مودی نے سچ ہی کہا 

شکیل رشید 

وزیراعظم نریندر مودی نے سچ ہی کہا ہے۔

’ جوکام ۷۰ سال میں نہیں ہوا وہ ۷۰ دِنوں میں ہوگیا! ‘

 وزیراعظم نے یہ دعویٰ یوم آزادی ۱۵؍اگست کے روز لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وہ ایک مغل شہنشاہ کے بنوائے ہوئے قلعے کی فصیل سے خطاب کر رہے ہیں اور پس منظر میں مغل شہنشاہ کی ہی بنوائی ہوئی جامع مسجد کے مینار اور گنبد شان سے سراٹھائے ہوئے کھڑے ہیں۔ میں نے جب بھی کسی وزیراعظم کی ۱۵؍اگست کے خطاب کی تصویر دیکھی ہے یہ احساس شدت کے ساتھ ابھرا ہے کہ ہندوستان میں چاہے جو سیاسی پارٹی حکومت کرے، کسی کے لئے بھی مسلم تہذیب و ثقافت سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے ۔ یہی حال وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ’دوسرے موسم‘ کے ۷۰ دنوں میں واقعی وہ کام کر دکھائے ہیں جو کام گذشتہ ۷۰ برسوں میں نہیں ہوئے، جیسے کہ طلاقِ ثلاثہ پر پابندی کے بِل کو قانون بنانا اور وہ بھی مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود، یا کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست سے آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کرنا، وہ بھی شدید قسم کے تشدد اور انتہا پسندی کا خطرہ مول لے کر۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے طلاق جیسی رسم کو ختم کیا اور کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ ختم کرکے سردار پٹیل کے ’ ایک ملک ایک آئین ‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ مودی نے سچ ہی کہا! پر ایک خواب یہ بھی تو ہیکہ نہ لال قلعہ رہے، اور نہ ہی جامع مسجد، پر لال قلعہ اور جامع مسجد کو ہندوستان کی تاریخ کے خاتمہ سے باہر کرنا ممکن نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے طلاقِ ثلاثہ قانون بناکر مسلمانوں کو یا آرٹیکل ۳۷۰ ہٹاکر مسلمانوں کو ملک کی تاریخ کے خانے سے باہر کرنا، ممکن نہیں ہے۔

لال قلعہ اور جامع مسجد یہ صرف دو تاریخی عمارتیں ہی نہیں ہیں یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی اور اس زمین سے ان کی وابستگی کے زندہ جاوید آثار ہیں، یہ دونوں ہی عمارتیں یہ بتاتی ہیں کہ وہ جو اس ملک سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے درپہ ہیں دراصل جاگتی آنکھوں کے خواب دیکھ رہے ہیں اور یہ سبق بھی دیتی ہیں کہ ہندوستان کی حقیقی تہذیب اور ثقافت یہی ہے کہ جب مودی جیسا کوئی انتہائی کٹّر ہندوتواودی حکمراں قوم سے خطاب کرے تو پس منظر میں جامع مسجد ہو اور وہ خود لال قلعہ کی فصیل پر کھڑا ہوا ہو۔ ۱۵؍اگست کی تقریب کا یہ سارا منظر، پس منظر ایک ایسے ہندوستان کی تصویر پیش کرتا ہے جو آہستہ آہستہ دھندلی ہوتی جارہی ہے۔ پر یہ ایکدم مٹنے والی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے قلعے کی فصیل سے آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سردار پٹیل کے خواب ’ایک ملک ایک آئین‘ کے شرمندۂ تعبیر ہونے کا دعویٰ کیا ہے، پر کیا واقعی یہ ملک ایک نہیں ہے؟ کیا واقعی اس ملک کا آئین ایک نہیں ہے؟ اور کیا واقعی کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد یہ سارا ملک ایک ہوگیا ہے اور ایک آئین کے تحت آگیا ہے؟ وہ جو کشمیر کو آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵ (الف) کے تحت ملنے والے خصوصی درجہ اور اس تعلق سے راجہ ہری سنگھ اور حکومت ہند کے درمیان آئینی معاہدے کی تاریخ سے واقف ہیں یہ خوب جانتے ہیں کہ مذکورہ دونوں ہی آرٹیکل ’ آئین ‘ کے تحت ہی طے کئے گئے تھے اور کشمیر کو خصوصی رعایت جو حاصل تھی وہ وہاں کی شہریت اور مقامی آبادی اور مقامی ملازمتوں اور زمینوں کی خرید و فروخت سے متعلق تھی ورنہ سارے کشمیر میں ہندوستانی آئین کے تحت ہی الیکشن ہوتے تھے، ریاستی حکومتیں بنتی تھیں، وزیر اعظم کا عہدہ تو بہت پہلے ختم ہوچکا تھا۔ وہاں بھی ملک کی دوسری ریاستوں ہی کی طرح وزیراعلیٰ منتخب ہوتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت ہندوستانی پارلیمنٹ کوسوائے دفاعی، خارجی اور مواصلاتی امور کے دیگر امور میں قوانین بنانے کا اختیار نہیں تھا پر یہ بھی سچ ہیکہ کشمیر کی خود مختاری کے ۹۷ شعبوں میں سے ۹۴ میں مرکزی حکومت کے قوانین ہی کا نفاذ ہوتا تھا اور یہ تمام قوانین کانگریسی حکومتوں کے دور میں ریاست جموں وکشمیر کی منظوری سے وہاں نافذ ہوئے تھے۔ گویا یہ کہ کشمیر پر پوری طرح سے مرکز کی حکومت تھی، سوائے اس روک کے کہ کشمیر کی جو شناخت ہے اسے ختم نہ کیا جائے اور اگر دیکھا جائے تو ملک کی ساری ہی ریاستیں اپنی اپنی شناخت پر زور دیتی ہیں، شناخت کی حفاظت میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بس ہوا یہ ہیکہ مودی سرکار نے اس سارے معاملے کو ’ مذہب ‘ اور ایک ایسی ’قوم پرستی‘ سے جوڑ دیا ہے جس کا دوسرا نام ’ہندوتوا‘ ہے۔ اگر مودی کا یہ دعویٰ کہ کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ دراصل سردار پٹیل کے ‘ایک ملک ایک آئین‘ کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا ہے، صحیح ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ جو ناگالینڈ میں آرٹیکل ۳۷۱ (الف) ہے، وہ کیا ہے؟ آسام میں جو آرٹیکل ۳۷۱ (ب) ہے، وہ کیا ہے؟ منی پور میں جو آرٹیکل ۳۷۱ (ت) ہے، وہ کیا ہے؟ سکم میں جو آرٹیکل ۳۷۱ (ج) ہے ، وہ کیا ہے؟ میزورم میں جو آرٹیکل ۳۷۱ (ح) ہے، وہ اور اروناچل پردیش میں جو آرٹیکل ۳۷۱ (خ) ہے ، وہ کیا ہیں؟ آندھرا پردیش اور گوا کو جو خصوصی اختیارات ملے ہیں وہ کیا ہیں؟ کیا یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ’ایک ملک اور ایک آئین‘ کے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی نشانیاں ہیں یا ناکامی کی؟ اگر کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ اسے ملک کے قومی دھارے میں شامل کرنا اور اسے ملک کے آئین کے تحت لانا ہے تو اِن دوسری ریاستوں کی خصوصی دفعات کا کیا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قومی دھارے سے بھی علحیدہ ہیں اور ملک کا آئین بھی ان پر لاگو نہیں ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے لہٰذا وزیراعظم مودی ہی کے دعویٰ کی روشنی میںیہ بات بلاخوف وخطر کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی ’ملک ایک اور ملک کا آئین ایک‘ نہیں ہے۔ ناگالینڈ کا اپنا پرچم ہے۔ ان کا اپنا ترانہ ہے!! سوال ہنوز برقرار ہے کہ یہ ’ ایک ملک ایک آئین ‘ کیا ہے؟ کیا یہ سارے ملک کو ’ ہندوراشٹر ‘ میں تبدیل کرنے اور سارے ملک میں منو کے قانون کا نفاذ کرنے کا اشارہ تو نہیں ہے؟

۷۰ دنوں میں واقعی ایسے بہت سے کام ہوئے ہیں جو گذشتہ ۷۰ برسوں میں نہیں ہوئے لیکن لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم کی تقریر کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پس منظر میں عالیشان جامع مسجد ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اس ملک کا سنہرا مستقبل ایسے ہی خوبصورت سنگم سے ممکن ہے۔ مسلمان اس ملک میں رہتے آئے ہیں، رہیں گے، انہیں کھدیڑا جانا ممکن نہیں ہے لہٰذا اس ملک کی خوشحالی کے لئے ایک ہی راہ بچتی ہے، سب مل کر رہیں، ایک ہندوستانی کی طرح، اپنے اپنے مذہب اور اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے۔

 اس ملک کی کئی ریاستیں ہیں جہاں دوسری ریاستوں سے آئے افراد کو زمینوں کی خریداری کی اجازت نہیں ہے۔ خصوصی دفعات والی تمام ریاستوں بشمول ہماچل پردیش میں یہی قانون ہے۔ یہ ملک سے علٰحیدہ ہونا نہیں ہے بلکہ یہ اپنی تہدیب اور ثقافت اور شناخت کو بچانے کی ایک کوشش ہے اور ملک کا آئین اسے قبول کرتا ہے۔ کشمیریوں کو اپنی شناخت کی فکر بجا ہے، اس جنت نظر زمین پر ہر ایک کی نظر ہے۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر تو وہاں کی ’ لڑکیوں ‘ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مکیش امبانی نے تو کہہ دیا ہے کہ ریلائنس وہاں جائے گی، اڈوانی بھی جائیں گے اور بابا رام دیو بھی۔ گویا یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کشمیر کی شناخت کا خاتمہ ہے۔ اور یہ خاتمہ کشمیریوں کو منظور نہیں ہے۔ انہیں آئین حق دیتا ہے کہ اپنی شناخت کی فکر کریں۔ یہ ملک سے غداری نہیں ہے۔۔۔!!

وزیراعظم نے کشمیر کے بعد طلاق ثلاثہ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کو ۷۰ دنوں میں کئے گئے ایک ایسے کام سے تعبیر کیا ہے جو گذشتہ ۷۰ برسوں میں نہیں ہوسکا تھا اور انہوں نے سچ کہا ہے۔ گذشتہ ۷۰ برسوں کے دوران جو حکومتیں رہی ہیں وہ مسلمانوں کو کمزور تو کرتی رہی ہیں پر مسلمانوں کے مذہبی مسائل بالخصوص عائلی معاملات میں انہوں نے بہت زیادہ دخل نہیں دیا تھا۔ یہ حکومت اپنے پہلے ’سیزن‘ سے لے کر آج تک شریعت میں دخل اندازی کرتی رہی ہے، اور ’ طلاقِ ثلاثہ قانون ‘ اس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم قیادت بشمول علمائے کرام ایک ہی نشست میں تین طلاق کی غیر قرانی بدعت کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ ان کا اس تعلق سے غیر سنجیدہ رویہّ رہا ہے۔ مسلکی عناد اور تفرقے نے مسلم دانشوروں کو اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ وہ ’اصلاحی تحریکات‘ سے کوسوں دور بھاگتے رہے ہیں۔ جب تین طلاقوں کی کثرت نے مسلم خواتین کو ’ ارتداد ‘ کی طرف مائل کیا تھا تب مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اس سلسلے میں ملک اور بیرون ملک کے علماء کرام سے رابطے کرکے شریعت کی روشنی میں کوئی راہ نکالنے کی سعی کی تھی اور غیر قرانی طلاق یا طلاقِ بدعت سے بچنے کی راہ سجھائی تھی پر افسوس کہ بعد کے علماء نے اس مسئلے کو جیسے کہ فراموش ہی کر دیا اور ان کے ہاتھوں میں ایک موقع دے دیا جو ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے شریعت پرحملہ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، اور شریعت پر حملہ ہوا۔ قانون بنا، اس کے تحت مقدمے بھی درج ہو رہے ہیں اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں اور گھر کے گھر تباہ بھی ہورہے ہیں۔ اصل مقصد مسلم گھروں کو تباہ کرنا ہی ہے ورنہ بل کی خامیوں کو دور کرکے ایک ایسا جامع قانون بنایا جاسکتا تھا جو ایک ہی نشست کی تین طلاق پر قدغن لگانے میں مؤثر کردار ادا کرسکتا تھا اور حقیقتاً ایسے کسی قانون کو نریندر مودی سرکار کا کارنامہ قرار دیا جاسکتا تھا۔ پر معاملہ ’ بدنیتی ‘ کا ہے مسلم خواتین سے بدنیتی، مسلم مردوں سے بدنیتی، مسلم سماج سے بدنیتی! اور اس بدنیتی کو لال قلعے کی فصیل سے ایک کارنامے کی طرح پیش کرنے کی جرات !! وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بڑھتی آبادی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ آبادی میں تحفیف کے لئے’عوامی بیداری‘ کی بات کی ہے۔ ‘جل جیون مشن‘ کے تحت ’تحفظ آب‘ کی بات کی ہے۔ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کا خواب دکھایا ہے۔ یہ وہ خواب ہیں جو لوگ 2014 سے دیکھتے چلے آرہے ہیں اور شاید 2024 تک دیکھتے رہیں۔ چلئے، مان لیا یہ سب اچھے کام ہیں۔ پر آپ نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ ۷۰ دنوں میں ان کاموں میں بھی شدت پیدا ہوئی ہے جن کا آغاز 2014 سے ہوا تھا، جیسے کہ ’ماب لنچنگ ‘! یہ بھی بتادیں کہ ۷۰ دنوں کے دوران سارے یوپی میں سڑکوں پر نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگ گئی ہے۔ ( کوئی مارے خوشی کے سڑکوں پر نماز نہیں پڑھتا، مجبوراً پڑھتا ہے کہ مسجدوں کی توسیع یا نئی مسجدوں کے قیام کی اجازت نہیں ملتی۔) یہ بھی بتا دیں کہ قربانی جیسے مذہبی عمل کو اب مشکل ترین بنادیا گیا ہے، یہ بھی بتادیں کہ ۷۰ دنوں میں ایک ایسا قانون بنادیا گیا ہے جو کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکتا ہے، یہ بھی بتادیں کہ ملک بھر میں ایسے ’ حراستی مراکز ‘ بنانے کی ہدایت ان ۷۰ دنوں میں دے دی گئی ہے جہاں انہیں رکھا جائے گا جو مرکزی حکومت کی نظر میں ’ ہندوستانی ‘ نہیں ہوں گے، یہ بھی بتادیں کہ ۷۰ دنوں میں یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ سارے ملک کو آسام میں تبدیل کردیا جائے گا اور این آرسی کو سارے ملک میں لاگو کردیا جائے گا اور یہ بھی بتادیا جائے کہ ۷۰ دنوں میں مدرسوں پر چھاپوں کی شروعات بھی ہوئی ہے، علماء کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اور دارالعلوم دیوبند جیسے عالمی دینی مرکز پر بھی غلط نگاہیں ڈالی گئی ہیں، اس لئے کہ سارے ملک کو یہ پیغام دے دیا جائے کہ ’ ہم سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ‘۔ تو ۷۰ دنوں میں واقعی ایسے بہت سے کام ہوئے ہیں جو گذشتہ ۷۰ برسوں میں نہیں ہوئے لیکن لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم کی تقریر کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پس منظر میں عالیشان جامع مسجد ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اس ملک کا سنہرا مستقبل ایسے ہی خوبصورت سنگم سے ممکن ہے۔ مسلمان اس ملک میں رہتے آئے ہیں، رہیں گے، انہیں کھدیڑا جانا ممکن نہیں ہے لہٰذا اس ملک کی خوشحالی کے لئے ایک ہی راہ بچتی ہے، سب مل کر رہیں، ایک ہندوستانی کی طرح، اپنے اپنے مذہب اور اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے۔

(مضمون نگار اردو نیوز، ممبئی کے ایڈیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں