سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا یا مصالحتی فارمولہ نافذ کیا ؟

خبر در خبر (621)
شمس تبریز قاسمی
اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کا سنایاگیا فیصلہ ایک مصالحتی فارمولہ سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہاہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ نے غلط بتایاہے لیکن یہ فیصلہ بھی اسی نوعیت کاہے فرق صرف اتناہے کہ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے تمام دلائل کا اعتراف کیاہے ۔ دعوﺅوں کی تصدیق کی ہے ، ہندو فریق کے اہم ترین دعوﺅوں کی تردید کی ہے اور پھر مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے دینے کا فرمان جاری کیا اور مسجد کی تعمیر کیلئے دوسری جگہ دینے کا اعلان کیا ۔
سپریم کورٹ سپریم ہے لیکن غلطیوں سے منزہ اور پاک صاف نہیں ہے ۔ ماضی میں دسیوں مرتبہ سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلہ کو پلٹ دیاہے ۔ نظر ثانی کا آپشن بھی اسی لئے ہوتاہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرنا ، اعتراض جتانا اور تنقید کرنا عدلیہ کے وقار اور احترام کے خلاف بھی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمان خوف کے اتنے شکار ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کا استعمال کرنے کی بھی اب جرات نہیں کررہے ہیں ، فیصلے کے ٹیکنیکل پہلوﺅں پر گفتگو کرنے کے بجائے مسلم قیادت پر طعن وتشنیع کرنے لگے ہیں ،آج کالم میں ہم فیصلے کے کچھ اہم نکات پر گفتگو کررہے ہیں،یہی کچھ خبر در خبر کے ویڈیو پروگرام میں بھی ہم بول چکے ہیں جسے یوٹیو ب پر دیکھا جاسکتاہے ۔ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر متعدد وکلا ءاور دانشوران کا نظریہ بھی پیش کیا جارہاہے کیوں کہ اس فیصلہ پر بحث کی ضرورت ہے ۔
بابری مسجد ۔ ایودھیا تنازع پر سپریم کورٹ نے مسلمانو ں پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ عدالت عظمی نے تسلیم کیا ہے کہ ”بابری مسجد رام مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی“ ۔” 1528 میں میر باقی نے اس کی تعمیر کی تھی“ ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ” 22/23دسمبر کی درمیانی شب میں یہاں رام کی مورتی زبردستی رکھی گئی تھی ،اس کے باضابطہ ثبوت ہیں، رام پرکٹ ہونے کا دعوی غلط اور بے بنیاد ہے “۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ” 6دسمبر 1992 میں مسجد کا انہدام غیر آئینی عمل تھا جس میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے “۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی اعتراف ہے کہ 1528 سے 6دسمبر 1992 تک یہ جگہ مسجد ہی تھی ۔ 1857 سے 1949 تک یہاں مسلسل نماز پڑھے جانے کے ثبوت موجود ہیں ۔
سپریم کورٹ نے مذکورہ تمام حقائق کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے فیصلے میں مزید تین امور کو شامل کیا ۔” آستھا ، آثار قدیمہ کی رپوٹ اور بیرونی سیاحوں کا سفرنامہ “۔ سپریم کورٹ نے واضح کیاہے کہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے ،اس میں کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیئے ۔ مسلمانوں نے بھی اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ بنیادی تنازع اس بات پر تھااور شاید ہمیشہ رہے گاکہ بابری مسجدکے عین گنبد کے نیچے رام جنم بھومی ہونے کا کیا ثبوت ہے ؟ اس بارے میں سپریم کورٹ نے کچھ نہیں کہاہے ۔ سپریم کورٹ نے آثار قدیمہ کی رپوٹ کو بھی بنیاد بناتے ہوئے کہاکہ یہاں کھدائی میں جوڈھانچہ ملاتھا وہ غیر اسلامی تھا،کسی مسجد اور عیدگا ہ کا نہیں تھا۔ عدالت عظمی نے تیسری بنیاد بیرونی سیاحوں کے سفرنامے کو بناتے ہوئے کہاکہ ہندﺅوں کے پوجا کرنے کا یہاں ہمیشہ ثبوت ملتاہے ۔ 18 ویں صدی میں جن لوگوں نے ہندوستان کا سفر کیاتھا انہوں نے لکھا ہے کہ ہندو یہاں مسجد کے احاطے میں پوجا کرتے تھے جبکہ مسلمانوں کے نماز پڑھنے کا انہوںنے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے ،دوسرے لفظوں میں اٹھارہویں صدی تک مسلمانوں کے نماز پڑھنے کا یہاں ثبوت نہیں ہے حالاں کہ مسجد یہاں تھی۔یہ تین اموروہ ہیں جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کئی مرتبہ مسلم فریقوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اسے فیصلے کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا لیکن سپریم کورٹ اسے ہی بنیاد بنایا اور ہندﺅوں کے دعوﺅں کو فوقیت دی کہ کھدائی میں غیر اسلامی ڈھانچہ ملاتھا ، اٹھارہویں صدی سے پہلے پوجا کا ثبوت ملتاہے لیکن نماز پڑھنے کا نہیں ملتاہے اور اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے اس لئے ہندو زیادہ حقدار ہیں اس زمین پر پوجا کرنے کے ۔دوسری طرف مسلمانوں کا دعوی محض اس وجہ سے خارج کردیا کہ مسجد کی تعمیر کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک وہاں نماز پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتاہے ۔ عدالت عظمی کا یہ جملہ عجیب وغریب ہے ، یہ ہر کوئی جانتاہے کہ مسجد نماز پڑھنے کیلئے ہوتی ہے ، مسجد اسکول اور مدرسہ نہیں ہے جہاں حاضری رجسٹر رکھی جاتی ہے ،اور جب اٹھارہویں صدی کے بعد نما ز پڑھنے کا ثبوت ہے تو اس سے قبل زیادہ یقینی ہے وہاں نماز کی ادائیگی کا، کیوں کہ 1859 سے پہلے وہاں اس طرح ہندو مسلم کا کوئی تناز ع نہیں تھا ،اسی دور میں ہنگامہ شروع ہوا جس کے بعد برٹش حکومت کے افسران مسجد کے صحن میں ایک جگہ پر ہندﺅوں کو پوجا کرنے کا حق دیا ،مندر کی تعمیر کا ان لوگوں نے جب بھی مطالبہ کیا اسے مسترد کردیا ۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیاحوں نے نماز نہ پڑھنے کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے اس لئے یہ دلیل سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے ۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ 1045 صفحات پر مشتمل ہے جس کا اہم ترین حصہ یہی مذکور ہ امور ہیں ، سپریم کورٹ میں فاضل ججوں نے بھی اسی حصے کو پڑھاتھا، تمام تفصیلات جاننے کے بعد لگتاہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے دلائل او رشواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے آستھا اور واشواس کی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے ، ملکیت اور ٹائٹل سوٹ کو انہوںنے بنیاد نہیں بنایاہے ۔ اب تک سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ متنازع اراضی کی ملکیت کے ثبوت کس کے پاس ہیں ۔ ایک طرح سے انہوںنے مسلمانوں کے دعوی کے تصدیق کی ۔ دوسری طرف اجودھیا کو انہوں نے ہندﺅوں کا رام جنم بھومی ہونا تسلیم کیا او رپھر پوری زمین ہندﺅوں کو رام مندر بنانے کیلئے دے دی اور مسلمانوں کیلئے دوسری جگہ بابری مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ سنایا ۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ وہی مصالحتی فارمولہ ہے جس کی آر ایس ایس ، ہندو پریشد اور دیگر فریقوں کی طرف سے مسلمانوں کو پیشکش ہوتی رہی ہے ۔ حالیہ دنوں میں شری شری روی شنکر نے بھی اسے فارمولہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملک گیر کوشش کی تھی ۔ موجودہ چیف جسٹس نے بھی اسی سال فروری میں ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں ہندو فریقوں نے یہی فارمولہ پیش کیا جو مسلمانوںنے منظور نہیں کیا ۔ اب یہی بعینہ سپریم کورٹ کی طرف سے آگیاہے جسے ماننے کے علاہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے ،اتمام حجت کیلئے ہمارے پاس نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا آپشن موجود ہے اور اس حق کا استعمال ہونا چاہیئے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبور ڈ ،سنی وقف بورڈ ،جمعیت علماءہنداور پوری امت مسلمہ نے مقدمہ کی پیری میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ، بہت مضبوطی کے ساتھ انہوں نے اپنا دعوی پیش کیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ خود بتارہاہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے تمام دلائل سے اتفاق کیاہے ، مسلمانوں کے خلاف ہندوﺅں کے سبھی الزامات اور دعووں کو خارج کیاہے لیکن اسے ہندﺅوں کے حوالے کردیاہے اور مسلمانوں کو مسجد دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا ہے ۔ مسجد منتقل کرنے کے فیصلہ کا کریڈٹ ان لوگوں کو بھی کچھ ملنا چاہیئے جنہوں نے قرآن وحدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوششی کی تھی کہ اسلام میں مسجد منتقل کی جاسکتی ہے ۔ شریعت میں اس کی مکمل گنجائش ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے رام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ،رام مندر کی تعمیر وہیں بننی چاہیئے جہاں ہندو فریق دعوی کررہے ہیں۔ کیوں کہ بڑے پیمانے پر کچھ علماءاور مسلم دانشوران کی طرف سے اس طر ح کی بات سامنے آنے کے بعد ملک میں یہ ڈبیٹ شروع ہوئی تھی کہ مسلمان اپنی مسجد منتقل کرسکتے ہیں ،اس سے ان کے عقیدے پر کچھ فرق نہیں پڑتاہے لیکن رام جنم بھومی منتقل کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے ۔
تاریخ میں یہ فیصلہ ہمیشہ بحث اور ڈبیٹ کا موضوع بنے گا ۔ججز کے اقرارنامے اور حتمی فیصلے کے درمیان موجود واضح تضاد پرلمبے عرصے تک گفتگو ہوگی اور اس بات پر خصوصی توجہ کے ساتھ بحث ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر سپریم کورٹ نے مورتی بنانے کیلئے وہ جگہ سرکار کے حوالے کی تھی ۔ اکثریت کے دباﺅ میں ؟ حکومت کے اشارے پر ؟کسی طرح کے بیرونی خوف کا اثر تھا؟اقلیتوں کی طرف سے کسی طرح کی مخالفت کا اندیشہ نہیں تھا ؟ ۔
یہ سوالات چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی اور ان کی پوری بینچ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اوریہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ جس وقت ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں ہمارے سامنے ہندوستا ن ٹائمز میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج اشو ک کمار گانگولی کا یہ بیان ہے کہ رام مندر کیلئے متنازع اراضی کو سونپ دینے کا فیصلہ قابل اعتراض اور سمجھ سے بالاتر ہے ۔اخیر میں ایک درخواست اپنے ہندو بھائیوں سے یہ ہے کہ اس فیصلے کا مکمل کریڈٹ بی جے پی کومت دیجئے ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ 80 فیصد کریڈیٹ کانگریس کو ملنا چاہیئے ،اگر آپ یکطرفہ بی جے پی کوکریڈٹ دے رہے ہیں تو یہ آپ خود سے بہت بڑی ناانصافی کررہے ہیں ۔ کیوں کہ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر 1949 میں مسجدکے اندر مورتیاں نہیں رکھی جاتی ، راجیوگاندھی کی حکومت میں مسجد کا تالا کھول کر شیلا نیاس نہیں کیا جاتااور کانگریس کی حکومت رہتے ہوئے 1992 میں مسجد شہید نہیں ہوئی ہوتی تو کیا ملکیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا یہی فیصلہ آتا ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com