ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے مالدیپ سے واپسی کے بعد 19 جولائی تا 22 جولائی 2016 متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ،ہر چار روز بعد تقریبا 15 سو الفاظ پر مشتمل ایک قسط شائع کی جائے گی ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
شمس تبریز قاسمی
عید کا دن تھا ،اسی دن مالدیپ کے طویل سفر سے واپسی ہوئی تھی ،شام کے وقت اپنے بردار نسبتی فہیم انور،اپنی ہمشیرہ سنجید ہ فہیم اور بھانجے محمد انس کے ساتھ میں انڈیا گیٹ پر ٹہل رہاتھا، اسی دوران میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی یہ دبئی سے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کا فون تھا،خبر خیر یت دریافت کرنے اور مالدیپ کے سفر سے مامون لوٹنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے دبئی کے ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی ،انہوں نے کہاکہ عزیزم19 جولائی کو دبئی میں ہونے والے پروگرام میں ہم آپ کی شرکت متمنی ہیں ،انتظامیہ سے اجازت مل گئی ہے ،پاسپورٹ اور ایک عدد فوٹو آفس سکریٹری شاہد عبد اللہ کو بھیج دیں تاکہ ویزا کا حصول اور دیگر کاروائی بروقت ہوسکے ، دراصل بہت سے پہلے یہ پروگرام طے تھاکہ ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کی کتاب’’ خوشبوکا سفر ‘‘کا اجراء دبئی میں ہوگا جس میں وہ تمام حضرات شرکت کریں گے جن پر یہ کتاب’’ خوشبوکا سفر‘‘ مشتمل ہے ،جولائی 2015 میں بنگلور کے مشہور شہر میسور میں معروف تاجر حاجی شفیع اللہ لطفی صاحب کے ناتی کی شادی ہوئی تھی جس میں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کی قیادت میں علماء کی ایک بڑی جماعت شریک ہوئی ،جن میں سے حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوء،حضرت مولانا محمد شاہد سہارنپوری امین عام جامعہ مظاہر علوم سہارنپور ،حضرت مولانا سفیان قاسمی صاحب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند ،مولانا حکیم عثمانی قاسمی مدنی مسجد نبوی مدینہ منورہ ،ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں ۔خوشبوکے سفر میں ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی نے شیر میسور ٹیپو سلطان کے آبائی وطن میسور میں گزرے ایک روز کی تفصیل ،ٹیپو سلطان کی زندگی اور ان کی عظیم خدمات کا تذکرہ کیا ہے ساتھ میں قافلہ میں شامل تمام حضرات کا مختصر تعارف بھی موجود ہے ،مفتی محفو ظ الرحمن عثمانی صاحب نے اس کتاب کی اشاعت کے بعد یہ پروگرام طے کیاکہ ٹیپو سلطان ہندوستان کے عظیم فرماں رواں ہیں ،انگریزوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی تھے، اس لئے ان کی تاریخ پر مشتمل اس کتاب کا اجراء دبئی جیسے عالمی شہر میں ہونا چاہئے جہاں دنیا بھر کے لوگ ہوتے ہیں، وہاں سے جو پیغام جائے گا وہ دنیا بھر میں پہونچے گا، چناں چہ اسی مقصد کے پیش نظر دبئی میں رسم اجراء کا پروگرام طے کیا گیا اورمیسور کے پروگرام میں شریک تمام لوگوں کے دبئی جانے کے پروگرام بنایا گیا،میں میسور کے سفر میں شریک نہیں تھا اس لئے دبئی جانے کا میرا پروگرام پہلے سے مجوزہ نہیں تھا تاہم پروگرام سے عین چندروز قبل دبئی میں پروگرام کے منتظمین سے اجازت لیکر مفتی صاحب نے میرا پروگرام طے کیااور یہ کہاگیا کہ وہاں نظامت کا فریضہ انجام دیناہے،یوں مالدیپ کے پہلے بین الاقومی سفر سے واپسی کے فورا بعد مجھے ایک اور بین الاقوامی سفر کا موقع ملا ۔
رسم اجراء کے پروگرام میں شرکت کیلئے ہندوستان سے جانے والوں کی ایک طویل فہرست تھی جن میں اوپرمذکورہ حضرات کے علاوہ کولکاتاسے ساجدمہتاب صاحب، علی گڑھ سے مفتی زاہد علی خان صاحب،ممبئی مفتی فرقان المقری صاحب اور مولانا ذاکر صابلے وغیرہ بھی شامل ہیں ،19 جولائی کو ایک بجے دن سے قبل مختلف اوقات میں مختلف فلائٹ سے یہ تمام حضرات دبئی پہونچ چکے تھے ،دہلی سے جانے والوں میں ہم تین آدمی ایک ساتھ تھے ،میر کارواں مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب ،ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی صاحب اور بندہ ناچیز(شمس تبریز قاسمی) ،دن کے بارہ بجے ابوظہبی ہوتے ہوئے ہم لوگ بھی دبئی پہونچ گئے۔آگے بڑھنے سے قبل اور متحدہ عرب امارات او ر دبئی کا مختصر تعارف جان لیتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا تعارف
جزیر ۃ العرب کی تقسیم کے بعد اس کاایک حصہ اب متحدہ عرب امارات کہلاتاہے جسے 2دسمبر1971کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی ،متحدہ عرب امارات میں کل سات صوبے شامل ہیں ابوظہبی ،عجمان،دبئی،الفجیرہ،راس الخیمہ، شارجہ، ام القوین جسے مختلف مرحلوں میں برطانیہ سے آزادی ملی ،بحرین اور قطر کے علاوہ سبھی ایک ہوگئے اور متحدہ ملک تشکیل دیاگیا جسے متحدہ عرب امارات کہاجاتاہے ،اگر قطر اور بحرین اپنا علاحدہ تشخص نہیں چاہتے تو آج یہ ملک کل نو ریاستوں پر مشتمل ہوتا ،ملک کا پورارقبہ83,600 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے،647 بلین امریکی ڈالر ملک کی جی ڈی پی ہے ،9,581,000 یہاں کی کل آبادی ہے ،ابوظہبی یہاں کی راجدھانی اور دبئی سب سے بڑا شہر ہے ۔
متحدہ عرب امارات کے یہ سات شہر دراصل سات صوبے کی حیثیت رکھتے ہیں ،جو بہت سے امور میں مکمل طور پر آزاد ہیں،ان صوبوں کے مستقل بادشاہ ہیں،ان کی اپنی پالیسی ہے تاہم یہ سات صوبے ملک کرایک ملک کہلاتے ہیں اور داخلہ وخارجہ پالیسی تقریبا ملک کے تمام صوبوں کی یکساں ہے ۔امیگریشن میں پاسپوٹ پر متحدہ عرب امارات کا مہر لگتاہے ،یو اے ای کے ویزا پر ساتوں شہر میں جانے کی اجازت ہے ۔ دنیا کے مالدار ترین ملکوں میں متحدہ عرب امارات کانام سر فہرست ہے ،دبئی ،ابوظہبی اور شارجہ اس کے معروف شہر ہیں جہاں دنیا بھر کے زائرین آتے ہیں اور آنے والوں کا ایک اژدحام لگارہتاہے ،یہاں کے معروف شہر دبئی کی حیثیت ایک بزنس پلس کی ہے جہاں کم وبیش 80 ممالک کے لوگ بیک وقت موجود ہوتے ہیں ،دنیا کے ہر ایک کونے سے یہاں تاجر بغر ض تجارت فروکش ہوتے ہیں ،زائرین اور سیر وتفریح کیلئے بھی یہاں آنے والوں کا سلسلہ جاری رہتاہے ،مہنگائی کے اعتبار سے بھی دبئی کا مقام بہت بلند ہے ،دنیا میں سب سے مہنگے ہوٹل جینوا کے بعد یہاں دستیا ب ہوتے ہیں ،شاپنگ اور خریداری بھی بہت مہنگی ہوتی ہے ،دبئی اپنی ان گنت خصوصیات کے ساتھ تین امور میں سب سے نمایاں ہے ،’’لکژری شاپنگ ،رات کے خوبصورت مناظر اور بلند ترین عمارتیں ‘‘ان تین چیزوں نے دبئی کو پور ی دنیا میں ممتاز بنا رکھاہے ہر ایک کی کشش اپنی جانب کھینچتاہے اور زائرین کا سلسلہ لگارہتاہے۔
متحدہ عرب امارات کی حیرت انگیز ترقی
اس چھوٹے سے ملک نے صرف42 برسوں میں یہ حیرت انگیز ترقی کی ہے اور پور ی دنیا اس کے سامنے آج ہیچ نظرآرہی ہے ،بطور خاص شیخ زاید بن سلطان النہیان کے صدر بننے کے بعد اس خطہ کی تقدیر ہی بدل گئی ، عرب امارات کی ریت سونا بن گئی، صحراؤں میں گل و گلزار کھلانے کا اصل مفہوم سامنے آیا اور حالات بدلتے چلے گئے اب گزرے واقعات کی تصویر تاریخ کے فریموں میں نظر آتی ہے۔ اب یہاں کے ہر شعبہ زندگی میں مستعدی ہے، ٹھہراؤبھی ہے، ترقی بھی اور عظمت بھی، تعلیمی لحاظ سے بڑے بڑے ادارے اور یونیورسٹیاں قائم ہیں، سرکاری اداروں اور نجی دفاتر میں کام اور کارکردگی کا معیار بلند ترین ہے، ہسپتال میں علاج و معالجہ کی مکمل سہولتیں ہیں، صحت و صفائی کا یہ عالم ہے کہ آئنہ محو حیرت ہے، امن و امان کی فضا ہے، چوری چکاری کا کوئی خطرہ نہیں، دکانیں کھلی ہیں، کسی کی جرات نہیں کہ کچھ اٹھا لے،سڑکیں انتہائی کشادہ اور وسیع وعریض ہیں ،جگہ جگہ پیادہ پل بنے ہوئے ہیں،جہاں پیادہ پل نہیں ہے یا لوکل راستہ ہے وہ پیادہ پاچلنے والوں اور سڑک عبورکرنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے ،اگر کوئی سڑک عبور رکررہاہے تو گاڑی کیلئے ٹھہر نا ضروری ہے ،پارکنگ کا خوبصورت نظام ہے ،سڑکوں کے کنارے میں پارکنگ کیلئے جگہ مختص ہے،ایک منٹ کیلئے بھی فری پارکنگ نہیں کرسکتے ہیں،ہرجگہ ٹوکن کیلئے مشین لگی ہوئی ہیں،پولیس صحیح معنوں میں عوام کی محافظ ہے ، ٹریفک پولیس کا نظام مربوط و ہمدردانہ اور تسلی بخش ہے، ائیر پورٹ پر امن وسکون کا ماحول ہے ،سیکوریٹی کے نام پر مسافرین کو پریشان کئے جانے کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سختی برتی جاتی ہے ،دنیا بھر سے آئے لو گ بلا تخصیص مطمئن و شاداں ہیں، حاکم اور رعایا دونوں کیلئے یکساں قانون ہے ۔
متحدہ عرب امارات 1970 سے قبل
یہ تذکرہ اس جنت ارضی کا ہورہاہے جو 1970 سے پہلے چٹیل میدان تھا ،ریت کے علاوہ کچھ نہیں تھا، یہ وہی خطہ ہے جو 1930 کی دہائی میں صرف موتیوں کی تجارت پر موقوف تھا، اس عرصہ میں موتیوں کی مارکیٹ کریش ہوئی تو پہلے سے غریب یہ ریاستیں عسرت و یاس کی تصویر بن گئیں، ان تمام ریاستوں میں کوئی ایک اسکول بھی نہیں تھا، طرز زندگی بدوآنہ تھی ، ان کے دل میں اس طرز زندگی سے نکلنے کی پوری تڑپ تھی، چناں چہ جب برطانوی استعمار نے اعلان کیا کہ 1971 کے آخر میں9 ریاستوں کو آزاد کر دیا جائے گا، تو اہل عرب کو منزل کی جھلک نظر آنے لگی، وہ عمل کی دنیا میں کودنے کیلئے تیار ہو گئے، ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،9 ریاستوں کے باسی اپنا فیصلہ کرنے کیلئے آزاد تھے، اتحاد میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ سب حاکم مل بیٹھے، قطر اور بحرین اپنا آزاد تشخص الگ چاہتے تھے چنانچہ 7ریاستوں نے آپس میں اتحاد کا علم بلند کیا،شیخ زائد بن سلطان النہیان کو صدر بنایاگیا اور شیخ مکتوب بن راشد (حاکم دوبئی) کو نائب صدر اور وزیراعظم منتخب کیا گیا۔
آزادی حاصل کرتے ہی دنیا بھر سے ماہرین معاشیات و حسابات کو دعوت دی گئی تاکہ خطہ کی ترقی کیلئے لائحہ عمل تلاش کیا جائے، ملک کی جغرافیائی حالت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا کیوں کہ ایک طرف پورا خطہ عرب واقع ہے، مغرب میں افریقہ و یورپ ہیں اور مشرق میں پورا ایشیا ہے، اس طرح دبئی نہ صرف گیٹ وے آف دی مڈل ایسٹ بن سکتا ہے بلکہ یورپ، افریقہ اور ایشیا کی درمیانی منڈی کی حیثیت سے ٹریڈ سٹی کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے چنانچہ آزاد معیشت کا سلوگن اپنایا گیا، سرمایہ کو تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے سرمایہ کار وں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
جزیر العرب کو دیکھنے کی شروع سے خواہش تھی ،جب ہم نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،حیات صحابہ اور جزیر العرب کی تاریخ کا مطالعہ کرنا شروع کیاتھا اسی وقت دلوں میں یہ شوق پنہاں ہوگیاتھا کہ جزیر ۃ العرب کی زیارت ہماری زندگی کی ہم کامیابی ہوگی الحمد للہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ایک پروگرام میں شرکت کی غرض سے گذشتہ ماہ جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کے چارروزہ سفر پر جانے کا موقع ملا(جاری)