لکھنو گومتی نگر، لکھنو¿ کی رہائشی سات سالہ دیشا اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اچانک اس نے تڑپنا شروع کیا اور فوراً. ہی گر گئی۔ اس کے والد نے اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے اسے آکسیجن پر رکھا۔ جانکی پورم میں انجینئرنگ کے ایک طالب علم شرد اہیروار کی جمعہ کی رات سانس کی پریشانی کی وجہ سے اچانک آنکھ کھل گئی۔ اب وہ کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی (کے جی ایم یو) میں داخل ہے۔
ہفتہ کی شام ریلی ایک بیرونی مزدور تیلی باغ علاقہ میں سڑک کے کنارے بے ہوشی کی حالت میں ملا، جسے بعد میں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جزوی طور پر پھیپھڑوں کے خراب ہونے کی وجہ سے اسے بھی آکسیجن پر رکھا گیا ہے۔
ان تینوں ہی معاملات میں مریض سماج کے مختلف طبقوں سے آتے ہیں اور لکھنو¿ فضائی آلودگی کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ صوبہ کی راجدھانی کی ہوا کا اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) جمعہ کو 382 (شدید) اور ہفتہ کو 422 (انتہائی شدید) درج کیا گیا۔
دو نومبر کو جو اے کیو آئی ریکارڈ کیا گیا وہ وہ گذشتہ تین سالوں میں بدترین اور مانسون کے بعد سے اب تک کا سب سے آلودہ دن رہا۔ سنٹرل آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کے مطابق لکھنو¿ کا اے کیو آءتشویشناک سطح پر ہے اور اس کے رابطہ میں آنے کی وجہ سے لوگ سانس کی شدید بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔
ریاستی حکومت نے مختلف ایجنسیوں کو ہدایات جاری کی ہیں لیکن فی الوقت کوئی فرق نظر نہیں آ رہا ہے۔ ادھر شہر میں تعمیراتی کام بند نہیں ہے اور صرف چند لوگوں نے دھول کے ذرات کو روکنے کے لئے عمارتوں پر سبز کپڑے ڈالے ہوئے ہیں۔ پانی کا چھڑکاو¿ بھی صرف کچھ خاص کالونیوں میں ہی نظر آ رہا ہے اور کوڑا بھی مسلسل جلایا جا رہا ہے۔
ادھر ’کے جی ایم یو‘ کے ریٹائرڈ پروفیسر اور سینے سے متعلق بیماریوں کے معروف ڈاکٹر ڈاکٹر راجندر پرساد کا کہنا ہے کہ موجودہ آلودگی کے حالات دمہ (استھما) جیسی سانس سے متعلق بیماریوں میں مبتلا افراد کے لئے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں اور صحت مند لوگوں پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”چونکہ آلودگی کی سطح کو فوری طور پر نیچے نہیں لایا جاسکتا، لہذا لوگوں کو بہتر کوالٹی کے ماسک لگائے بغیر گھر سے باہر جانے سے گریز کرنا چاہئے۔ صبح کو ٹہلنے والوں کو بھی گھر کے اندر ہی ورزش کرنا چاہئے۔“
سرکاری اور نجی اسپتالوں میں پچھلے پانچ دنوں میں سانس کے مریضوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کے جی ایم یو کے ترجمان نے کہا ، ”ایسے مریضوں میں تقریبا پانچ گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر بچے اور بزرگ شہری ہیں۔“