا کہ آئیے اور حضرت مدنی کو بیعت کرلیا اس کے بعد سے حضرت مدنیؒ مجھے ’’پیر صاحب‘‘ ہی کہہ کے پکارتے اور ایک طرح سے یہ میرا لقب پڑ گیا ۔

مہمان نوازی

حضرت شیخ محمد زکریا نوراللہ مرقدہ کی فیاضی اور ان کے دسترخوان کی وسعت بڑی مثالی تھی ، حضرت پیر صاحب کے یہاں بھی اس کا بڑا اہتمام اور التزام ہوا کرتا تھا کہ کوئی بھی مہمان چاہے وہ خاص ہو یا عام،جماعت ہو یافرد بغیر کھاناکھائے نہ جائے،اور اس کے لئے مستقل خدام کو ہدایت دیتے رہتے تھے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی باقی نہ رہے ،اگر مہمانوں کی خدمت میں کسی خادم سے کسی طرح کی ادنیٰ سی بھی کوتاہی محسوس کرتے تو اس کی سرزنش فرماتے ۔

غیر اسلامی وضع قطع سے تنفر

پوری دنیا جہاں سے لوگ آپ سے ملاقات کے لئے اور دعا و زیارت کے لئے آتے تھے ،ان میں ہر طرح کے افراد ہوتے تھے ،اگر کسی کا لباس غیر اسلامی دیکھتے ،یا وضع قطع غیر شرعی دیکھتے تو برملا اس سے اظہار ناراضگی فرماتے ،اور اگر کوئی ڈاڑھی منڈھا یا مقطوع اللحیہ ملاقات کے لئے بڑھ جاتا تو بہت مرتبہ ان کو اس قدر ڈانٹے تھے اور بعض مرتبہ اتباع سنت کی دعوت کے جذبہ سے اتنی سخت سرزنش کرتے کہ سامنے والا توبہ ہی کرلیتا ۔

آپ کی خانقاہ خلیلیہ میں وقت کے جلیل القدر علماء و مشایخ کی کثرت سے آمد رہتی اور کچا گھر علم اور علماء کی ایک بہار پیش کرتا تھا ۔

آپ ۱۴۰۰ھ سے باضابطہ مظاہرعلوم سہارنپور کے رکن شوریٰ اور چند سال تک اس کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز رہے اور حین حیات سرپرست شوریٰ رہے ،اسی طرح دارالعلوم دیوبند کی شوری کے بھی تا حیات رکن رہے ۔

اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند فرمائے ۔

تفصیلی مضمون ان شاء اللہ اگلی نششت میں

Email;abdullahkhalid59@gmail.com