ممبئی پولس کے انسپیکٹر جنرل جناب قیصر خالد سے احمد علی صدیقی کی خاص بات چیت
عروس البلاد ممبئی میں محمکہ پولیس کے IGP کے عہدہ پر فائز عالی جناب قیصر خالد صاحب سے پیام سدرہ کے مینیجنگ ایڈیٹر جناب احمد علی صدیقی نے ملک کی موجودہ صورت حال اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے سلسلے میں بات چیت کی ہے ،،گفتگو کے اہم اقتباسات ملت ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
سوال: آپ نے پیام سدرہ کے لئے جو وقت دیا ہے ہم اس کے لئے آپ کے شکرگزار ہیں، ہمارا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آپ محکمۂ پولس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور آپ نے یہاں تک پہنچنے کے لئے ایک مشقت بھرا علمی سفر طے کیا، اس کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں۔
جواب: ہمارا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے جہاں صرف چوتھی کلاس کی تعلیم ہوا کرتی تھی، ہم نے اپنی تعلیم کی شروعات اپنے نانیہال سے کی اس کے بعد پاس کے شہر سے دسویں کلاس پاس کی۔ اس کے بعد شہر پٹنہ کے مشہور و معروف سائنس کالج سے ہم نے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد پٹنہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں تک کا جو علمی سفر تھا اس میں بہت سارے لوگ میری رہنمائی کرتے رہے اور مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ ہم نے اپنے اندر ایک جذبہ یہ پیدا کر رکھا تھا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کرنے اور دوبارہ اس غلطی کو نہ کرنے کا، اسی طرح اگر اچھائیاں کسی کے پاس ہوں تو اس کو اپنے اندر جذب کر لینا ہے انسان کے اندر اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہوتی ہیں، ہمیں ان کی برائیاں نظرانداز کرنا چاہئے اور اچھائیوں کو اختیار کرنا چاہئے اس طرح دھیرے دھیرے ہمارے اندر بھی اچھائیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس طرح ہم نے لوگوں کی اچھائیوں کو اپنے اندر جذب کیا اور ان چیزوں سے خود کو دور رکھا جس میں مشغول ہو کر لوگ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے گاؤں دیہاتوں میں تاش کھیلنا، جھوٹ بولنا، کام چوری، آج کا کام کل کرنا، اپنے کام دوسروں کے سر تھوپنا، ان تمام چیزوں سے میں نے خود کو دور رکھا۔ دوسری بات جو میں نے لوگوں کے اندر محسوس کی کہ وہ وسعت سے زائد خرچ کرتے ہیں اور ایک ایسی زندگی گزارتے ہیں جن میں وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ان سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ انسان کا اپنے وسائل اور حدود کے درمیان رہنا ہی بہتر عمل ہے خصوصاً اسّی نوے کی دہائی جس میں عام طور پر لوگوں کے پاس انکم بہت کم ہوا کرتی تھی، میرے والد صاحب ٹیچر تھے اور پاس تھوڑی بہت جائداد بھی تھی اس کے باوجود ہم نے زیادہ خرچے کرنے سے خود کو دور رکھا۔ سب سے بڑی بات ہمیں حالاتِ حاضرہ پر نگاہ رکھنا ضروری ہے اور اس بات پر غور کرنا ہے کہ آگے کیا ہوگا اس کو جاننے کی کوشش کرنا، اس کے بارے میں پڑھنا، اس سے کچھ اخذ کرنا ہمارا مقصد ہو، اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے جو کتاب دستیاب ہوتی اس کو پڑھتا۔ اتنا نہیں بلکہ اس کوشش میں میں نے بہت ساری میگزین پڑھ ڈالیں، حالانکہ اس وقت بہت سی باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں لیکن اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بچپن میں پڑھنے کی عادت پڑی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو چیز مشکل نظر آتی اس پر دوگنی محنت کر کے اس کو آسان کر لیتا جس کی ایک موٹی سی مثال پیش کرتا ہوں جب میں دسویں کے بعد پٹنہ سائنس کالج میں گیارہویں میں گیا تو وہاں مکمل تعلیم انگریزی میں تھی جبکہ دسویں کا امتحان میں نے اردو میں لکھا تھا، اب اردو سے انگریزی میں خود کو شفٹ کرنا بڑا مشکل مرحلہ تھا اور مجھے یہ بات معلوم تھی کہ دسویں کے بعد جو آگے سفر درپیش ہے وہ انگریزی کے بغیر محال ہے، دسویں کے امتحان کے بعد رزلٹ آنے میں جو دو تین ماہ کا وقفہ ملا اسی وقفہ میں میں نے انگریزی سیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، انگریزی پڑھنے کی کوشش کرنے لگا، ریڈیوں میں انگریزی چینل سننے لگا تاکہ انگریزی کا لہجہ اور انداز گفتگو معلوم کر سکیں اسی طرح ہم نے گیارہویں میں محنت کی اور دھیرے دھیرے انگریزی زبان پر قابو پا لیا، اس کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ہمت ہارنا حوصلے کو پست کرناہمارا شہوہ نہیں ہے، اس طرح اپنا سفر جاری رکھا اور سفر آسان ہوتا چلا گیا نیز میں نے بائلوجی سے انٹر پاس کیا۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ستّر فیصد سے زیادہ میڈیکل میں چلے گئے، ہمارے ہوسٹل میں چند لڑکے ایسے تھے جنہوں نے میڈیکل کا امتحان نہیں دیا انہیں میں سے میں بھی تھا اور ہم میڈیکل کے بجائے سول سروسز میں چلے گئے، ظاہر سی بات ہے سائنس سے آرٹ کی طرف آنا ایک بڑا چیلنج کا کام تھا، لوگ یہاں تک کہنے لگے کہ ایک وہ کیرئیر جو آپ کو مل سکتا تھا اسے چھوڑ کر ایسے کیرئیر کی طرف جا رہے ہو جس کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں آپ یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ایک یقین تھا رب پر اور خود کی محنت پر۔ پھر میں نے کوشش کی خود کو مشغول رکھا اور ساری توجہ تعلیم پر لگا کر لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے لوگ ناراض ہو گئے اور مغروراور خود غرض کہنا شروع کر دیا۔ میں نے ان لوگوں سے صرف یہ کہا کہ اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے کے لئے کافی وقت پڑا ہے اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر دوست و احباب کے ساتھ سیر و تفریح میں خوب مزا آئے گا لیکن خدا نخواستہ اگر ناکام ہو گئے اور وقت کو ضائع کر دیا تو دوبارہ وہ وقت آنے والا نہیں ہے تو میں نے اس وقت اپنی نگاہ صرف منزل پر رکھی، آج بھی میں طلبہ سے یہی کہتا ہوں کہ منزل کی فکر کریں اور ساری توجہ اسی پر مرکوز رکھیں کیوں کہ شیطان تعلیم حاصل کرنے والوں کو اچکنے میں مصروف ہے، تعلیم سے بہکا کر دوسرے کاموں میں لگانے پر بڑا فخر محسوس کرتا ہے، پھر اس کے بعد میں نے گریجوئیشن کیا ہمیشہ کوشش یہی رکھی کہ بہتر سے بہتر کتابوں کا مطالعہ کروں اور مسئلہ کو بذات خود کتاب سے حل کروں جب کہ بہت سارے لوگ اصل کتاب کو چھوڑ کر نوٹ کو پڑھتے ہیں اور کتابوں کو چھوڑ کر اسی نوٹ سے امتحانوں کی تیاری کرتے ہیں، ایسے لوگ وقتی طور پر امتحان میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کا علم دیرپا نہیں رہ پاتا اور اس کے ذریعہ ذہن و دماغ نہیں ملتا جس سے سوچ سمجھ کر جواب تحریر کر سکیں اسی لئے تمام طالب علم سے جو کسی نہ کسی میدان میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں پوری کوشش کریں اور مکمل طور پر سمجھ حاصل کریں۔
انگریزی کے پانچ الفاظ اگر ہم اپنے سامنے رکھیں گے تو انشاء اللہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
1)What 2)When 3)Where 4)How 5)Why
مثلاً ہم موسم کے بارے میں جو پڑھتے ہیں سب سے پہلے:
* موسم کیا ہے؟ * اس وقت ایسا موسم کیوں ہے؟
* وہاں کا موسم کیسا ہے؟ * یہ موسم کب ہوتا ہے؟ وغیرہ۔
تو ہمیں صحیح معنوں میں بات سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔ اور اسی طرح میں نے کامیابی کی منزل پائی اور میں اس عہدے تک پہنچا۔
سوال: ملک کی خدمت کے لئے آپ نے جس دائرہ کار کا انتخاب کیا ہے اس میں مسلمانوں کی نمائندگی کافی کم ہے آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے اس میں اضافہ کے لئے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
جواب: اس مسئلہ میں پولس کی نمائدگی کم ہونے کی اصل وجہ مقابلہ جاتی امتحانات میں ہماری شرکت کی کمی ہے، اگر سچر کمیٹی کی رپورٹ دیکھیں گے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگی کہ جتنے بچے امتحان میں بیٹھتے ہیں اس میں مسلمانوں کا تناسب کیا ہے؟ وہ نورمل سے تھوڑا زیادہ ہی ہے لیکن امتحان میں مسلم بچے بیٹھتے ہی کم ہیں جس کی وجہ سے کامیابی کا تناسب بھی کم ہی ہوتا ہے، مثلاً اگر سول سروسیز کے امتحان میں تین لاکھ بچے بیٹھ رہے ہوں اور اس میں سے ایک ہزار سیلیکٹ ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ تین لاکھ میں ایک ہزار تو ایک ہزار میں کتنا؟ تو اس لئے اس میں غلطی ہماری ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم کی طرف بے توجہی ہے۔
دوسری بات ہم کاروبار میں جلد لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔
تیسری بات جسے میں سب سے بڑی بات سمجھتا ہوں وہ کم ہمتی اور پسپائی ذہن ہے، معلوم نہیں یہ بات ہمارے یہاں کہاں سے آئی ہے جو سراسر غلط ہے، ہمارے ذہن و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہمارے ساتھ یہاں انصاف نہیں ہوتا اور ناانصافی کی جاتی ہے، پتہ نہیں اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے کیوں یہ طریقہ کار ایجاد کر لیا گیا ہے۔
جس بیچ (batch) سے میں سیلیکٹ ہو کر آیا ہوں، ہندوستان میں مجھ سے زیادہ نمبر انٹرویو میں کسی کو نہیں ملے جب کہ میری زندگی کا وہ پہلا انٹرویو تھا اس کے علاوہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جس کی وجہ سے میں یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ امتحان میں ناانصافی ہوتی ہے، ہمارے اندر صلاحیت نہیں ہے، ہم نے جب تیاری نہیں کی تو کامیاب کہاں سے ہوں گے، یہ تو یوں ہے کہ اولمپک کے فائنل میں آٹھ لوگ شریک ہوتے ہیں اور وہ آٹھوں ملک کے چیمپین ہوتے ہیں لیکن اس میں فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ تین ہی لوگ ہوں گے بقیہ پانچ لوگوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا جائے گا۔ جب ہم اس آٹھ میں بھی نہیں پہنچ پائے تو تمغہ ملنے کی امید کہاں سے ہوگی؟
چوتھی بات رہنمائی کی کمی سے لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ علم کیسے حاصل کرنا چاہئے پڑھائی کس طرح کریں گے اور آگے کیسے پڑھیں نیز ہمارے یہاں جو کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بھی رہنمائی نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی آگے نہیں بڑھ پاتا۔
پانچویں بات بہت سے ایسے طلبہ ہیں جن کے اندر صلاحیت ہے وہ آگے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن استطاعت نہیں، مالی کمزوری ان کو آگے بڑھنے میں آڑے آجاتی ہے ایسے لوگوں کی ہم مدد کریں خاص طور پر مسلمانوں میں زکوٰۃ و صدقات یہ دونوں دین کے اہم حصہ ہیں اس کے ذریعہ ہم ایسے باصلاحیت طلبہ کی کتابیں خرید کر یا کوچنگ وغیرہ کی فیس ادا کر کے مدد کر سکتے ہیں اور اس کو ایک فرد بنا کر کھڑا کر سکتے ہیں۔(ملت ٹائمز)