دہلی کا شاند ار فیصلہ

یہ نتیجہ ہندوستان سمیت پوری دینا کیلئے مشعل راہ اور آئیڈیل ہے جہاں ذات پات اور مذہب کے بجائے وکاس اور ترقی کے نام پر عوام نے ووٹ دیاہے ۔ یہی جمہوریت اور سیکولر ملک کی خوبی او رشناخت ہوتی ہے
خبر در خبر (625)
دہلی کی تصویر صاف ہوچکی ہے ۔اسمبلی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر عام آدمی پارٹی نے شاندار جیت حاصل کرلی ہے اور حالیہ انتخاب میں جیت سے زیادہ اہم نفرت اور فرقہ پرستی کے ایجنڈا پر الیکشن لڑنے والی بی جے پی کی شکست ہے ۔ بی جے پی نے حسب روایت دہلی کا انتخاب بھی ہندو بنام مسلمان لڑنے کی کوشش کی ۔ اسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کا نام دیا ۔ کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمہ ۔ تین طلاق سے متعلق قانون ، بابری مسجد ۔رام مندر تنازع پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو اپنی کامیابی بناکر ووٹ مانگا ۔ شاہین باغ احتجاج کو انتخابی ایشو بناکر دہلی کے پرامن ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش کی اور اسے بنیاد بناکر ہندوووٹ اپنے حق میں لینی کی مہم کی ۔تعلیم ،پانی ،بجلی اور ترقی جیسے کسی بھی معاملے کو بی جے پی نے انتخابی موضوع نہیں بنایا ۔تاہم دہلی کے عوام نے شعور ،سمجھداری اور بیداری کا مظاہرہ کیا اور یکطرفہ طور پر بی جے پی کو مسترد کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کوووٹ دیا ۔جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے عام آدمی پارٹی 62سیٹوں پر جیت حاصل کرنے کے قریب ہے جبکہ بی جے پی8 سیٹوں پر محدود ہے ۔
دہلی اسمبلی انتخابات میں سب سے خسارہ کانگریس کا ہواہے ۔ دوسرے لفظوں میں کہاجائے تو کانگریس کی قربانی اور خاموش اشارہ نے عام آدمی پارٹی کی جیت میں نمایاں کردار ادا کیاہے ۔ کانگریس رائے دہندگان نے مکمل شعور اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے اور عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا ہے کیوں کہ ووٹ فیصد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بی جے پی 2015 کے مقابلے میں آگے بڑھ گئی ہے ۔2015 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو صرف 32 فیصد ووٹ ملاتھا لیکن حالیہ انتخاب میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی البتہ کانگریس کا ووٹ فیصد 10 سے کم ہوکر 4 فیصد پر آگیاہے ۔
بی جے پی اپنے حریف کو ہمیشہ مسلمان بناکر پیش کرتی ہے اور اس سے غیر مسلم ووٹ چھیننے کی مہم چلاتی ہے ۔ دہلی میں بی جے پی نے جب یہ دیکھ لیاکہ کانگریس مقابلے سے باہر ہے تو اس نے اروند کیجروال اور عام آدمی پارٹی کی شبیہ بھی عام ہندﺅوں کے درمیان کانگریس پارٹی اور اس کے رہنما سونیا گاندھی ،راہل گاندھی جیسی بناکر پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ مہم چلائی کہ یہ سب بھی مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور کئی سارے رہنما نے تو ریلی کے دوران کہاکہ کیجریوال شاہین باغ احتجاج کے پیچھے کیجریوال ہیں ۔ وہاں بریانی بھی عام آدمی پارٹی پہونچارہی ہے ۔ روڈ خالی نہ کرانے کیلئے بھی کیجریوال ذمہ دارہیں ۔ پرویش ورما نے تو کیجریوال کو دہشت گرد تک کہہ دیاتھا ۔ بی جے پی نے کئی گانا بھی ایسا ریلیز کیا جس میں کیجریوال کو امانت اللہ خان اور مسلمانوں کے ساتھ دکھاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی یہ مسلمانوں کے ہمدرداور بہی خواہ ہیں ۔ ہندﺅوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ 19 دسمبر کوہوئے تشدد کیلئے بھی عآپ کو ذمہ دار ٹھہرایا تاہم اروند کیجریوال نے بی جے پی کی سبھی مہم کا حکمت عملی سے مقابلہ کیا ۔انہوں نے اپنی شبیہ معتدل بنائے رکھنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں اور شاہین باغ احتجاج کی حمایت میں کوئی بیان نہیں دیا ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈینٹ پر مسلسل پولس حملہ کرتی رہی لیکن انہوں نے یہاں آکر ملاقات نہیں کی ۔ شاہین باغ بھی وہ اور ان کی پارٹی کا کوئی لیڈر نہیں آیا۔پی ایم مودی اور امت شاہ کیلئے کوئی نازیبالفظ استعمال نہیں کیا ۔ دوسری طرف مسلمانو ںنے بھی متنازع شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف ملک گیر تحریک میں عام آدمی پارٹی اور کیجریوال کی حمایت نہ ملنے پر کوئی نارضگی ظاہر نہیں کی اور نہ ہی انہیں مایوسی ہوئی ۔ مظاہرین کا صاف کہناتھاکہ یہ آئین اور دستور بچانے کی لڑائی ہے ۔ کسی سیا سی پارٹی کی حمایت اور مخالفت ہمیں نہیں چاہیئے ۔ یہ عوام کی لڑائی ہے اور عوام ایک دن ضرور سرخروہوں گے ۔
ہندوستان میں جس طرح کی سیاست اب شروع ہوگئی ہے اس کا ایک خراب نتیجہ یہ سامنے آیاہے کہ مسلمانوں کے مسائل اب انتخابات سے غائب ہورہے ہیں ۔ پہلے سیاسی پارٹیوں مسلمانوں کے ذاتی مسائل پر بھی بات کرتی تھی ۔جیت کے بعد اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہوتی تھی تاہم اب بی جے پی نے جس طرح فرقہ پرستی کی سیاست شروع کردی ہے اس میں اب مسلمانوں کے مسائل پر کوئی بھی پارٹی بات چیت کرنے کی ہمیت نہیں کرپارہی ہے ۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی نے پانچ سیٹوں پر مسلمانوں کو امیداور بنایاتھا۔ اب تک سبھی کی پوزیشن بہتر ہے اور سبھی پانچ سیٹوں پر عاپ کے امیدوارو کی جیت ہورہی ہے ۔ اوکھلاسے امانت اللہ خان ۔ مصطفی آباد سے حاجی یونس ۔ سیلم پور سے عبد الرحمن ۔ مٹیا محل سے شعیب اقبال اور بلی ماران سے عمران حسین عام آدمی پارٹی کے امیدوار تھے جن میں کچھ کی جیت کا اعلان ہوچکاہے اور کچھ آگے چل رہے ہیں جن کی جیت یقینی ہے۔
دہلی ہندوستان کی راجدھانی ہے ۔ صدیوں پرانا شہر ہے ۔ لوک سبھا کی طرح یہاں کا اسمبلی الیکشن بھی پور ی دنیا میں موضوع بحث ہے ایسے میں یہ نتیجہ ہندوستان سمیت پوری دینا کیلئے مشعل راہ اور آئیڈیل ہے جہاں ذات پات اور مذہب کے بجائے وکاس اور ترقی کے نام پر عوام نے ووٹ دیاہے ۔ یہی جمہوریت اور سیکولر ملک کی خوبی او رشناخت ہوتی ہے ۔ دہلی کے عوام قابل مبارکباد ہیں جنہوںنے جمہوری تقاضوں کا خیال رکھا ۔فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو مسترد کرکے وکاس اور ترقی کے نام پر ووٹ دیا ۔
stqasmi@gmail.com