شیخ مولانا محمد طلحہ کا انتقال عظیم خسارہ !  مہتمم دارالعلوم دیوبند ، صدر جمعیۃ علما ہند سمیت دیگر علماء کی جانب سے اظہار تعزیت 

دیوبند:  (ایس چودھری) مظاہر العلوم کے سابق شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ کے صاحبزادے، پیر طریقت ومشہور عالم دین مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کا گذشتہ کل طویل علالت کے بعد میرٹھ کے آنند ہسپتال میں انتقال ہوگیا ۔

نماز جنازہ گذشتہ رات 11 بجے مدرسہ مظاہر العلوم میں جمیعت علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ادا کرائی اور تدفین حاجی شاہ قبرستان میں عمل میں آئی، نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔

حضرت کے انتقال کی خبر جیسے ہی شوشل میڈیا کے توسط سے عام ہوئی علمی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ، اور مظاہر العلوم میں متعلقین کا تانتا بندھ گیا، ہندوستان سمیت عالم اسلام کے ممتاز علماء نے ان کے انتقال کو عظیم علمی خسارہ قرار دیا، جس کے بعد پوری علمی اور خانقاہی دنیا میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نے پیر جی شیخ طلحہ کے انتقال کو ایک ناقابل تلافی نقصان قراردیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے ، جن کی ہدایات ورہنمائی ہم خدام ادارہ کو حاصل ہوتی رہی، دنیا میں پیرجی طلحہ کا نمایاں نام ہے اور دنیا میں ان کے بے شمار مریدین وچاہنے والے ہیں ، مکاتب کے قیام کی تحریک میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔

دارالعلوم دیوبند میں مرحوم کے لئے ایصال ثواب کرایا گیا اور درجات بلندی کی دعائیں کی گئیں ۔ مولانا مدراسی نے ادارہ کی جانب سے پسماندگان کو تعزیت پیش کی ۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی صاحبزادہ و جانشین حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج وغم کا اظہا ر کرتے ہوئے اسے ملت اسلامیہ ہند کے لیے بڑا خسارہ بتایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے سرپرست اور خانوادہ کاندھلہ کی علمی ، اصلاحی اور روحانی وراثت کے سچے امین تھے ۔ آپ شاہ عبدالقادر رائے پوری ؒ سے تربیت و سلوک کے لیے بیعت ہوئے، اجازت و خلافت حضرت شیخ الحدیث ؒ سے حاصل کی اور پھر اسی منہج پر بیعت وارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔

اللہ تعالی نے آپ کو توازن و اعتدال ، بے نفسی ، تواضع و خدمت کا جذبہ اور اصابت رائے کا جوہر عطا فرمایا تھا ۔آپ صاحب سیرت وکردار، نرم خو، کریم النفس اور سادہ لوح شخصیت کے مالک تھے ۔پوری زندگی زہد و غنا، کثرت ذکر،مذاکرہ دینی ، احیائے سنت واشاعت دین و شریعت میں مستغرق رہے۔

آپ دارالعلوم دیوبند کے تاحیات رکن شوری اور مظاہر علوم سہارن پور کے رکن شوری وسرپرست رہے ۔خانوادہ مدنی سے آپ کو تعلق وراثت میں حاصل ہوا تھا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے آپ کے بچپن میں آپ کو پیرجی کا لقب دیا تھا جو بعد میں مقبول عام وخاص ہوا۔

آپ کوجمعیۃ علماء ہند کی سرگرمیوں اور تحریکوں سے لگائو تھا ، اس کے لیے دعاء کرتے اور حسب طلب مشورہ خیر سے نوازتے ۔مولانا طلحہ کاندھلوی کے انتقال پر دارالعلوم وقف کے شیخ الحدیث اور جامعہ امام محمد انور شاہ کے مہتمم مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے مولانا کی رحلت کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے علمی و خانقاہی دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہونچا ہے۔

مولانا مرحوم عظیم نسبت کے حامل اور بزرگانہ اداؤں کے حامل تھے۔ ان کا وجود ملتِ اسلامیہ کے لیے بلاشبہ نعمت و برکت تھا۔ ان کے فیوض و برکات سے ایک عالم مستفیض ہوا۔ ان کے انتقال سے جو سونا پن پیدا ہوا ہے وہ دیر اور دور تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اللہ عز و جل امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

عالمی روحانی تحریک کے سربراہ مولانا حسن الہاشمی نے مولانا کے انتقال کو ایک خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا طلحہ کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک علمی خسارہ ہے، انہوں نے اپنی پوری زندگی دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی، ان کی زندگی برائیوں سے پاک تھی، وہ مولانا زکریا کے سچے جانشین تھے، اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطاء کرے۔

دارالعلوم وقف کے استاذ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے کہا کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کے فرزند مولانا طلحہ کا حادثہ وفات بلا شبہ ایک دور کا خاتمہ ہے، وہ اپنے والد کی صالح زندگی کا آئینہ اور ان کی تبلیغی خدمات کا نمونہ تھے، اس دور میں ممتاز لوگ تیزی سی اٹھ رہے ہیں جو انتہائی علم انگیز ہے، امت اس وقت جس رہنمائی کی زندگی کے مختلف حصوں میں ضرورت مند ہیں، ایسے میں لوگ جارہے ہیں، اور مایوسیاں بڑھ رہی ہیں۔