غربت کی آغوش میں پلتا بچہ’’شیوجی‘‘

شرف الدین عبدالرحمن
مکرمی!
غربت و افلاس ایک بہت بری بلا اور مصیبت ہے۔ یہ کتنی پریشان کن چیز ہوتی ہے اسے ایک غریب، مفلس اور محتاج شخص ہی جان اور محسوس کر سکتا ہے۔ جو لوگ مالدار ہیں اور جنہیں غربت و افلاس کی ہوا تک نہیں لگی ہے وہ کیا جانیں کہ غربت کیا چیز ہوتی ہے؟ جب انسان غریب اور مفلس بن جاتا ہے تو اس سے اسکا مال و دولت ختم ہونے کے ساتھ معاشرے سے اسکی عزت،آبرو،وقار،شرف و منزلت سب کھو جاتا ہے اور دین و ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے آج ہم آ ئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص نے بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔آپ اندازہ لگائیں کہ خود کشی کرنے والوں پر فقر و فاقہ اور مالی پریشانی کی وجہ سے کیا کیفیت طاری ہوئی ہوگی کہ مجبور ہوکر جان دینا اچھا سمجھا؟لیکن اس دنیا میں رہنا گوراہ نہیں کیا. اسی لئے اللہ نے قرآن کریم کی سورۃ النساء ، پارہ نمبر4، آیت نمبر5میں فرمایا ہے کہ اپنا وہ مال جو اللہ نے تمہارے کھڑا رہنے اور زندہ رہنے کا ذریعہ بنایا ہے، بیوقوفوں کو مت دو۔ آیت کریمہ کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ مال جو اللہ نے آپکو عطا کیا ہے اگر آپ اسے بیوقوفوں کے حوالے کر دیں گے تو وہ اسے ضائع کردیں گے اور پھر تم مالی تنگی کی وجہ سے پریشان ہوجاؤگے لہذا اپنا مال اپنے پاس سنبھال کر رکھو اور مناسب جگہ پر خرچ کرو۔ اسی طرح سورۃالماعون میں اللہ نے قریش کو کہا کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے تم کو بھوک کی حالت میں کھانا دیا۔ معلوم ہواکہ بھوک بہت ہی تکلیف دہ چیز ہے، ہم سب انسانوں کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ بات تو منجانب اللہ ہے کہ دنیا والے کچھ بھی کرلیں تمام انسان مالدار نہیں بن سکتے اور نہ ہی تمام انسان غریب و فقیر بن سکتے ہیں۔ دنیا کا نظام چلانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں غریب و امیر دو طرح کے انسان رہیں گے لیکن افسوس کی بات ہے کہ غربت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ آج تو دنیا کے دیہاتوں اور دیہی آبادیوں میں خصوصاً کم از کم 50فیصد انسان غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس بنیادی ضرورت کو بھی پورا کرنے کے بھی وسائل نہیں ہیں۔ انھیں پیٹ بھر کر کھانا، صاف پانی اور موسم کے اعتبار سے لباس و مکان تک دستیاب نہیں ہیں ۔ اگربیمار ہوجائیں تو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بغیر علاج کے تڑپ تڑپ کر آہوں اور سسکیوں میں جان دے دیتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال تک نہیں ہوتا۔
کچہ ایسی ہی کہانی ہے ایک معصوم کی ہے جسے ہم طلبہ جامعہ امام ابن تیمیہ”شیو جی” کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہے. اس معصوم سے چہرے کو تقریبا میں چار سالوں سے دیکہ رہا ہوں،ان کا قصور صرف اور صرف اتنا ہیکہ اس نے غربت وافلاس کی آغوش میں جنم لیا جس کی وجہ سے آج وہ ایک کالج اور یونیور سٹی میں ہونے کے بجائے ایک ہوٹل میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے،یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر روز بلا ناغہ ایک نہیں سینکڑوں لوگوں کے جوٹہے دہونے پڑتے ہیں سخت دھوپ اور گرمی ہوتے ہوئے سارے محنت کے کام کو انجام دینا پرتا ہے،تب بہی کبہی کوء ماں کی گالیاں دیتا ہے تو کوء بہن کی گالیاں دیتا ہے،مزید برآں یہ کہ بسا اوقات مالک بہی بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتہ چہوٹی موٹی غلطی کے پاداش میں سزا دیتا ہے اس معصوم سے چہرے پر ترس کہائے بغیر برس پڑتا ہے اور برجستہ یہ الفاظ انکی زباں پہ جاری ہوتا ہے کہ “بابو کے سسرال آئیل بارو،کام ٹہیک سے کرو نہ تو……..”
افسوس ہوتا ہے جب یہ منظر کبہی ہوٹل میں بیٹہے دیکہ لیتا ہوں حساس دل حیران اور پریشان ہوجاتا ہے،آنکہوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں،ذہن و دماغ میں رہ رہ کر یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ آخر اس معصوم کو کس غلطی کی سزا مل رہی ہے؟تو دل یہی جواب دیتا ہے کہ غلطی کچہ نہیں بس اتنی سی ہے کہ اس نے غربت کی آغوش میں جنم لیا جسکی وجہ سے آج مصائب وآلام ان کا مقدر بن کر رہ گء ہے.ضرورت اس بات کی ہے معاشرے میں جی رہے وہ مالدار اشخاص جنہیں رب نے مال وزر سے نوازا ہے اس کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے وہ ایسے غریب،مسکین اور لاچار ومجبور بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرے.
اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو غربت جیسی بلا سے محفوظ فرمائے.آمین(ملت ٹائمز)
متعلم جامعہ امام ابن تیمیہ چمپارن بہار

SHARE