احمد شہزاد قاسمی
جنگِ طرابلس میں ترک حکومت نے ایک سال کی جنگ کے بعد اکتوبر 1912میں ہتھیار ڈال کر ایک معاہدہ کے تحت طرابلس (موجودہ لیبیا اور لبنان کا علاقہ) پر اٹلی کا قبضہ تسلیم کرلیا تھا لیکن مقامی قبائل نے غیر ملکی قابضین کے خلاف اپنی جدو جہد جاری رکھی ان کے ہزاروں افراد شہید ہوئے ان شہیدوں میں ایک کمسن مجاہدہ بھی شامل تھی جس کو “فاطمہ بنت عبد اللہ” کے نام سے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی وہ اپنا چھوٹا سا مشکیزہ اٹھا کر مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی تیمار داری میں لگی رہتی تھی غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے ہی وہ شہید ہوگئی مولانا آزاد رحمہ اللہ نے “الہلال” میں ایک جاندار اداریہ لکھ کر اس کمسن مجاہدہ کے جذبہ کو سلام کیا علامہ اقبال نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور تڑپ کر ایک نظم لکھی جس کا پہلا مصرع ہے ” فاطمہ! تو آبروئے ملتِ مرحوم ہے؛
ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال میں ہماری یونیورسٹیز خاص کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات کی جدو جہد اس کمسن مجاہدہ کا تصور ذہن میں پیدا کر رہی ہیں جو بندوق اور توپوں کی تڑتڑاہٹ سے بے نیاز جذبہ ملی سے سرشار مصروفِ عمل ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت اور وجود کومٹانے کی جو آئینی اور غیر آئینی کوششیں ہورہی ہیں انہیں میں سے ایک شہریت ترمیمی بل (سٹیزن شِپ امینڈمنٹ بل) اور این آرسی کا نفاذ ہے۔
شہریت ترمیمی بل (کیب) پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہوکر کٹھ پتلی “صدرجمہوریہ ہند”کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے اس کے بعد پورے ملک میں این آرسی کا نفاذ ہوگا جس میں ہندوستان کے شہریوں سے ان کی شہریت کا ثبوت مانگا جا ئے گا جو لوگ حکومت کی منشا کے مطابق شہریت کا ثبوت اور سر ٹیفکٹ جمع نہیِں کر پا ئیں گےوہ آن کی آن میں غیر ملکی ہو جا ئیں گے برسوں کی ان کی زٰمین جائیداد ختم ہو جا ئے گی ان کے آبا و اجداد کی ملک کے لئے دی گئی قربانیاں رائیگاں ہو جائیں گی، اس اندوہناک صورتِ حال سے صرف مسلمان ہی اذیت میں مبتلا ہونگے کیونکہ ہر غیر مسلم شخص کو شہریت ترمیمی بل کے تحت ہندوستان کی شہریت دے دی جائے گی اور مسلمانوں کے لئے “ڈی ٹینشن سینٹر یا تبدیلئ مذہب کا راستہ ہوگا ۔
اس سیاہ بل (کیب) اور این آرسی کے نتیجہ میں مسلمانانِ ہند کے لاکھوں افراد پر ارتداد کے بادل منڈلانے کا اند یشہ ہے ظا ہر ہے کہ جب ایک غریب ان پڑھ مسلمان اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے گا اور شہریت کے ثبوت کے لئے بھاگ دوڑ اور روپیہ پیسہ بھی خرچ نہیں کر پائے گا کیمپ کے بدبودار کمروں میں جانوروں کی طرح اذیت ناک زندگی بھی نہیں گزار پائے گا تو اس کے لئے آسان کام تبدیلئ مذہب کا ہوگا ۔
اس سیاہ قانون کی سنگینی اور اس کے نتیجہ میں پھیلنے والے ارتداد کے جن اندیشوں کو ہماری مذہبی وملی قیادت نہیں سمجھ پائی اس کو ہماری جامعات اور یونیورسٹیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور خاص کر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبا وطالبات نے خوب خوب سمجھاانہوں نے اپنی دور اندیشی سے سمجھ لیا اگر اس قانون (کیب) کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تو ہندوستان میں وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس ملک کا مسلمان کھیت میں محنت کر کے غلہ پیدا کرے گا لیکن اس پر مالکانہ حق کسی خاص قوم کا ہوگا اسی لئے وہ پوری قوت سے اس قانون کے خلاف میدان میں اتر آئے ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اے ایم یو کے طلبا جمہوری طریقہ سے اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں لیکن پولیس ان سے ان کا یہ حق بھی چھجن رہی ہے ان پر ظلم وتشدد کے سارے ہتھیار آزما رہی ہے یہ بچے سنگینی کے سایوں میں ہیں لاٹھیوں سے بدن چور ہے زہریلی گیس سے آنکھیں شوریدہ ہیں گولیوں کی تڑ تڑا ہٹ ہے جامعہ کے ہاسٹل لائبریری کیمپس اور مسجد میں پولس اور فوج نے جو کشت وخون کا بازار گرم کیا ہے اس سے ہزاروں بچوں نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اب وہ موت سے واپسی پر یقین رکھتے ہیں سینکڑوں طلبا زخمی ہوکر ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں لیکن اس کے باوجود جذبہ ملک وملت سے سرشار ہیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ جامعہ تو ملت کی آبرو ہے پوری ملت کو تجھ پر فخر ہے کہ تیری شاہین بچیوں نے “فاطمہ بنت عبداللہ” کے کردار کو ایک بار پھر زندہ کردیا ۔
پس مبارک ہے وہ قوم جس کی جامعات ایسی لڑکیوں کو اپنی گود میں دیکھتی ہیں اور ہزار حسرت اس قوم پر اس جماعت پر اس تنظیم پر جس کے قائدین بھی ملت پرستی اور قربانی کی لذت سے ناآشنا ہیں ۔
جامعہ کے یہ بچے سرد موسم میں پولس کی لاٹھیاں کھا کر ملک وقوم کو زندگی کی راہ بتا رہے ہیں ۔
یہ ایک سچا مجاہد گروہ ہے جس کے جذبات خالص جس کی نیتیں مقدس ہیں یہ کوئی ایسی جنگی جماعت نہیں جسے بادشاہتیں اور حکومتیں تنخواہیں دے کر تیار کرتی ہیں بلکہ یہ وطن پرستی کا ایک پاک مجمع محبتِ مل کی ایک خود فروش برادری ملک پرستی کا ایک حلقۂ فدا کار ظلم وسفاکی کے مدافعین اور آئیں ودستور کے محافظین و صادقین کی اولوالعزم جماعت ہے جو قوم اور اس کے قائدین کی منتظر ہے ۔