مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیتِ ماہر تعلیم

ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی  

(صدر شعبہ عرب کلچر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ)

مولانا ابو الکلام آزاد کا یوم پیدائش ملک بھر میں 2008؁ء سے قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مولانا آزاد کی پیدائش 11؍ نومبر 1888؁ء میں عرب کے شہر مکہ میں ہوئی تھی , انکا نام محی الدین احمد تھا جو بڑے ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ 15؍ اگست 1947؁ء کے بعد سے یکم فروری 1958 تک پہلے وزیر تعلیم رہے تھے ۔ بحیثیت ایک ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا آزاد نے تعلیم یافتہ ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی ۔ انہیں وفات کے بعد ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ مسلم معاشرہ میں بھی تعلیم کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لئےان کا اہم رول رہا ہے۔عظیم مجاہد آزادی مولانا آزاد کا جنگ آزادی میں بھی اہم رول تھا ۔ آزادی کے ساتھ تقسیم ہند کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں بھی انہوں نے نمایاں رول ادا کیا ۔ وہ اقلیتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ “یہ تمہارا ملک ہے اور اسی ملک میں تم رہو گے” ، انگریزوں کے عہد حکومت میں مولانا ابو الکلام آزاد رانچی میں نظر بند رہے۔ اس دوران انہوں نے انجمن اسلامیہ سمیت کئی مدرسوں کی بنیاد بھی رکھی تھی ۔

مولانا آزاد کی تعلیم وتربیت

مولانا کے والدین ہندوستان میں آکر کلکتہ بسے یہاں پر ابتدائی تعیم اپنے والد سے حاصل کی کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا مگر ان کے والد ان کو نصاب کی کتابوں کے سواء کوئی کتاب پڑھنے نہیں دیتے تھے ، بڑے ہو کرمولانا نے اردو، انگریزی، فارسی اور عربی کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا جو کتاب ایک بار پڑھ لیتے دماغ میں محفوظ ہوجاتی جو شعرا یک بار سن لیتے عمر بھر کیلئے یاد ہوجاتا۔ انہوں نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا تھا۔ اخبار میں ان کے مضامین پڑھ کر لوگ سمجھتے کہ ان کا لکھنے والا کوئی بزرگ عالم ہے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ترجمان القرآن، تذکرہ اور غبار خاطر بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد نے سینکڑوں انقلابی مضامین الہلال خبار میں لکھے جس کے پڑھنے سے عوام میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی۔ مولانا آزاد بہت اچھے مقرر بھی تھے انہوں نے اپنی جوشیلی تقریروں سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑادی۔

  وطن کی آزادی کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے۔ گاندھی جی ان کی ذہانت، قابلیت ، اور تدبر کو مانتے تھے۔ جواہر لال نہرو ان کو بڑا بھائی کہتے تھے جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابو الکلام آزاد کو ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وزیر تعلیم، کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ ہندوستان میں تعلم وتعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کاکام بخوبی انجام دے سکیں۔

 مولانا آزاد نے سرسید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستانی عوام کے کندذہنوں کو تراش کر ان میں محنت اور آگےبڑھنے کا جوش پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری زندگی اپنے خواب کے تکمیل میں صرف کردی۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لاکر ایسا عمل شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر واصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کیلئے تیار کیا او رکہا کہ جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملاکر چلنے کی اہل نہیں ہوگی۔

  مولانا آزاد کا تعلیمی مشن اور ان کے ذریعہ کئے گئے اقدامات

مولانا آزاد کہا کرتے تھے کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا ہے ہمارے لئے ہرحال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اور اسی کام سے ہمیں دور رکھا گیا۔ مولانا آزاد نے اپنی تحریر وتقریرکے ذریعہ عوام میں بحیثیت وزیر تعلیم اس زمانے میں ملکی و ریاستی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے مرکزی، ریاستی سطح پر ملک میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے کئی اہم اقدام اٹھائے۔نئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں کاقیام عمل میں آیا۔ انہوں نے تعلیم وتحقیق کے جو مراکز قائم کئے ان میں سنگیت اکیڈمی، ساہیتہ اکیڈمی اور للت اکیڈمی قابل تعریف

انہوں نے تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت و حرفت کو بھی اہل وطن کیلئے ضروری قرار دیا۔ ان کی کوششوں سے 1948؁ء میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانا تھا جو اس زمانے میں نہیں تھی۔ 1956؁ء میں انہوں نے UGC کو قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر ہندوستانی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔ آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کیلئے آل انڈیا کونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ کا قیام کیا او رملک بھر میں ٹیکنیکی تعلیم کے نئے شعبہ قائم کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔

 انہوں نے 1951 میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کو قائم کیا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں ملک کے دیگرشہروں میں بھی اس طرح کے کالجوں کی شاخیں قائم کی گئیں جو اس دور میں ملک کی تعلیمی ترقی میں کوشاں ہیں۔ مولانا آزاد پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان میں تعلیم بالغان سے لوگوں کو متعارف کروایا۔ ملک کے ادبی او رتہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے شہروں میں ایجوکیشنل لائبریریاں قائم کیں جہاں بیٹھ کر لوگ اخبارات پڑھتے اور رسالوں کا مطالعہ کرتے کلکتہ کی نیشنل لائبریری مولانا آزاد کی کوششوں کا ثمرہ ہے جو قابل دید ہے۔

 وزارت تعلیم سنبھالنے کے بعد ۱۸ فروری ۱۹۴۷؁ء میں مولانا آزاد نے تعلیم کے تعلق سے اپنے بنیادی نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘ چنانچہ تعلیم وثقافت کے ضمن میں مولانا نے جو کام کئے ان میں سب سے اہم کوشش لکھنؤ میں دینی مدارس ، مکاتب اور دارالعلوم کے سربراہوں کی کانفرنس تھی، جس میں انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید معلومات اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا تھا، مولاناچاہتے تھے کہ مشرقی ومغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو، یہ ترقی پذیر ہندوستان کے لئے ان کا ایک پرخلوص جذبہ وکوشش تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔‘‘

مولانا آزاد کے تعلیمی نظریات

اگر ہم مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات کی بات کریں تو پتہ چلے گا کہ انکے نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے۔ ایک ذہنی بیداری، دوسرے اتحاد وترقی، تیسرے مذہبی رواداری اور چوتھے عالمی اخوت، مولانا کے خیال میں آزاد ہندوستان میں تعلیم کا سب سے اہم مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنا ہونا چاہئے کیونکہ انگریزوں کے طریقہ تعلیم نے نوجوان نسل کے لئے دو زہریلے نظریات پیدا کردیئے تھے ایک غلامی دوسرے علاحدگی پسندی، انگریزوں کے تعلیمی نظام کا مقصد حکومت کے لئے ایسے کارندے پیدا کرنا تھا جو ان کے کام آئیں، اسی مقصد سے انہوں نے علاحدگی پسندی کا بیج بویا اور طریقہ تعلیم کو اس کے لئے سب سے موثر وسیلہ بنایا، لہذا سب سے پہلے اس زہرکو نئی نسل کے ذہنوں سے نکالنا چاہئے اس کے بعد آزاد ہندوستان کے تعلیمی مقاصد میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو ملنا چاہئے جس کے نتیجہ میں ہم مغربیت کے بجائے اپنے شاندار ماضی پر فخر کرسکیں گے، مولانا تعلیم کو صرف ملازمتوں کے حصول کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کے وسیلہ سے ذہنوں میں بیداری لانے اورانہیں آئندہ زندگی میں خودکفیل بنانے پر زور دیتے تھے، تقریباً دو صدیوں تک مغربی اور انگریزی طرز تعلیم نے نئی نسل کو جس علامانہ ذہنیت اور تنگ نظری کا شکار بنادیا تھا، لوگ انگلستان جاکر تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے اور ملک کے علمی سرمایہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اس صورت حال میں تبدیلی لانا ضروری تھا ، پٹنہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا :

’’سوال یہ ہے کہ اب تک تعلیم پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ تھا، جو کچھ انہوں نے پڑھایا، ممکن ہے صحیح ہو۔جس طرح پڑھایا اس نے ہمارے ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کردیا ‘‘۔

مولانا نے ہر موقع اور ہر فکر وعمل میں درمیان کی راہ اپنانے کی تلقین کی، ان کے خیال میں آزاد ہندوستان کیلئے مغربی طرز تعلیم اور مشرقی طرز تعلیم کے درمیان کی راہ ہی مفید ہوگی اس لئے آئندہ ہمارا طریقہ تعلیم ایسا ہو کہ دل دماغ اور عقلیت وروحانیت میں توازن قائم رہے، نصاب اورطریقہ تعلیم کے بارے میں بھی ان کی رائے بڑی معتدل اور معقول تھی وہ نصاب ودرس کے تعلق سے جدید یت کے اور طریقہ تعلیم کے لحاظ سے قدیم کے قائل تھے۔ مولانا کے تعلیمی فلسفہ کی بنیا دمشرقی افکار اور مغربی نظریات میں ہم آہنگی وتوازن پر مشتمل تھی تاکہ نئی نسل میں جہاں سائنس کا صحیح استعمال آجائے، وہیں ا س کے ذریعہ ان مقاصد کا حصول بھی ممکن ہو جو انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ایک عالم دین اور مشرقی اقدار کے علمبردار ہونے کے باوجود مولانا نے سائنس اور مغربی ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر سمجھا، ان کے خیال میں جو اچھا ہے، جہاں سے ملے لے لو اور جو خراب ہے، جہاں بھی ہو اسے چھوڑ دو، یہی مولانا آزاد کا لائحہ عمل تھا اور زندگی بھر وہ اس پر کاربند رہے۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں مولانا ابوالکلام آزاد کے کچھ اہم اقوال پیش کیے جا رہے ہیں

تعلیم شخصیت سازی کا ذریعہ ہے:

’’ تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔‘‘

’’میں مسلمان ہوں اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے! میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر اتحاد کاایک حصہ ہوں۔‘‘

’’میں اعتقاد توحید و رسالت اور عمل صالحہ کو نجات کے لیے کافی سمجھتا ہوں۔ اس کے سوا مجھے اور کچھ معلوم نہیں، قرآن کریم مسلمانوں کا حقیقی امام ہے۔‘‘ (الہلال، جلد 4، شمارہ 1، صفحہ 24)

’’لوگ دنیا میں سینکڑوں قوتوں کے محکوم ہیں، ماں باپ کے محکوم ہیں اگرچہ وہ دنیا میں بغیر کسی زنجیر اور بیڑی کے آئے تھے۔ مگر دنیا نے ان کے پاؤں میں بہت سی بیڑیاں ڈال دی ہیں۔‘‘ (’آزاد کی تقریریں ‘، صفحہ 135)

’’جو رسوم و زوائید عوام کے فلاحی عقائد میں داخل ہو گئے ہیں ان کی اصلاح کا یہ طریقہ نہیں کہ ہم عوام کے جذبات کو مشتعل کریں۔ اس سے اصلاح نہیں ہو سکتی بلکہ اور نئی اجتماعی نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ‘‘ (آزاد کی کہانی، صفحہ 292)

’’جب تک میری زندگی مجھ میں اور لوگوں کے درمیان حائل ہے، شاید وہ میرے لیے کچھ نہیں کر سکتے، یعنی میرے حالات زندگی نہیں لکھ سکتے۔ صحیح وقت اس کا میرے بعد آئے گا۔ کیوں نہ اس کا انتظار کیا جائے۔‘‘ (’ابوالکلامیات‘، جمشید قمر، صفحہ 6)

’’سوال یہ ہے کہ اب تک تعلیم پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ تھا، جو کچھ انہوں نے پڑھایا، ممکن ہے صحیح ہو۔جس طرح پڑھایا اس نے ہمارے ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کردیا‘‘۔

’’گھریلو زندگی کے فرائض سے جس درجہ آج یہ قوم (مسلمان) غافل ہے، گھریلو زندگی کے فوائد سے جس درجہ آج یہ قوم نا آشنا و محروم ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے ان کی بدبختی پر جتنا ماتم کیا جائے بجا ہے۔‘‘ (’آزاد کی تقریریں‘، صفحہ 47)

’’میکالے کی یہ دلیل کہ سنسکرت اور فارسی کو ذریعہ تعلیم نہیں قرار دیا جا سکتا، غلط نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حجت لغو ہے کہ ذریعہ تعلیم صرف انگریزی زبان ہو سکتی ہے۔‘‘ (’آزاد کی تقریریں‘، صفحہ 176)

’’میرے بھائی میں نے ہمیشہ سیاسیات کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور کبھی اس پرخار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لیے ہوتی ہیں۔‘‘ (’ابوالکلام آزاد: سوانح حیات،‘، عرش ملسیانی، صفحہ 170)

drsalmannadwi@gmail.com