مہاراشٹرا میں ٹھاکرے راج ۔ہندتوا ور سیکولرزم

شمس تبریز قاسمی
خبر در خبر (623)
2019 میں ایک طرف جہاں بی جے پی نے لوک سبھا کے عام انتخابات میں تاریخی جیت حاصل کی ہے تو وہیں اسی سال ملک بھر میں اس کے زوال کا بھی آغاز ہوگیا ہے ۔ 2017 میں ملک کے 71 فیصد حصے پر بی جے پی کی حکومت تھی اور آج یعنی نومبر 2019 میں 40 فیصد تک ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت محدود ہوگئی ہے ۔ مہاراشٹرا کے سیاسی ڈرامہ میں امت شاہ کی خاص شناخت اور پہچان چانکیہ والی خصوصیت بھی متاثر ہوئی ہے اور شرد پورا اب چانکیہ کے باپ کہے جارہے ہیں ۔ گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں کا یہ ریکاڈ ہے کہ بی جے پی نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی کئی ریاستوں میں اپنی سرکار بنالی اور اس کا کریڈٹ امت شاہ کو دیاگیا تاہم مہاراشٹر میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بنی ، این ڈی اے اتحاد کی جیت ہوئی لیکن سرکار بنانے کی پوری کوشش ناکام ہوئی ۔ اجیت پوار کو استعمال کرکے بی جے پی نے این سی پی کو توڑنے کی کوشش کی لیکن شرد پوار کی مستعدی کے سبب یہ ناپاک سازش ناکام ہوئی ۔ 23نومبر کے اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے ۔ ادھو ٹھاکر ے پورے پانچ سالوں کیلئے مہاراشٹرا کے وزیر اعلی بنیں گے لیکن ٹی وی چینلوں کے ذریعہ خبر ملی کہ فڑنویس نے رات کے اندھیر میں وزیر اعلی کے عہدہ کا حلف لے لیاہے اور اجیت پوار نائب وزیر اعلی بنے ہیں ۔78 گھنٹہ تک یہ ڈراما چلتارہا اور بالآخر فڑنویس اور اجیت پوار کو استعفی دینا پڑا ۔ بی جے پی کی ایسی ذلت اور رسوائی گذشتہ پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ ہوئی ۔
ادھو ٹھاکرے اب مہاراشٹرا کے وزیر اعلی بن گئے ہیں ۔ ٹھاکر ے خاندان کے یہ پہلے وزیر اعلی ہیں اب تک ممبئی اور مہاراشٹر میں ٹھاکرے پریوار کی حکومت رہی ہے لیکن اس فیملی سے کوئی وزیر اعلی نہیں بناتھا ۔ اس پورے ڈرامہ کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ شیو سینا نے ہندتوا کی سیاست سے توبہ کرلیاہے ۔ کانگریس اور این سی پی کے ساتھ شیوسینا نے ایک مشترکہ پروگرام جاری کیاہے جس میں کہاہے کہ اب وہ نفرت ، تشدد اور ہندتوا کی سیاست نہیں کرے گی بلکہ سیکولر اقدار پر مبنی سیاسی اننگ کی یہاں شروعات کرے گی ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ کانگریس اور این سی پی نے شیو سینا کو ہندتوا کی راہ سے ہٹاکر سیکولرزم کی راہ پر گامز ن کردیاہے یا پھر یہ بھی ہوسکتاہے کہ شیو سینا نے کانگریس اور این سی پی کو ہندتوا والی سیاست کا حامی بنادیاہے ،آنے والے دنوں میں فیصلہ ہوجائے گا کہ کس نے کس کا نظریہ تبدیل کیاہے ۔
یہ سچ ہے کہ شیو سینا ہندتوا کی سیاست کرتی رہی ہے تاہم اس کا ہندتوا آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندتوا سے بہت الگ ہے ۔ اس کی بنیاد میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مراٹھا اور مہاراشٹر کے باہروالوں سے نفرت او رتعصب ہے اور یہی اس کی خصوصی شناخت بھی رہی ہے۔ اس سلسلے میں ممبئی کے معروف عالم دین مولانا محمود دریادی کا ایک مضمون ملت ٹائمز میں شائع ہواہے ، اس کے کچھ حصے ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے دونوں کے درمیان فرق سمجھنے میں مددملے گی ۔
”بی جے پی سنگھ پریوار آر ایس ایس کا حصہ ہے، جس کی مخصوص آئیڈیالوجی ہے، ہندوتوا، یونی فارم سول کوڈ اور اکھنڈ بھارت وغیرہ آرایس ایس کے نظریات کا حصہ ہیں، بی جے پی ہمیشہ سے ان نظریات کی پابند رہی ہے، جس زمانے میں بھاجپا کی صرف دو سیٹیں تھیں تب بھی وہ سنگھ کا حصہ تھی، اگرچہ طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر تھی، اب تنہا تین سو سیٹوں پر قابض ہونے کے بعد اپنے ایجنڈے پر بلا کسی خوف کے عمل کررہی ہے۔ شیوسینا کا معاملہ دوسرا ہے، ا±س کا قیام مراٹھی اسمیتا ( وقار) کو بلند رکھنے کے نام پر ہوا تھا، چنانچہ 1960 میں ریاست مہارشٹرا کے قیام بعد جب یہ تنازعہ ہوا کہ بمبئی کو مہاراشٹرا کا حصہ بناجائے یا گجرات کا، اس موقع پر شیوسینا نے گجراتیوں کے خلاف ” امچی ممبئی ” نامی تحریک چلائی، یہ تحریک ہندومسلم کے نام پر نہیں تھی، اس کا نشانہ صرف گجراتی تھے۔اسی تحریک سے شیوسینا کی پہچان بنی۔ کچھ دنوں کے بعد جنوبی ہند کے باشندوں کے خلاف شیوسینا نے زبردست تحریک چلائی، یہ بھی فرقہ کی بنیاد پر نہیں تھی، گجراتیوں کی طرح جنوبی ہند کے باشندے بھی زیادہ تر ہندو تھے اس تحریک کے بعد شیوسینا کے قدم مزید جم گئے۔اسی دوران کانگریس نے ممبئی کے کارخانوں اور ملوں سے کمیونسٹوں کا زور ختم کرنے کے لئے شیوسینا کا استعمال کیا، ہرجگہ شیوسینا کی یونین قائم کروائی جس نے بزور بازو (شیوسینا اسٹائیل میں ) کمیونسٹوں کو اس طرح ختم کیا کہ آج مہاراشٹرا میں ان کا نشان بھی بمشکل بچ پایا ہے۔ کمیونسٹوں سے کامیاب مقابلے کے بعد شیوسینا کے قدم مہاراشٹرا میں مضبوطی کے ساتھ جم گئے۔ اسی طرح سینا نے شمالی ہند کے باشندوں کے خلاف بھی بار بار زہریلے بیانات میں بھی ہندو مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا۔ 1970 میں بال ٹھاکرے کے جلوس پر حملے کی وجہ سے بھیونڈی میں فساد ہوا، اس فساد میں پہلی بار شیوسینا مسلمانوں کے خلاف میدان میں آئی، 1984 کے ممبئی فساد کے موقع پر بھی شیوسینا مسلمانوں پر تشدد میں سرگرم رہی، برسر اقتدار کانگریس کی نرمی وچشم پوشی کی وجہ سے ممبئی میں بال ٹھاکرے کی شخصیت ناقابل تسخیر سمجھی جانے لگی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف پورے ملک میں فسادات ہوئے، مگر ممبئی میں سکھ فرقے کے کچھ بڑے لوگوں نے بال ٹھاکرے سے ملاقات کرکے مہاراشٹرا کے سکھوں کو اپنی امان میں رکھنے کی درخواست پیش کی اور مبینہ طور پر معقول معاوضہ بھی ادا کیا اس طرح کے اقدامات سے شیوسنا کی جارحانہ شبیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ 1992-93 میں بابری مسجد کے خلاف تحریک کے دوران شیوسینا اور بھاجپا قریب آئے، بابری مسجد کے انہدام کا سب سے پہلے اعلانیہ کریڈٹ لے کر اور اس زمانے میں ہونے والے ہولناک فسادات میں شیوسینکوں کی کھلے عام شرکت کی وجہ سے بال ٹھاکرے ” ہندو ہردے سمراٹ ” بن گئے، ا±سی کے بعد سے بننے والی مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں بھاجپا اور شیوسینا ساتھ ہونے لگے“۔(مولانا محمود دریا بادی کے مضمون سے اقتباس )
مہاراشٹرا کی سیاست کا سب سے اہم سبق بی جے پی کیلئے یہ ہے کہ ہندوستان کی خمیر میں سیکولرزم اور گنگاجمنی تہذیب ہے ،ہندتوا او رنفرت کی سیاست یہاں زیادہ دنوں تک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔ شیوسینا آج سیکولرزم کی بات کرنے لگی ہے ،بی جے پی کیلئے بھلائی اسی میں ہے کہ وہ نفرت اور ہندتوا کے بجائے ہندوستان کے آئین کے مطابق سیکولر اقدار پر مبنی سیاست کرے ،یہی ملک اور تمام عوام کے حق میں بہتر ہے ورنہ آنے والے دنوں میں اسے مزید نقصان اٹھانا ہوگا ۔ مہاراشٹرا کی نئی حکومت کو مبارکباد ،نیک خواہشات اس امید کے ساتھ یہ سرکار آئین،اقلیت اور کمزوروں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے گی ۔