مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تعلیم ضرروی

نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

قوموں کی ترقی ، بلندی ، کامیابی اور عظمت و رفعت میں سب سے نمایاں کردار علم نے عطا کیاہے ۔ تمام مخلوقات پر انسان کی فضیلت کی بنیاد بھی علم ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی وجہ سے فرشتہ اور دیگر سبھی مخلوقات پر اللہ تعالی نے برتری عطاء فرمائی تھی ۔ قرآن کریم میں باضابطہ اس کا تذکرہ بھی موجودہے اور واضح طور پر کئی مقامات پر قرآن نے کہاہے کہ انسان کو علم اور واقفیت کی وجہ سے ہم نے عظمت اور برتری عطا ءکی ہے ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت کریمہ کا تعلق سے بھی علم سے ہی ہے جس میں علم سیکھنے پر زور دیاگیا ہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ چودہ سو سالوں میں متعدد مرتبہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا غلبہ تھا ۔ خلافت راشدہ کے عہد سے لیکر 1923 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک مسلمان ہی اس دنیا کی سپر پاور قوم تھی۔ خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ، سلجوقی سلطنت اور خلافت عثمانیہ جیسی لمبی، طویل اور طاقتور سلطنت کی مثال تاریخ میں موجود ہے ۔ مسلمانوں کو یہ عروج ،غلبہ اور رعب و دبدبہ علمی ترقی ، سائنسی ایجادات اور مختلف علوم و فنون میں مہارات کی وجہ سے ملا تھا ۔ خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کا عہد سب سے زیادہ اہم ہے جس میں مسلمانوں نے علمی ترقی کی بے مثال روایت قائم کی اور آج بھی پوری دنیا مختلف علوم وفنون میں مسلمانوں کی رہین منت ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ بھی درج ہے کہ مسلمان مسلسل جدوجہد کرتے تھے ۔ جستجو اور تفتیش کا مادہ ان کی ذات میں پایا جاتا تھا۔ وہ ریسرچ اور تحقیق میں یکتائے روزگار تھے۔ ریسرچ ، تحقیق اور علمی دنیا میں مہارت پیداکرنے کا سلسلہ اب ہمیں دوبارہ شروع کرناہے ۔ خاموش بیٹھنے کے بجائے اگلے پچاس سال اور آنے والی نسلوں کا خیال رکھتے ہوئے ہمیں کچھ کرنا ہے ۔ یہ بھی ذہن نشیں رہنا ضروری ہے کہ جو کچھ کرناہے ہمیں خود کرنا ہے ، یہ ملک ہماراہے ،اسی زمین پر ہمارا جنم ہوا ہے اور یہاں رہنے کیلئے تحفظ ، مساوت اور آزادی کا حق حاصل کرنا بھی ہمیں خود ہے ۔ تراث اسلامی ہماری اساس اور بنیاد ہے اس پر کار پابند رہنا سب سے زیادہ ضرروی ہے ۔ قرآن و حدیث ہماری بنیاد ہے ۔ اسلامی شعائر ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں جاری جنگ ، نفرت کی مہم اور متعدد طرح کی تحریک کا مقصد اسلامی تعلیمات کا خاتمہ اور اسے پس پشت ڈالنا ہے ۔ یہ لڑائی مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ، اسلامی تعلیمات کے خلاف اوراسلامی فلسفہ کے خلاف ہے ۔ دنیا میں ایسے افراد کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جنہیں انسانی حقوق کے نام پر مسلمانوں سے ہمدردی ہے، وہ مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں لیکن یہ جاننا ہے ضرروی ہے کہ ایسی سرگرمیوں کا تعلق مسلمانوں سے محبت کی بنیاد پر ہے اسلام سے محبت اور لگاؤ کی بنیاد پر نہیں ہے ۔بحیثیت مسلمان اسلام کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا اور اس کی تعلیمات کو عام کرنا ہمارے فرائض میں سر فہرست ہیں ۔ اس مشن ، مقصد اور عز م کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ملک کے موجود ہ حالات کو بدلناہے ، آئندہ سطور میں ہم اس حوالے سے کچھ تفصیلات پیش کرنے جارہے ہیں ۔

 حالات کا مقابلہ کرنے اور مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے چار میدانوں میں کام کرنا سب سے اہم جس میں پہلے نمبر پر حصول علم ہے ۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی ، کامیابی اور کامرانی کیلئے ضرروی ہے لیکن ہم اس میدان میں آج بھی بہت پیچھے ہیں ۔ تعلیم پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ، ایک مشن اور مقصد کے تحت تمام ذی شعور مسلمانوں کو یہ عزم کرنا چاہیئے کہ سماج کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو ۔ یہاں یہ وضاحت ضرروی ہے کہ تعلیم سے مراد نفس تعلیم ہے خواہ ابتدائی تعلیم ہو یا اعلی تعلیم تاہم ہر ایک کا بنیادی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ، کوانٹیٹی ایجوکیشن سے ہی کوالیٹی ایجوکیشن پیدا ہوگی اور اس کیلئے ایک مہم اور تحریک چلانے کی ضرروت ہے کہ قوم کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہوجائے۔ جنگ بدر کے گرفتار قیدیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تدریسی خدمات حاصل کی تھی۔ جنگ کا طریقہ یہ تھاکہ گرفتار قیدیوں کو معاوضہ لیکر رہا کیا جاتا تھا جن کے پاس معاوضہ دینے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تھا، انہیں غلام بنالیا جاتا تھا ۔ جنگ بدر میں جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان میں سے کچھ تعلیم یافتہ تھے چنانچہ حضور ﷺ نے کہاکہ وہ صحابہ کرام اور مسلمانوں کو پڑھا دیں یہی ان کی طرف سے رہائی کا معاوضہ ہوگا ۔ جنگی قیدی اس وقت سبھی کے سبھی کا فر تھے اور انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم دی تھی یہ تعلیم یقینی طور پر مذہب کی تعلیم نہیں تھی بلکہ اس وقت کے لحاظ سے عصری علوم تھے جسے مسلمانوں نے سیکھا ۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ علم کسی سے بھی سیکھا جاسکتا ہے ،کہیں بھی سیکھا جاسکتا ہے اور ہر طرح کا علم سیکھنا اور جاننا ضروری ہے ۔ نفس تعلیم کے بعد کوالیٹی ایجوکیشن کا مرحلہ آتا ہے ۔ ایک منصوبہ اور ایجنڈا کے تحت قوم کے ایک طبقے کیلئے کوالیٹی ایجوکیشن کی فراہمی ضروری ہے ۔ ہم اپنے درمیان سے ایک ایسا طبقہ پیدا کریں جو نظریہ ، عقیدہ اور فکری لحاظ درست ہو۔ ان کے اندر ملت کی خیر خواہی ہمدردی اور فکر مندی پائی جاتی ہو ایسے افکار و نظریات کے حامل اشخاص کو کوالیٹی ایجوکیشن فراہم کرنا، یوپی ایس سی اور دیگر اعلی تعلیم سے سرفراز کرکے انہیں اہم عہدوں تک پہونچانے کیلئے کوششیں کرنا بھی ہمارے منصوبے میں شامل ہونا چاہیئے ۔

 موجودہ ماحول میں دوسرا اہم کام ٹیکنالوجی پر توجہ دینے کا ہے ۔ مستقبل ٹیکنالوجی کا ہے ۔ اس میدان میں مہارت پیداکرنے والے آج پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں کرچکے ہیں۔ بغیر کسی ظاہری طاقت، دولت، فوج اور ظاہری اسباب کے باوجود ٹیکنالوجی کے ماہرین آج پوری دنیا پر حکومت کررہے ہیں، وہ طاقتور ، مضبوط اور غالب ہیں اور یہی چیزیں آج مجموعی طور پر غلبہ کی وجہ بن چکی ہیں۔ اس لئے ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کیلئے ضرروی ہے کہ وہ اس میدان میں زیادہ سے زیادہ مہارت پیدا کریں۔ آگے بڑھیں اور عزم و حوصلہ کے ساتھ کام کریں ۔

تیسری اہم اور بنیادی چیز قانون کی تعلیم ہے ۔ ہرملک کی بنیاد آئین اور دستور پر ہوتی ہے ۔ ہندوستان سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں اقلیتوں کو آئین کی وجہ سے ہی تحفظ ، مساوات اور انصاف مل پاتا ہے ۔ عدالتوں میں مقدمہ لڑنا ، اپنی بات مضبوطی کے ساتھ پیش کرنا جمہوریت میں ایک بنیادی اور کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ وکلاء اپنی مہارت ، خصوصیت اور آئین پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے مظلوموں ، کمزوروں اور بے بسوں کو انصاف دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ جمہوریت کی بقا، نشو و نما اور ترقی کیلئے بھی وکالت ضروری ہے۔ اس لئے وکالت کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرروت ہے، ماہر وکلاء کی ٹیم کا تیار ہونا انتہائی ضرروی ہے تاکہ وہ عدالت میں مضبوطی کے ساتھ مقدمات لڑسکیں ۔ انصاف کی لڑائی لڑنے پر قدر ت رکھیں ۔اس کیلئے ایک منصوبہ اور مشن کے تحت ہمیں اپنے درمیان وکالت کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی ۔ جو لوگ اس میدان میں ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ۔

چوتھی چیز میڈیا سے وابستگی ہے ۔ حالیہ دنوں میں میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ میڈیا کا غلبہ بہت زیادہ ہوچکا ہے ، سماج، انتظامیہ اور حکومت کو متاثر کرنے میں میڈیا بنیادی رول نبھارہاہے ایسے میں بہت ضرروی ہے کہ مسلمانوں کی اس شعبہ میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہو۔ قوم کے ہونہار بچے میڈیا کے میدان میں کام کریں۔ صحافت سے وابستگی اختیا ر کریں ۔ ماس میڈیا یا دیگر طرح کا کورس کرکے اس شعبہ کے بلند ترین مقام تک رسائی حاصل کریں ۔ ذرائع ابلاغ کے دیگر ذرائع اور طریقوں میں مہارت پیدا کریں اور اس ذرائع سے اپنی بات خوبصورتی کے ساتھ دوسروں تک پہونچانے کا ہنر سیکھیں ۔ میڈیا کی اہمیت ہر زبان اور ہر خطہ میں قابل قدر ہے ۔ اس لئے تمام علاقائی اور قومی زبان میں میڈیا سے وابستگی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیئے۔ کیوں کہ یہ چیزیں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور مستقبل کے پچاس سالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس میدان میں کام کرنا ضرروی ہوگیا ہے ۔

مذکورہ چاروں میدانوں پر توجہ دینے اور یہاں کام کرنے کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنانا اور اس پر کاربند رہنا بھی ناگزیر ہے ۔ اعلی تعلیم یافتہ ، ماہر وکیل ، بے باک صحافی کے ساتھ یہ بھی ضرروی ہے کہ قوم کے ایسے افراد میں تراث اسلامی موجود ہو ۔ وہ اسلامی ثقافت ، عقائد اور ایمان کے لحا ظ مضبوط ، فعال اور بیدار ہوں ۔ بلامبالغہ اسلامی تہذیب کی مضبوط ومستحکم بنیادوں نے قیامت تک کیلئے اور آنے والی تمام نسلوں کیلئے ایک شاکلہ قائم کردیا ہے جس کے چاروں طرف روشن قندیلیں ہیں ۔ ان میں سے پہلی قندیل قرآن و سنت کے ذریعہ امن و سلامتی کے راستہ تک پہونچنا اور تاریکی سے روشنی کی طرف کوچ کرنا ہے ۔خالق کائنات ہر اس انسان کو سلامتی تک پہونچا دیتا ہے جو اس کی رضا چاہتا ہے ۔تمام طرح کی تاریکیوں اور ضلالتوں سے نکال کر اسے نور کے راسے پر گامزن کرتا ہے ، پھر اسے صراط مستقیم پر چلنے اور اس پر گامزن رہنے کی ہدایت دیتا ہے ۔ ان قندیلوں میں سے ایک قندیل کتاب الٰہی ہے ۔ دوسری قندیل سنت ہے ۔ تیسری قندیل ایمان ہے ۔ چوتھی قندیل اعتدال و توازن ہے پانچویں قندیل حق کی گواہی ہے ۔ چھٹی قندیل عدل و انصاف ہے۔ انہی قندیلوں کی روشنی میں اسلامی تہذیب کا سفر شروع ہوا اور پوری دنیا میں اسلام پھیل گیا ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کا غلبہ رہا اور سبھی خطہ ، علاقہ نے اسے قبول کیا ۔اس طرح اسلامی تہذیب کو آفاقیت ملی اور آج دنیا کی یہ ایک عالم گیر تہذیب ، ثقافت اور ورثہ ہے جس کے پیروکار پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی میں زندگی کا حسین لطف میسر ہوتا ہے ۔

ساتویں قندیل غریبوں کی مدد ، محتاجوں کا تعاون اور اکرامِ انسانیت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ وسلم کی سیرت کے اس حصے کا مطالعہ کریں جس کا مکی دور سے تعلق ہے ۔ اگر اس پر ہم عمل کرتے ہیں تو یقینی طور پر ہمیں بہت سارے ابوطالب مل جائیں گے جن کی انسانیت کی بنیاد پر ہمیں ہمدردی حاصل ہوگی ۔ ظلم کے خلاف جنگ میں وہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ آج بھی بہت سارے لوگ ہیں جو انسانیت اور انسانی ہمدرد کی بنیاد پر ہر جگہ ہمارے ساتھ ہیں ۔ ہماری اخلاقی ، تعلیمی ، سماجی اور معاشی صورت حال بہتر رہتی ہے، ہم حضور پاک ﷺ کی زندگی کو اپنے لئے لائحہ عمل بناتے ہیں ، جذبات اور شدت کے بجائے حکمت و مصلحت سے کام لیتے ہیں تو یقینی طور پر انہیں لوگوں کے درمیان سے ہمارے خیرخواہ اور معاون پیدا ہوجائیں گے جو ہمارے بدترین دشمن ہیں ، یہی لوگ ہماری صف اول کے مددگار ہوں گے، اس کیلئے ایک طویل جدوجہد ، منصوبہ اور حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس کی پہلی کڑی وہ چار چیزیں ہیں، جس کا شروع میں ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ کوانٹیٹی اور کوالیٹی ایجوکیشن کا فروغ۔ ٹیکنالوجی میں مہارت ۔ وکالت کی تعلیم پر خصوصی توجہ اور میڈیا سے وابستگی کو خصوصی اہمیت دیں تو انشا ءاللہ 2050 کے بعد حالات بدلیں گے ۔

ملک اور موجودہ سماج میں یہ کام کرنا ضرروی ہوگیا ہے ۔ اس کی اہمیت اور افادیت سے ہرگز انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ بر سبیل تذکرہ یہ بتانا مناسب ہوگا کہ ملک کی معروف تنظیم آل انڈیا ملی کونسل اس ضمن میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے ” مشن 2050 کا “ جس کے تحت آل انڈیا ملی کونسل کا عزم تعلیم کو ہر گھر تک پہونچانے اور ملت میں بیداری پیدا کرنے کا ہے ۔ ملک کی دیگر چھوٹی اور بڑی تنظیموں کو بھی چاہیئے کہ وہ یہ منصوبہ اپنے ایجنڈا میں شامل کریں اور اس مہم کو عام کریں خاص طور پر وہ ادارے توجہ دیں اور غور و فکر کریں جو تعلیم پر کام کرتے ہیں،اس میدان میں مسلسل لگے ہوئے ہیں کہ یہ مہم کیسے عام ہوگی اور تعلیم کیسے 2050 تک تحریک کا حصہ بن سکے گی ۔

 حالات چیلنجنگ ہیں اور زندہ قومیں چیلنجز کو قبول کرتی ہیں۔ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے اگر ہمارے عز م اور حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم عزم کریں ، حوصلہ کریں اور انسانیت کی سربلندی کیلئے آگے بڑھیں، کمزوروں، مظلوموں اور دیگر طبقات کو ساتھ لیں۔ انشاء اللہ حالات میں تبدیلی آئے گی ۔ 2050 کے بعد ملک کا منظرنامہ تبدیل ہوگا ۔ ہماری جدوجہد اور کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں ہوگی ۔

(مضمون نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ہیں )