آبیناز جان علی
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنسِ الفت کا طلب گار ہوں میں
مجاز ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو لکھنو کے قریب قصبہ ردولی ، ضلع بارہ بنکی میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگوں میں ایک صوفی شاعر عثمان ہارونی گزرے ہیں جن کی شاعری کی گرمی مجاز کی شاعری کی گرمی میں محسوس ہوئی۔ ان کے والد چودھری سراج الحق اوار والدہ حمیدہ سالم نے انہیں بڑے لاڈ پیار سے پالا۔ مجاز کی طبیعت میں بچپن سے ہی ایک قسم کی معصومیت اور سادگی تھی جس کی وجہ سے وہ سب کو عزیز تھے۔ شوخ اور شریر ہونے کے ساتھ ساتھ مجاز بہت ذہین تھے اور پڑھائی میں ہوشیار تھے۔ حساب میں بہت تیز تھے اور جماعت میں اچھے طالب علموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ردولی کے ایک مکتب میں ہوئی۔ پھر وہ لکھنﺅ آگئے جہاں ان کے والد محکمۂ رجسٹریشن میں ہیڈ کلرک تھے۔ مجاز نے لکھنؤ کے امین آباد ہائی اسکول سے ہائی اسکول میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ چونکہ والد کا تبادلہ آگرہ میں ہو گیا، مجاز بھی آگرہ آئے اور ۱۹۲۹ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں آگرہ کے سینٹ جانس کالج میں انٹر میڈیٹ میں داخل ہوگئے۔ سینٹ جانس کالج آگرہ میں سائنس کے موضوعات لئے کیونکہ انہیں انجینئر بننے کا شوق تھا۔ جس محلے میں مکان ملا تھا وہاں مشہور غزل گو شاعر فانی بدایونی پڑوس میں رہتے تھے۔ جذبی ان کے ہم جماعت تھے۔ آل احمد سرور بھی کالج میں زیرِ تعلیم تھے۔ اکبر آبادی سے بھی گہرے مراسم تھے۔ حامد حسین قادری مرحوم نے آگرہ میں انجمن ترقی اردو کی ایک شاخ قائم کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں مجاز کا تخلص شہید تھا۔ کالج کے مشاعرے میں انہیں گولڈ میڈل بھی ملا۔ جس زمانے میں سائنس کے طالب علم تھے میز پر مینڈک دیکھ کر کلاس سے بھاگ گئے اور سائنس کی تعلیم ترک کر دی۔ شعر و شاعری کی محفلوں میں شرکت کی وجہ سے وہ تعلیم پر پورا وقت صرف نہ کرسکے اور فیل ہوگئے۔ والدین نے انہیں علی گڑھ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پھر مجاز نے علی گڑھ سے انٹرمیڈیٹ کیا اور ۱۹۳۵ء میں انہوں نے بی۔ اے کیا اور ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر بنے۔ علی گڑھ میں مجاز تخلص اختیار کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مجاز کی شاعری کا رنگ کھلنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نثری اور شعری ادب میں نئی نسل آرہی تھی۔ علی گڑھ گلرز کالج میں بلخصوص طالب علمی کے زمانے میں مجاز کی نظمیں تکیوں میں چھپائی جاتی تھیں۔ قرعہ اندازی سے معلوم کیا جاتا کہ مجاز کی شادی کس سے ہوگی۔ کنواری لڑکیوں نے اپنے بچوں کے نام مجاز رکھنے کا سوچا۔ ان کی نظم ’ نذرِ علی گڑھ ‘ یونیورسٹی کا ترانہ ہے جسے گیارہ لوگ کورس میں گاتے ہیں۔
سرشارِ نگاہِ نرگس ہوں، پابستئہ گیسوئے سنبل ہوں
یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
اسی دوران آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور دہلی چلے آئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں سرکاری پرچے کے ایڈیٹر رہے جس کا نام انہوں نے ’ آواز ‘ رکھا۔ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۳۷ء تک دہلی ریڈیو کی اردو نشریات سے جڑے رہے۔ دہلی کے قیام کے وقت انہیں ایک ثروتمند شوہر کی بیوی سے عشق ہوا۔ اگر چہ انہوں نے عشق کا کھل کر اظہار نہیں کیا، پھر بھی ان کی شاعری کے توسل سے یہ بات لوگوں کے سامنے آتی گئی۔ لہٰذا انہیں آل انڈیا ریڈیو کی نوکری ترک کرنی پڑی۔ سن ۱۹۳۹ء میں سبطِ حسن اور سردار جعفری کے ساتھ لکھنؤ میں رسالہ ’ نیا ادب ‘ جاری کیا۔ لکھنؤ آکر سگرام اولڈ ہاؤس نیو حیدرآباد میں رہنے لگے۔ تین سال بعد لکھنؤ سے دہلی آگئے اور یہاں ہارڈنگ لائبریری، موجودہ ہردیال لائبریری میں ۴۳۹۱ئ تک ملازم رہے۔ اس کے بعد مجاز کوذہنی پریشانیوں کا دورہ پڑا اور انہیں رانچی کے پاگل خانے میں داخل کرایا گیا۔ ڈھاکہ کے شاعر قاضی نذر السلام ان کے ساتھ اسی وارڈ میں تھے۔ اس دوران مجاز نے نظمیں اور غزلیں لکھیں جن میں نظم ’نورا‘ اس عیسائی نرس پر تھی جس نے ان کی تیمارداری کی تھی۔
وہ اک آسمانی فرشتہ تھی گویا
کہ انداز تھا اس میں جبریل کا سا
وہ اک مرمریں حور خلدِ بریں کی
وہ تعبیر آذر کے خوابِ حسین کی
مجاز ٹھیک ہو کر پاگل خانے سے واپس آئے۔ ۵۴۹۱ئ میں محکمۂ اطلاعات حکومت ممبئی میں معاون افسر اطلاعات مقرر ہوئے۔ ممبئی کے قیام کے دوران فلم ’ ٹھوکر ‘ کے لئے گیت لکھا۔ ان کی نظم ’آوارہ‘ کو طلعت محمود نے گایا۔
راستے میں رک کے دم لے لوں، مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہمنوا مل جائے، یہ قسمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
۱۹۴۶ء میں مجاز ممبئی میں بہت بیمار پڑگئے تھے۔ پورے جسم پر چھالے پڑگئے جن سے پیپ اور خون بہتے۔ ان کے دوست منیش سکسینا نے ان کی تیمارداری کی اور وہ صحتمند ہو کر لکھنؤ چلے گئے۔ مجاز کا مجموعۂ کلام ’ آہنگ ‘ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں ’ شبِ تاب ‘ کے عنوان سے دوسرا ایڈیسن شائع ہوا اور ۱۹۴۹ء میں ’ ساز نو ‘ کے نام سے طبع ہوا۔ ۱۹۵۶ء تک مجاز نے جو کچھ کہا وہ ’ آہنگ‘ ہی کے نام سے دوبارہ شائع ہوا۔ کلیاتِ مجاز میں کل ۲۶ نظمیں اور ۳۳ غزلیں اور ۳ گیت ہیں۔
مجاز کی شاعری کا آغاز ایسے زمانے سے ہوا جب ہندوستان نئی منزلوں کے خوابوں کو کلیجے سے لگائے ہوئے نئے راستوں کی تلاش میں سرگرداں تھا اور نئے حقائق اپنی تمام پیچیدگیوں اور امکانات کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے تھے۔ ابتدائی اور وسط بیسوین صدی کے مسلمانوں کا ایک گنگا جمنی طبقہ لکھنؤ کی باوقار روایتیں حقیقت اور تصور کے درمیان جھول رہا تھا۔ ملک کی عام زندگی تیزی کے ساتھ ایک خاموش انقلاب کے ساتھ ہم کنار ہورہی تھی۔ کچھ پرانے قدروں کا دامن ہمیشہ کے لئے ہاتھوں سے چھوٹ رہا تھا اور کچھ بالکل نئی قدریں جنم لے رہی تھیں۔ یہ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ادبی لحاظ سے زبردست بیداری کا زمانہ تھا جس کے زیرِ اثر نئی قیادت اور نئے اصول سامنے آرہے تھے۔ ایک طرف مجاز کے سامنے لکھنؤ کی تہذیب اور دوسری طرف ترقی پسند تحریک کا بلند احتجاج بھی تھا۔ پورے ملک پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ اس جابرانہ حکومت کے خلاف پورے ملک میں تحریکیں بھی چل رہی تھیں۔ گاندھی جی کی عدم تعاون تحریک سب سے مؤثر ہتھیار تھا جو عدم تشدد کے راستے آزادی ملک کی جدوجہد میں سرگرم تھا۔ منافرت اور فرقہ وارانہ ذہنیت فروغ پارہی تھی۔ ملک میں غربت ، افلاس، تنگ نظری، جہالت، بیماری اور جرائم بڑھتے جارہے تھے ۔ کانگریس کے رہنما پنڈت نہرو اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے ملک کی خدمت کر رہے تھے۔
اردو ادب بھی تیزی کے ساتھ بدل رہی تھی۔ ادب برائے زندگی کا رواج عام ہوا۔ نظم کو نئی وسعتیں اور غزل کو نیا لب و لہجہ مل رہا تھا۔ دوسری طرف اساتذہ اور طلبا کا ایسا حلقہ سامنے آیا جو سیاست اور ادب میں نئے قدروں کا علمبردار تھا۔ اس دوران آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ شوشلزم کی تحریک بھی چل رہی تھی۔
مجاز کی شاعری میں ایک ایسی کسک ہے جسے پانا مشکل ہے۔ رومانس کو ان کے کلام میں مرکزیت حاصل ہے۔ رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی اتنی شاید ہی کسی کے نصیب میں آئی ہو۔ اپنے فن کے ذریعے انہوں نے اپنے افکار کو پیش کیا۔ ان کی شاعری ان کی ذاتی زندگی اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ رومانی نظم میں پرکاری ہے جو سامعین کا بڑا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس اک حجاب پہ سو حجابیاں صدقے
جہاں سے چاہتا ہوں تم کو دیکھتا ہوں میں
بتانے والے وہیں پر بتاتے ہیں منزل
ہزار بار جہاں سے گزر چکا ہوں میں
مجاز شاعری کرنے کے لئے خیالات تلاش نہیں کرتے بلکہ خیالات کی عکاسی کے لئے شاعری کو ذریعہ بناتے ہیں۔ ترنم ریز الفاظ کے اندر رعنائیت ہے۔ مجاز کی مقبولیت کی تین بڑی وجہیں ہیں۔ پہلی ہے دورِ نو کے خیالات کی عکاسی، دوسری ان کی عام فہم زبان اور تیسری جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے ان کی شاعری میں بلا کی دیانت داری ہے۔ مجاز اپنے خیالات کو پوری ایمانداری کے ساتھ نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچاتے گئے۔ کلام کی تاثیر، قوت، کشش قاری اور سامع کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے۔مجاز ایک سراپا نظم شاعر تھے جن کے مصرعوں میں کبھی جھول نہیں پڑتا تھا۔
مجاز نے دوسرے شعراءکے چراغوں کے جلتے ہوئے روشنی کو پھیکا کر دیا تھا۔ فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، محی الدین مخدوم اور جذبی مجار کے ساتھ کے شاعر اور دوست بھی تھے۔ فیض کے بعد ترقی پسند شعراء میں سب سے بڑا نام مجاز کا آتا ہے۔ مجاز کی نظم ’ آوارہ ‘ کو نظم ’تاج محل‘ اور نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ سے زیادہ مقبولیت ملی۔ ایسے دور میں جب شاعری اپنے معراج پر پہنچی ہوئی تھی، کسی بھی شاعر کے لئے اپنی خاص جگہ بنانا مشکل تھا۔ کسی ترقی یافتہ زبان کی شاعری کو جس کے پاس ۰۰۵ برس کی روایت ہو کوئی نیا تصور دینا معمولی بات نہیں ہے۔ شاعر کو زندہ جاوید کردینے کے لئے کافی ہے۔مجاز ایک کم گو شاعر ہیں جسے اردو زبان فراموش نہیں کرسکتی۔
اثر لکھنوی نے ایک جگہ فرمایا: ’ اردو شاعری کے اندر ایک کیٹس پیدا ہوا تھا جس کو ترقی پسند بھیڑئے اٹھا کر لے گئے۔ ‘
ڈاکٹر شارب ردولوی اپنی کتاب ’ ہندوستانی ادب کے معمار اسرار الحق مجاز لکھنوی لکھتے ہیں ’ مجار تقاضۂ دل اور تقاضۂ زندگی کے شاعر ہیں۔ ‘ ایک طرف اس سلیقہ پسند شاعر کے کلام میں ایک طرف زندگی کی سرشاری ملتی ہے تو دوسری طرف انقلاب کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ ‘ مجاز کے کلام میں رومان اور انقلاب کے ساتھ آزادی کا جذبہ بھی سامنے آتا ہے۔ مجاز نے انقلاب کو گایا ہے جیسے اس نے محبوب کے گیت گائے ہیں۔
آہنگ کے دیباچہ میں فیض لکھتے ہیں:
’ مجاز انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں مطرب ہے۔ ان کے نغمے میں برسات کے دن کی سی سکوں بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تاثیر آفرینی۔‘
مجاز نے انقلاب کو گایا ہے۔ مجاز نے مزدورون کے مظالم بھی بیان کئے ہیں اور لکھنؤ، دہلی اور علی گڑھ کے گیت گائے ہیں۔
۵۱ اگست ۱۹۴۷ء کے دن مجاز ممبئی کی سڑکوں پر جوش میں اپنی نظم ’ بول اری دھرتی بول ‘ گاتے ہوئے گھومتے رہے۔ گاندھی کی کی موت پر انہوں نے اپنی نظم ’ سانحہ ‘ میں افسوس ظاہر کیا:
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں انساں چلا گیا
مجاز کا نظریہ توانا اور معتدل تھا اور وہ انسانی رشتوں کی عظمت کے شاہد ہیں اور انسانی رشتوں کا احترام کرتے تھے۔ انقلابی صفحوں میں آگے آگے رہنے کی خواہش کے باوجود دل کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ۱۹۴۶ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں ایک آدمی کو ممبئی میں قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیا تو تین دن تک کھانا نہیں کھا سکے۔ وہ رنگ و نسل کی تفریق پسند نہیں کرتے تھے۔ مجاز نے صرف انسان سے پیار کیا۔ ان کے سماجی موضوعات پر حساس ہیں۔ یہ بات نظم ’خانہ بدوش ‘ سے ظاہر ہے۔
اٹھے ہیں جس کی گود سے آذر وہ قوم ہے
توڑے ہیں جس نے چرخ سے اختر وہ قوم ہے
پلٹے ہیں جس نے دہر کے دفتر وہ قوم ہے
پیدا کئے ہیں جس نے پیمبر وہ قوم ہے
اب کیوں شریکِ حلقہ نوعِ بشر نہیں
انسان ہی تو ہیں یہ کوئی جانور نہیں
مجاز کی نگاہوں میں عورت کا ایک انفرادی تصور تھا۔ اردو ادب کے پورے شعری منظرنامے میں مجاز اکلوتی شخصیت ہیں جس نے محبوبہ کو صرف دلآرام کے پیکر میں دیکھنے کے بجائے زندگی کے رازدار میں مردوں کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے دیکھنا چاہا۔ اس نے کبھی بھی عورت کو ایک رونڈی ہوئی، کچلی ہوئی اور مردوں کے بنائے ہوئے اس فرسودہ سماج کا حصّہ نہیں مانا۔ ان کے ذہن میں عورت ایک ماروائی، ایک رمزمہ حور و حرمہ نہیں بلکہ مجاز کو جنت کی ہور میں دلچسپی نہیں۔ نظم ’نورا‘ میں عرض کرتے ہیں
مری حکمرانی ہے اہلِ زمیں پر
یہ تحریر تھا صاف اس کی جبیں پر
مجاز کی شاعری میں جو لطف رومانیت سے پیدا ہواہے اس نے ہمیشہ خواتین کے حلقے میں مجاز کو بے حد مقبول اور ہر دلعزیز رکھا۔ وہ خود کو شاعرِ محفلِ وفا اور مطرب بزمِ دلبراں کہتا تھا۔ مجاز اردو کے اہم شاعر ہیں جو صنفِ نازک کو رومان و حقیقت سے بھرپور ایک تصور پیش کرتے ہیں۔ نظم ’ نوجوان خاتون سے ‘ میں وہ عورت کے آنچل کو پرچھم بنانے کی بات کرتے ہیں۔
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارہ ہے
اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
مجاز کی شاعری کی خاتون کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس میں ایک خود اعتمادی، شرم وحیا اور تکبر ہے۔ مجاز چاہتے تھے کہ خواتین اور بہادر ہوجائیں۔ ترقی پسند شاعری میں یہ رویہ عام تھا کہ محبوب کو چھوڑ کر انقلاب کیا جائے۔ لیکن مجاززندگی اور آزادی کی جدوجہد دونوں میں عورت کے حقوق کا حامی تھا۔ یہ تصور اب اردو شاعری میں عام ہے۔ مجاز کے ذریعے یہ پہلی بار آیا۔مجاز کی شاعری صنعت و حرفت میں تعبیر اور یورپ اور امریکہ میں نسائی بیداری کی پیش رفت ہے۔ مشرقی خاتون شرم و حیا کی چہار دیواری میں قید تھی۔ مجاز نے اس کو چیلنج کیا اور ترغیب دیتے ہیں کہ ان چیزوں میں اپنی بھلائی تلاش نہ کرو بلکہ تمہیں اور بھی اچھا کام کرنا ہے اور فعال کردار ادا کرنا ہے۔ ننھی پجارن، نوجوان خاتون سے، یہ عادت، مادام، بتانِ حرم اورنذر خالدہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
زندگی کے ہر پہلو پر مجاز کی نگاہ جاتی تھی۔ ہر چیز کو وہ اپنے افکار سے نیا مفہوم نکالتے ہیں۔ مجاز تر و تازہ الفاظ کا بادشاہ ہے۔ نظم ’ آوارہ ‘ کو انہوں نے اس لفظ کو نیا معنی عطا کیا۔ معمولی عنوان پر غیر معمولی مطلب اخذ کرتے ہیں۔ مجاز نے آسان لفظوں میں شاعری کی۔ ان کی نظم ’ رات اور ریل ‘ میں خیال کی نزاکت ہے۔ وہ ٹرین کو شرماتی دلہن کہتے ہیں اور ٹرین کی سیٹی کو شادی کی برات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے مصوری کی ہے۔ مجاز کی شاعری آج بھی معنی خیز ہے۔ ان کا نقلاب تعمیری ہے اور ان کی غنائیت وسیع ہے۔ مجاز کو شباب اور انقلاب کا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے اشعار نوجوان نسلوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔ مجازکی شاعری معتبر اور مستند ہے۔
مجاز کے ابتدائی زمانے کی شاعری میں خطابت کا رنگ نظر آتا ہے جہاں پر مصلحت کوشی نہیں ہے۔ آس پاس کے ماحول میں انہیں نے بے روزگاری اور سماجی ابتری پایا اور دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ انگریزوں کا تشدد اور بیرونی حکومت عوام پر بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر حساس شاعر کے یہاں ایک بے اطمینانی ہے۔ آزادی کے بعد جس طرح ہجرت کا معاملہ ہوا اورتقسیمِ ہند کے زیرِ اثر ملک بھر میں جو حالات ہوئے اس سے ان کو بڑی تکلیف تھی۔ نظریاتی طور پر اور عملی طور پروہ اس مقصد میں ہمیشہ مصروف رہے اور انسانیت کے مذہب کے فروغ کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔
ایک طرف ان کی شاعری میں صرف رومان پسندی کو دخل ہے جس میں وہ اپنے تصور اور تخیل کی چیزوں کو بیان کرتے ہیں اور آس پاس کی دنیا سے تعلق نہیں ہے۔ دوسرا پہلو رومان اور حقیقت کی ہم آہنگی ہے۔ پوری نظم سے جب نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو محسوس ہوگا کہ دونوں چیزیں آپس میں اس طرح سے مدغم ہوگئی ہیں کہ ان کو الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔ مجاز کے یہاں صرف رومان کی بات نہیں بلکہ سماج کی بھی بات ہوتی ہے۔ نظم ’ پردہ اور عصمت ‘ میں فرماتے ہیں
سرِ رہگزر چھپ چھپا کر گزرنا
خود اپنے ہی جذبات کا خون کرنا
حجابوں میں جینا، حجابوں میں مرنا
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے
تیسرا پہلو رومان اور حقیقت کے امتزاج نے انقلابی لے پیدا کی ہے۔ ان کی نظم میں فرسودہ سماجی نظام، انگریز، اور ان برائیوں کے خلاف جو سماج کو کھوکلا کررہے ہیں انقلاب تھا۔ حسن و عشق کی مختلف جہات کو جن باریکیوں کو اپنے کلام میں قید کیا ہے، وہ حسن کو اہمیت دیتے ہیں۔
انہوں نے فکر کو حقیقت سے روبرو کیا۔ رومان و حقیقت کو وہ اپنے اندر بھی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔
مجاز کا نظریہ حیات آخری وقت میں بہت توانا ہوگیا۔ ان کے احساس کی شدت بہت متاثر کرتی ہے۔ کچھ نظموں میں حقیقت کی جادوگری
ہے۔ اپنی محسوسات کو پیش کرنے میں ان کا اپنا ایک طریقہ ہے۔ ان کے اندر کا کرب سامنے دکھنے لگتا ہے۔ ان کے کلام کی تاثیر آفرینی سے مجاز کی بے چینی اور حالات سے اضطراب نظر آتا ہے۔ اگرچہ مجاز نے بڑا سرمایہ نہیں چھوڑا پھر بھی ان کا مقام بلند ہے۔ ان کی سادہ نظموں میں ایک پرکاری ہے۔ وہ بدنظمی اور انتشار سے پریشان تھے اور اشعار سے ان کی بے چینی جھلکتی ہے۔ جس درد کو وہ بیان کرتے ہیں انہوں نے وہ کرب محسوس کیا ہے۔ نظم ’مجھے جانا ہے اک دن!‘ میں وہ فرماتے ہیں:
ابھی تہذیب عدل و حق کی کشتی کھے نہیں سکتی!
ابھی یہ زندگی دادِ صداقت دے نہیں سکتی!
ابھی انسانیت دولت سے ٹکّر لے نہیں سکتی!
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزمِ ناز سے آخر
ابھی تو کائنات اوہام کا ایک کارخانہ ہے
ابھی دھوکا حقیقت ہے، حقیقت اک فسانہ ہے
ابھی تو زندگی کو زندگی کر کے دکھانا ہے
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزمِ ناز سے آخر
غزلوں کے مقابلے مجاز نے زیادہ نظمیں لکھیں جن پر ان کی شہرت کا دار و مدار ہے۔ وہ بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں۔ ان کے موضوعات اس محور کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں یعنی جذبۂ عشق اور اس کی سرشاری اور وارفتگی۔ مجاز کے یہاں موضوعات میں تنوع بھی پیدا ہوا، خصوصاً جب ان کی فکر اشتراکی فلسفہ اور نظریات سے واقف ہوئی۔ مجاز نے بتدریج ان تمام موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی جن میں انسانی مقدمات کی چیرہ دستی، نکت و خواری، غلامی، جہل اور تاریکی کے خلاف ان کا شدید ذہنی ردِ عمل شامل ہے۔ ان کا احتجاجی رویہ، تشویش اور ان کا شدید تردد ان کے نغموں میں اس طرح ڈھل گیا کہ وہ ایک معتبر ترقی پسند شاعر قرار پائے۔
مجاز کی شاعری عہدِ شباب کے نوخیز جذبات، نازک احساسات اور اچھوتے شعری احساسات سے عبارت ہے۔ یہاں کلاسیکی روایات و اقدار سے وفاداری تہہ نشین ہے۔ اس شاعری میں جذبات و احساسات کی لطافت تو ہے سطحیت اور عامیانہ پن نہیں ہے۔ حزن و ملال، مایوسی اور شکست خوردی نہیں ہے۔ آہنگ کی غزلوں میں ایک خاص سرشاری، بانگپن اور وارفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ کلاسیکی روایات کے پاس و لحاظ کے باوجود مجاز کی غزلوں میں ان کی اپنی آواز سنائی دیتی ہے۔ مجاز کی نظموں میں جوش ملیح آبادی کے اثر سے بلند آہنگی ہے۔ ہیجانی کیفیت اور رجائیت کا عنصر نمایاں ہے۔ نظم انقلاب میں تصور جذباتی ہے لیکن بعد کی نظموں میں مثلاً سرمایہ داری، بول ری دھرتی بول اور خوابِ سحر میں اشتراکی فکر کے سبب انقلاب کے ساتھ ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل کا تصور بھی پوشیدہ ہے۔ قدیم شعری سرمایہ سے گہرے لگاؤ اور نیم کلاسیکی طرز ادا سے پیدا ہونے والی دلچسپی نے انہیں شروع ہی میں خوبصورت فارسی ترکیبوں کے سہارے ڈھلے ڈھلائے رواں اور چست مصرعے لکھنے پر قدرت عطا کردی تھی۔ مثلاً نظم ’ پردہ اور عصمت ‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو:
صبا اور گلستاں سے دامن کشیدہ
نوائے فسوسں خیز اور نا شنیدہ
تجلّیِ رخسار اور نا دمیدہ
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے
مجاز اپنی تمام تر ترقی پسندانہ فکر اور اشترکی رجحان کے باوجود کمیونسٹ پارٹی کے ممبر کبھی نہیں رہے، اس کے باوجود بھی ان کی شاعری میں انسانی بے بسی، محرومی اور دکھ کا جیسا جدید احساس و ادراک ہے، وہ کسی بھی ترقی پسند شاعر سے کم نہیں ہے۔ مجاز چونکہ تمام عمر ذاتی الجھنوں سے دوچار رہے ان کی شاعری کا غالب رجحان رومان اور احساس ہے جس پر فکر سے زیادہ جذبے کی حکمرانی ہے۔
موت سے دلچسپی مجاز کی رومانی فطرت کی ایک شکل تھی۔ ان کے یہاں موت ایک خاص کیفیت رکھتی تھی۔
وقت کی سعیِ مسلسل کارگر ہوتی گئی
زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی
سانس کے پردوں میں بجتا ہی رہا سازِ حیات
موت کے قدموں کی آہٹ تیزتر ہوتی گئی
ماہر نفسیات ڈاکٹر سلمان اختر نے اپنے ماموں مجازکی زندگی کے نفسیاتی پہلو کا جائزہ لیا اور انہوں نے تین اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ مجاز کی پیدائش سے پہلے ان کے دو بھائیوں کا انتقال ہوچکا تھا۔ جب مجاز دو سال کے تھے تو ان کے ایک اور بھائی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس لئے مجاز کو ۹ سال کی عمر تک کہیں اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کی ہر طرح سے ناز برداریاں اٹھائی جاتی تھیں اور ان کا خیال رکھا جاتاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ عمر بھر مجاز ہردلعزیز رہے۔ دو بچوں کے کھونے کے بعد حاملہ ماں ایک طرف تو خوش تھی کہ اسے ایک اور بچہ نصیب ہوا لیکن وہ پھر بھی ان دو بچوں کے جانے کا ماتم نہیں کرپائی تھی۔ ایسی حالت میں کوکھ میں بچہ خود کو اہم محسوس کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نامکمل بھی کیونکہ وہ ان دو مردہ بھائیوں کی تلافی نہیں کرسکتا۔ Replacement child کی قسمت میں شہرت اور بربادی ہی ہوتی ہے۔ دوسری طرف احساسِ جرم مجاز کے ساتھ عمر بھر رہا کہ اس کے تین بھائی فوت ہوگئے۔ وہ کیسے زندہ ہے۔ مجاز کے سر پر موت کا سایہ تھا۔
اس کے علاوہ مجاز کی والدہ تیز، زمانہ شناس، شوقین مزاج اور تفریح پسند خاتوں تھیں جس کا اثر مجاز کی شخصیت پر بھی پڑا۔ ان کے والد چودھری سراج الحق میں نیک نیتی، کم سخنی، حقیقت پسندی اور طبیعت کی گہرائی تھی۔ وہ خاموش طبع انسان تھے۔ ایک بار مجاز سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنی شراب پیتے ہیں، آپ کے والدین آپ کو منع نہیں کرتے؟ مجاز نے کہا لوگوں کی اولادیں سعادت مند ہوتی ہیں، میرے والدین سعادت مند ہیں۔ والدین کے لاڈ پیار نے مجاز میں خود مختاری کے جذبے کی نشونما نہیں ہونے دی۔ مجاز جب شراب پی کر دیر سے گھر لوٹتے تو ان کے بستر کے سرہانے ایک پیسہ، پانی اور کھانا رکھا ہوا ہوتا تاکہ تانگہ والا پانی پی کر مجاز کو بستر پرڈال کر پیسے لے کر چلا جائے۔
مجاز کی ذاتی زندگی میں بہت دنوں سے ہلکی موت چل رہی تھی۔ جس رات ان کی موت ہوئی انہوں نے دسمبر کی ٹھنڈ میں چکن کا کرتا پہنا تھا۔ وہ زیادہ سگریٹ پیتے تھے، وقت پر کھانا نہیں کھاتے تھے، کھٹیا شراب پیتے تھے اور دن دوپہر کہیں بھی بیٹھ کر شراب پیتے تھے۔ ماں کی بے پناہ محبت اور باپ کی نرم مزاجی نے ان کو لاشعوری طور پر ایک شادی شدہ خاتون کے عشق میں مبتلا رکھا جس کا شوہر ایک با وقار اور صاحبِ جاہ و ثروت شخص تھا۔ ماں اپنے بچے سے جتنی محبت کرے لیکن اپنے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح مجاز کی محبت بھی ناکام رہی۔ آخری دم تک وہ اس درد کے شکار رہے۔
مجاز بڑے زندہ دل تھے اور مزیدار جملہ بندی کرتے تھے۔ اس زندہ دل اور باغ و بہار شخص نے وقت کے ہاتھوں ستم اٹھائے۔ زندگی ان کے لئے المیہ تھی جس میں ناکامیوں اور محرومیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ مجاز ایک روایت شکن آدمی تھے۔ جس مسلمان طبقہ سے مجاز ابھرے وہ کئی تضادوں کا سامنا کر رہا تھا۔ یہ تمام تضاد ان کے مزاج، ان کے رہن سہن، ان کے کلام کا حصّہ بن گئے۔ ایک طرف ردولی کا خاموش گاﺅں، دوسری طرف لکھنؤ، دہلی ممبئی کی رنگین سڑکیں۔ ایک طرف حافظ و خیام کی صحبتیں، دوسری طرف حضرت گنج کے کافی ہاؤس کے چست لطیفے۔ ایک طرف قرآن اور اذان کی سنجیدہ تاکیدیں تو دوسری طرف ترقی پسند تحریک کا بلند احتجاج جس نے مجاز کی شخصیت پر اثر کیا۔ مجاز کو بچوں سے بے پناہ محبت تھی اور ان کے ساتھ وقت گذارتے تھے۔ انہیں تصویریں بنا کے دیتے تھے، سڑک سے چاٹ خرید کر دیتے اور بچوں کو پیڑوں پر چڑھنا سکھاتے تھے۔ مجاز جب چھوٹے تھے تو ہائی جمپ اور لانگ جمپ کی مشق کرتے۔ بڑے ہوئے تو ٹینس اور ہاکی کھیلتے تھے۔ وہ کرکٹ میں فاسٹ بولر بھی تھے۔ ان کی شاعری میں وہ حساسیت، بچوں سا تجسس اور ذاتی و سیاسی امتزاج ملتا ہے۔
مجاز جب لکھتے تھے تو خود کو کمرے میں بند کر دیتے۔ غزل ختم کرنے کے بعد ہی کمرے سے باہر آتے اوراس دوران مکمل خاموشی کے طلبگار رہتے۔ مجاز ایک بہت خوبصورت اور خوب سیرت انسان تھے۔ خوش شکل، خوش جمال، خوش لباس، خوش گفتار، ادب پرور، ادب دوست، شاعر نواز، لطیفہ گو، بزلہ سنجی اور حاضر جوابی جیسی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔ مجاز ایک صاف گو انسان تھے۔ لوگ ان کو وقار اور محبت سے چاہتے تھے۔ ایک نہایت دلکش انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی دلکش باتیں بھی کرتے تھے۔ مشاعروں میں یا کہیں بھی ان کے دوست اور چاہنے والے ان کی باتوں کو دہراتے تھے اور خوب مزے لیتے تھے۔
لکھنؤ کافی ہاؤس حضرت گنج میں مجاز بڑے باقاعدگی سے جاتے تھے۔ روز جاتے، دوستوں سے ملتے، گپ شپ لگاتے۔ ایک دن مجاز اکیلے بیٹھے اپنے دوستوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت کافی ہاؤس میں ایک نوجوان داخل ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ جگہ نہ ملی تو مجاز کے سامنے آکے بیٹھ گئے۔ وہ مجاز کو نہیں پہچانتا تھا۔ اس نے دھیرے سے شعر پڑھنا شروع کر دیا۔
احمقوں کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
مجاز نے ان کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ کہنے لگے معاف کیجئے گا حضرت ڈھونڈھنے کی نوبت کہاں آپڑتی ہے۔ کم بخت خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔ مجاز پوری زندگی کو ایک لطیفہ سمجھتے تھے۔ غالباً لطیفے مجاز کو ااپنی ذاتی زندگی کے صدموں کو بھلانے یا ان پہ پردہ ڈالنے میں مدد دیتے تھے۔ مجاز کے داخلی غم نے ایک حسین فرار لطیفوں کے ذریعے ڈھونڈھنا چاہا تھا۔
مجاز کی حاضر جوابی ضرب المثل ہے۔ ان کے لطیفوںمیں بھی شاعرانہ لطافت اور ذہانت ہے۔ مجاز کبھی سخت بات کا جواب نہیں دے پاتے تھے۔ جب دوست ان سے بدسلوکی کرتے تو خاموش رہتے۔ ان کی زبان پر کبھی کسی کی شکایت نہیں آئی تھی۔ معاصرانہ چشمک کا دور دور پتہ نہیں تھا۔ مجاز ی شاعری میں ذاتی غموں کی پرچھائیاں کم ہےں۔ جس زمانے میں اس پر غم، تکلیف اور اداسی کے بادل چھا جاتے تھے تب بھی اس کی شاعری شگفتہ رہتی۔ وہ اپنے زخموں کی نمائش نہیں کرتے تھے اور اپنے دکھوں کا ماتم سب کے سامنے نہیں کرتے تھے۔
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
جگر مراد آبادی نے ایک بار شراب ترک کرنے کی ہدایت کی تو مجاز نے ہنس کر جواب دیا کہ آپ نے صرف ایک بار چھوڑی ہے اور میں کئی بار چھوڑ چکا ہوں۔ مجاز کو لیکن جوش ملیح آبادی کی نصیحت ناگوار گزری کیونکہ وہ نظم میں تھی جسے جوش نے شائع کر دیا۔ اسی زمانے میں جوش نے شیخ عبد اللہ کی تعریف میں ایک نظم لکھی۔ مجاز نے ان دونوں واقعات کو ایک شعر میں نظم کر دیا جس کا آخری مصرعہ ہے
رندِ برباد کو نصیحت ہے شیخ کی شان میں قصیدہ ہے
یہ ٹھیس کچھ اس طرح لگی تھی کہ مجاز آخری وقت تک اسے نہیں بھول سکے۔ دیوانگی کے آخری زمانے کے کاغذات میں جو رانچی کے پاگل خانے کے یادگار تھے جو نامکمل چیزیںبرآمد ہوئیں ان میں یہ شعر بھی تھا
فراق ہوں اور نہ جوش ہوں میں
مجاز ہوں سرفروش ہوں میں
مجاز کے ہاتھ میں ساز اور ہونٹوں پر گیت لہراتے رہے۔ وہ زندگی کی اس منزل کے گیت گاتے رہے۔ ان کی شاعری میں ہمیشہ انقلاب حاوی رہا۔ شاعری میں زمزمہ سنجی اور نغمہ خوانی نے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا۔ مجاز نے اپنے عشق اور شاعری دونوں کو اپنے عشق کی آلائش سے پاک رکھا۔ عشق میں ناکامی کے باوجود کبھی محبوب پر طنز نہیں کیا۔
روزگار اور محبوبہ کو کھونے کے بعد مجاز کی حساس شخصیت ٹوٹنے لگی اور ذہنی توازن کی کمی نے شراب میں غرق کر دیا۔ چار سال تک اس نے اپنی ٹوٹی ہوئی شخصیت کو سمیٹے رکھنے کی کوشش کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بکھرتی چلی گئی۔ ان سالوں میں انہوں نے بعض بہت اچھی نظمیں لکھیں۔ ’ خوابِ سحر ‘ ایک یادگار نظم ہے جس میں مجاز کے شعور کی بختگی جھلک رہی تھی۔ ’ شہرِ نگار ‘ اس کی سرشاری کی ایک اور جھلک ہے۔ ’ اندھیری رات ‘ کا مسافر اپنی ٹوٹی ہوئی شخصیت کو دوبارہ جوڑنے کی دردناک کوشش ہے۔ ہر مشکل کے باوجود خود کو جوڑنے کی دردناک کوشش ہے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی خواہش اس نظم میں دلفریب کیفیت پیدا کرتی ہے۔ مجاز اپنی شراب نوشی کی زیادتی سے پہلے ہی مرچکا تھا۔ اپنی نظم ’ اعتراف ‘ میں اس نے ’ اعترافِ شکست ‘ کرلیا۔
اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے
اس نظم میں مجاز کی جوانی کی آخری پکار ہے جس میں جذبئہ شوق کی موت کا اعلان تھا۔ ۱۹۵۲ء میں کل ہند تہذیبی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے مجاز ڈاکٹر صیف الدین کچلو کے ساتھ کلکتہ گئے۔ اس وقت اس کی دیوانگی اپنے شباب پر تھی۔ وہ تین بار پاگل خانے میں زیرِ علاج رہے۔
۳؍ دسمبر ۱۹۵۵ء میں قصر باغ میں طالب علموں کی کانفرنس تھی۔ وہاں ان کا آخری مشاعرہ ہوا جسے سب لوگوں نے پسند بھی کیا۔
عبارت بریلوی کے مطابق مجاز نے زندگی کو بہت کچھ دیا لیکن وہ خود زندگی سے محروم رہے ۔ کہنے کو وہ زندہ رہے لیکن ان کی زندگی کے انداز کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ زندگی سے تنگ آکر اور پریشان ہو کر موت کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
آخری وقت میں ان کے دوست انہیں لال باغ علاقے میں شراب پلانے لے گیااور شراب پینے کے بعد چلے گئے۔ ٹھنڈ کے باوجود مجاز شراب کے نشے کی حالت میں کھلی فضا میں ہی سوگئے۔ اس اثنا میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور نمونیا کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے۔ صبح ان کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن انہوں نے آنکھ نہیں کھولی اور ۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ء میں انہوں نے چوالیس سال کی عمر میں اپنی زندگی سے نجات پائی۔
نشاط گنج لکھنؤ کی قبرستان میں مجاز کی قبر ہے جس کی ایک طرف ان کی والدہ حمیدہ سالم کی قبر ہے اور دوسری طرف ان کی بہن صفیہ کی قبر ہے۔
مجاز کے مزار پر ان کا یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے
اب اس کے بعد صبح ہے اور صبحِ نو مجاز
ہم پر ہے ختم شامِ غریبانِ لکھنؤ
حوالہ
ویڈیوز
اسرار الحق مجاز 16 July 2019 Classic shayari of all time Sunil Bhatta Films
Majaz on the ground Rohit Upadhay 20th March 2019
SM Mehdi on Majaz Lucknawi Adil Khan 3rd May 2015
Tata Sky Active Javed Akhtar / Awargi 8th October 2014
The mystery around Majaz’s death: Who killed Majaz? CINEINK 26th February 2018
UrduStudio : Awara Atul Tiwari with Manish Gupta in Hindi 17th December 2015
Majaz Lucknawi – kamal-e-ishq hai Urdu poetry Jahan-e-Ghazal Banana Poetry 14 June 2017
Majaz Lucknawi Majbooriyan Shagufta Bay in Urdu Studio with Manish Gupta 27 November 2017
Majaz: Nawjawaan Khatoon se: Lubna Salim: Urdu Studio with Manish Gupta 13 August 2015
Dr Salman Akhtar, A tribute to Majaz 8 December 2015
NCERT Official تعارف اسرار الحق مجاز Sahitya Studio1st May 2009
ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے A play on MAJAZ LUCKNAWI Jashn-e-adab 2018 11 October 2018
Asrar Ul Haque Majaaz Remembering Majaz 10 June 2019
مجاز لکھنوی کی نظم نگاری ڈاکٹر نوشاد عالمCEC February 12 2018
ُPost Isral Ul Haq Majaz Vertex Events 19 January 2019
Kahkashan Asralul Haq Majaz part 1- Part VII June 12 2009
مضمون
گوہر رضا قومی آواز ۲۲ اکتوبر ۷۱۰۲
مجاز کی شاعری ایک مطالعہ چودھری امتیاز احمد ۷۱۰۲ جہانِ اودھ