بابری مسجد: انصاف کے انتظار میں (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
کہا جاتا ہے کہ بابر نے اس مندر کو منہدم کر کے مسجد تعمیر کیا تھا؛ لیکن یہ بات تاریخی حقائق کی رُو سے قطعاََ ناقابل یقین ہے؛ کیوں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بابر کبھی ایودھیا گیا بھی ہو، بابر نے خود ترکی زبان میں ’’ بابر نامہ ‘‘ تحریر کیا ہے، نہ اس میں اس کا ذکر ہے اور نہ دوسرے مؤرخین نے اس کا ذکر کیا ہے، بابر نامہ کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بابر ایودھیا سے تقریباََ ۷۲؍ میل دور مقیم ہوا تھا؛ چنانچہ پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ کوئی ٹھوس تاریخی شہادت ایسی موجود نہیں کہ بابر یا اورنگ زیب ایودھیا آئے ہوں (بابر، ص: ۹۳) پروفیسر آرناتھ (یونیورسیٹی جے پور راجستھان) نے بھی یہی لکھا ہے کہ بابر کبھی ایودھیا نہیں آیا (بابر، ص: ۹۶)
کسی شخص سے جو بات منسوب کی گئی ہو، اس کی صداقت کو پرکھنے کے لئے ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ خود اس شخص کے مزاج و مذاق کی اس سے مطابقت اور ہم آہنگی دیکھی جائے، اس پہلو سے بھی بابر کی طرف مندر کے منہدم کرنے کی نسبت قطعاََ غلط معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ بابر کٹر مذہبی قسم کا آدمی نہیں تھا اور مذہبی روا داری کا بہت ہی زیادہ لحاظ رکھتا تھا، منصف مزاج غیر مسلم مؤرخین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، راجہ شیو پرشاد نے اپنی کتاب ’’ آئینہ تاریخ‘‘ کے پہلے حصہ میں بابر کے عدل وانصاف اور نیک دلی کی بہت تعریف کی ہے، اس کے دور میں نظمِ حکومت میں بھی بہت سے ہندو شریک تھے، وہ ہندو جوگیوں سے بہت عقیدت سے پیش آیا کرتا تھا، پروفیسر آرناتھ کا بیان ہے کہ ایسی کوئی شہادت نہیں کہ بابر کو متعصب ٹھہرایا جا سکے، پروفیسر رام شرما نے لکھا ہے کہ ایسا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں کہ بابر نے کبھی کسی مندر کو توڑا ہو، یا ہندوؤں پر مذہبی اختلاف کی بناء پر کوئی ظلم روا رکھا ہو، پروفیسر آرسی رائے چودھری لکھتے ہیں کہ بابر وہ بادشاہ تھا، جس نے مذہبی رواداری اور برداشت کی پالیسی کا بیج بویا (بابر، ص: ۸۰) مشہور محقق سید صباح الدین عبدالرحمن صاحبؒ نے اپنی کتاب ’’ مسلمان حکمرانوں کی مذہبی روا داری ‘‘ میں بابر کی عالی ظرفی اور حُسن سلوک پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، پروفیسر بنرجی نے ہندوؤں کے ساتھ بابر کے مخلصانہ برتاؤ اور کلیدی عہدوں پر ہندوؤں کے فائز کرنے کا ذکر کیا ہے، اور اس کی طرف مندر اور مقدس مقامات کے مسمار کرنے کی نسبت کو غلط قرار دیا ہے، نیز پروفیسر سری واستو نے اپنی پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ بابر پر الزامات اس کی شخصیت اور کردار سے قطعی مل نہیں کھاتے (بابر، ص: ۸۲)
بابر کے مزاج کو سمجھنے کے لئے اس وصیت نامہ کو دیکھنا کافی ہوگا، جو اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کو کی تھی، جس کا ذکر ڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریہ ہند نے اپنی کتاب انڈیا ڈیو ائیڈیڈ صفحہ ۳۹؍ میں کیا ہے:
’’ اے بیٹے! ہندوستان کی حکومت مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا گہوارہ ہے، اللہ کا شکر ہے جس نے تم کو حکومت عطا کی، تمہارے لئے ضروری ہے کہ اپنے دل سے مذہبی عناد کو ختم کر دو اور ہر مذہب کے مطابق فیصلہ کرو، بالخصوص گائے کی قربانی کو چھوڑدو، اسی طرح ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کو جیت سکوگے، پھر اس ملک کے عوام شاہی احسان سے دبے رہیں گے، جو لوگ سرکاری قانون کی پابندی کریں، ان کی مندروں اور پوجا کے مقام کو منہدم نہ کرو، انصاف اس طرح کرو کہ عوام بادشاہ سے اور باشاہ عوام سے خوش ہوں ‘‘۔
رام شنکر اپادھیائے نے مارچ ۱۹۹۵ء میں بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی لکھنؤ بنچ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا :
’’ میں نے ہندو دھرم کی کتابیں پڑھی ہیں …… رام چرت مانس یا تلسی داس یا کسی دوسرے ساہتیہ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ ایودھیا میں شری ر ام کے مندر کو توڑ کر کوئی مسجد بنائی گئی ہو، ہندو دھرم کی کسی بھی کتاب میں کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا کہ رام چندر جی کے جنم استھل پر بابری مسجد بنائی گئی ہو، یا رام چندر جی کی جنم استھل وہاں واقع ہوئی ہو، جہاں بابری مسجد تھی‘‘
بابری مسجد تنازعہ کا اصل پس منظر یہ ہے کہ سب سے پہلے مندر گرا کر مسجد کی تعمیر کا شوشہ ایک انگریز سیاح جوزف ٹینن ٹیلر نے چھوڑا، جس کی کتاب ۱۷۸۸ء میں شائع ہوئی، انھوں نے لکھا ہے:
’’ بادشاہ اورنگ زیب نے رام کوٹ کہے جانے والے قلعہ کو مسمار کر کے اس کی جگہ ایک اسلامی معبد ( مسجد) بنایا، جس میں تین گنبد ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بابر نے ایسا کیا، سیاہ پتھر کے ۱۴؍ ستون جو 5.5 فٹ کے ہیں، اس قلعہ کے اندر لگے ہوئے تھے، ان میں سے ۱۲؍ اب مسجد کے اس تحتی حصہ میں لگے ہوئے ہیں، جو دالان کا دروازہ ہے، دوستون کسی صوفی کے مزار میں لگے ہوئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ ستون یا ان کا ملبہ ہندوؤں کے راجہ ہنومان لنکا سے لے کر آئے تھے، بائیں طرف ایک چوکور چبوترہ ہے، جو زمین سے پانچ انچ اونچا ، پانچ انچ لمبا اور چار انچ موٹا ہے، جو مٹی سے بنا اور چونے سے پوتا گیا ہے، ہندو اسے بیدی کہتے ہیں، یعنی جنم بھومی، اسے جنم بھومی کہنے کا سبب یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہیں پر وہ مکان تھا، جس میں بیشن (بشن یعنی وشنو) نے رام کی شکل اختیار کی تھی (تحریر: پروفیسر ایس آر شرما وغیرہ، بابری مسجد شہادت سے قبل شہادت کے بعد:۲۳۴)
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو ان کی اپنی فوج بہت مختصر تھی، اگر یہاں ہندومسلمان متحد ہوتے تو ان کے لئے اپنے قدم جمانا ممکن نہیں ہوتا، ان کی ایک خاص پالیسی تھی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے جائیں اور ان کو لڑایا جائے؛ چنانچہ بی این پانڈے کا بیان ہے کہ برطانوی حکومت کی سرکاری دستاویز سے ظاہر ہے کہ لارڈ ایلگن کے زمانے میں ۳؍مارچ ۱۸۲۲ء کو سکریٹری آف اسٹیٹ وڈ نے اس کو خط لکھایا:
’’ ہم لوگوں نے ہندوستان میں اب تک اپنا اقتدار اس طرح قائم کر رکھا ہے کہ ہم ہندو مسلمان کو ایک دوسرے کا مخالف بناتے رہے، اس کو جاری رکھنا چاہئے، جہاں تک ممکن ہو، اس کی پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ یہاں کے لوگوں میں مشترکہ جذبات پیدا نہ ہونے پائیں‘‘ ۔
۴؍جنوری ۱۸۸۶ء کو ایک دوسرے سکریٹری آف اسٹیٹ جارج فرانسس ہملٹن نے لارڈ فرن کو لکھا کہ:
’’ ہندوستان کے لوگوں میں مذہبی اختلافات پیدا کرنا ہمارے فائدے کے لئے ہے، آپ نے ہندوستان میں تعلیم کے نصاب بنانے کے لئے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے، اس سے ہم اچھے نتائج کے متوقع ہیں‘‘ (با بری مسجد شہادت سے قبل شہادت کے بعد، بحوالہ : بی این پانڈے)
غرض کہ انگریزوں نے پہلے تو قیاس وتخمین کے لہجے میں لکھا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد مندر کو گرا کر بنائی گئی ہے، پھر رفتہ رفتہ ایک یقینی واقعہ کے طور پر لکھنے لگے کہ یہاں ایک مندر تھا، اسے گرا کر مسجد بنائی گئی۔
جہاں تک قانونی پہلو کی بات ہے تو آئین ہند کے آرٹیکل: ۱۴۲ کے مطابق کسی جائداد پر ۱۲؍ سال بعد قبضہ مخالفانہ کا استحقاق حاصل ہو جاتا ہے؛ اگر غاصبانہ قبضہ ہو تو اس سے قبل ہی دعویٰ کرنا چاہئے، بابری مسجد کی اراضی سیکڑوں سال سے مسلمانوں کے زیر قبضہ تھی، تو اب اس پر ہندو فریق کا دعویٰ کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ سرکاری عہدہ داران بھی اس مقدمہ کی دستاویزی تفصیلات کے مطابق ہمیشہ یہ تسلیم کرتے رہے ہیں کہ اس میں زور زبردستی سے مورتی رکھی گئی ہے؛ چنانچہ ۲۲؍۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی شب مسجد میں مورتی رکھنے کے واقعہ کے متعلق ایک ہندو کانسٹبل ماتو پرشاد نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی ، جس کے آخری کلمات یہ ہیں: ’’ رام داس، رام شکل داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم آدمی بلوا کر کے مسجد میں مداخلت کرتے ہوئے مورت رکھ کر مسجد کو ناپاک کیا، ملازمان مامورہ ڈیوٹی اور بہت سے آدمیوں نے اس کو دیکھا، اس سے چک مقدمہ تیار کی گئی، جو صحیح ہے‘‘۔
۲۴؍اپریل ۱۹۵۰ء کو فیض آباد کے ڈپٹی کمشنر جے این اوگرا نے فیض آباد کے سول جج کی عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کیا، جس کے پیراگراف ۱۴؍ میں یہ لکھا ہے: ’’ یہ جائداد نزاعی بابری مسجد کے نام سے مشہور ہے، اور لمبے عرصے سے مسجد کے طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں، مسلمان اس میں نماز پڑھتے ہیں، اس کا رام چندر مندر کی طرح کبھی استعمال نہیں کیا گیا ‘‘ اس کے علاوہ حکومت اترپردیش کے ریکارڈ کے مطابق یہ سنی وقف بورڈ کی ملکیت ہے، اور اسی بنیاد پر حق ملکیت کے مدعی کی حیثیت سے عدالت نے اس کو مقدمہ کا فریق تسلیم کیا ہے؛ اس لئے قانونی اعتبار سے ان لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، جو اس کو رام جنم بھومی قرار دیتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ ۱۹۴۹ء تک ہندو فریق کا دعویٰ تھا کہ مسجد کے سامنے والا چبوترہ رام جی کی جائے پیدائش ہے، ۱۹۴۹ء میں بابری مسجد کے درمیانی گنبد میں مورتی رکھنے کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہی جگہ رام جی کی جائے پیدائش ہے، رہ گیا الٰہ آباد ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ جو ۳۰؍ستمبر ۲۰۱۰ء کو جاری ہوا اور اس میں مسجد کا ایک تہائی حصہ مسلمانوں کو اور دو تہائی حصہ ہندوؤں کو دیا گیا تو وہ مشہور دانشور سید شہاب الدین مرحوم کے بقول ’’ما وراء قانون‘‘ فیصلہ ہے، اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی کے آر کرشنا ائیر نے کہا:
’’ یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے، زمین یا تو مسلمانوں کو ملے یا ہندوؤں کو، اس کے بجائے تینوں ججوں نے اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ چالاکی پر مبنی ہے، ججوں کو چاہئے کہ وہ برادریوں اور ملتوں سے اوپر اُٹھ کر سوچیں، یہ فیصلہ اس بات پر شک پیدا کرتا ہے کہ کہیں عدلیہ میں تو فرقہ پرستی کا عمل دخل شروع نہیں ہوگیا؟ ‘‘
ریٹائرڈ چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ جسٹس راجیندر سچر نے کہا کہ اس فیصلہ کا خلاصہ دو الفاظ میں ہے’’ مجرمانہ قدم‘‘ مشہور مؤرخ پروفیسر رومیلا تھاپر نے کہا: ’’ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے تاریخ کے احترام کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے، اور دھارمک آستھا کے در پر تاریخی شواہد کو قربان کر دیا ہے‘‘۔
مشہور تاریخ داں دلیپ سائمن نے کہا: ’’ کورٹ کو کیسے پتہ چل گیا کہ رام کس مخصوص مقام پر پیدا ہوئے تھے؟ جس کی بنیاد پر ایک موجود تاریخی مسجد کی ملکیت سے انکار کر دیا گیا! ……. عدالت کا کام تو یہ دیکھنا تھا کہ ایک ایسی عمارت جو صدیوں سے موجود تھی اور جس کے تمام تاریخی اور قانونی شواہد موجود تھے، اسے مجرمانہ طور پر منہدم کر دیا گیا، اور آج اس کی ملکیت پر کس طرح دیگر لوگ دعویٰ کر رہے ہیں ‘‘ ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات کہ رام جی اس جگہ پیدا ہوئے، جہاں بابری مسجد ہے، اور یہ بات کہ وہاں مندر بنایا گیا تھا، اور پھر اسے توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، قطعاً بے بنیاد دعوے ہیں، نہ برادران وطن کی کتابوں سے اس کا ثبوت ہے نہ مؤرخین نے اس کو تسلیم کیا ہے، نہ علم الآثار سے اس کی تائید ہوتی ہے، اور نہ قانونی پہلو سے اس دعویٰ کی کوئی وقعت ہے، یہ مقدمہ ہندوستان کے نظام عدل کا امتحان ہے اور دنیا کی نگاہیں اس بات کو دیکھنے کی منتظر ہیں کہ اس مقدمہ میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں، یا اکثریت کی زور زبردستی کو قانونی جواز عطا کیا جاتا ہے؟
٭ ٭ ٭

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں