کنہیا کی تقاریب میں خواتین کی بھیڑ سے نتیش پریشان، بی جے پی بے چین

 مودی اور نتیش حکومت کی پالیسیوں سے پریشان لوگوں، خصوصاً سی اے اے کے خلاف تحریک چلا رہے مسلمانوں کی زبردست بھیڑ کنہیا کی تقاریب میں جمع ہو رہی ہے۔

’جن گن من یاترا‘ پر نکلے جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کنہیا کمار پر تین ہفتے میں آٹھ بار حملے ہو چکے ہیں۔ 27 فروری کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں اس دورہ کا اختتام ہونا ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ دن قریب آ رہا ہے، نتیش حکومت، بی جے پی اور جنتا دل یو میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ وجہ ہے کنہیا کی تقاریب میں دن بہ دن بڑھتی جا رہی بھیڑ۔

یہ وہی کنہیا ہیں جنھیں شدت پسندانہ بیانوں کے لیے مشہور بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں بیگوسرائے سیٹ سے ہرایا تھا۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو لگ رہا تھا کہ کنہیا کمار فی الحال تو دوبارہ شاید ہی اٹھ پائیں۔ یاترا کے دوران بھیڑ کو دیکھ کر اب انھیں فکر ہے کہ یہی حال رہا تو کہیں اسمبلی انتخاب کی بازی نہ پلٹ جائے۔

سماجی کارکن نویدیتا جھا اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ مرکزی حکومت کی منشا اقلیتوں کو پریشان کرنے کی ہے۔ اس لیے کنہیا کی بلند آواز لوگوں کو آخری آس کے طور پر نظر آ رہی ہے۔ بڑھتی بھیڑ اور تنظیموں کی حمایت سے مرکز اور بہار حکومتوں کے حامیوں کی بوکھلاہٹ ہی حملے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں لیکن اس سے حوصلہ گھٹ نہیں رہا بلکہ مزید بڑھ ہی رہا ہے۔

مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں سے پریشان لوگوں، خصوصاً سی اے اے کے خلاف تحریک چلا رہے مسلمانوں کی زبردست بھیڑ ان اجلاس میں جمع ہو رہی ہے۔ بایاں محاذ اور مسلم تنظیم ہی نہیں، اقلیتوں کے لیے کام کرنے والے درجنوں این جی او اور خود مختار تنظیمیں کنہیا کمار کی حمایت میں اتر چکے ہیں۔ بڑبولے گری راج سنگھ کے بیانات نے بھی کنہیا اور ان کی ٹیم کے حق میں ماحول بنا دیا ہے۔

جب بایاں محاذ تنظیموں نے اس دورہ کی حمایت میں اپیل جاری کی تو نتیش حکومت نے ان سبھی اضلاع سے رپورٹ منگائی ہے جہاں جہاں کنہیا پر حملے ہوئے۔ اس میں بھی کہا گیا ہے کہ ہر حملے کے بعد کنہیا کے حامیوں کی تعداد بڑھنے کی بات آ رہی ہے۔ نتیش ان حملوں کے دوران کاہلی برتنے والے افسروں پر گاج گرا کر خود کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

دراصل نتیش کو غلط فہمی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ رہنے کے باوجود اقلیتوں کے درمیان ان کی ذاتی شبیہ اچھی ہے۔ نتیش نے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں مہاگٹھ بندھن کی پارٹی کی شکل میں اقلیتوں کے نزدیک جانے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بعد میں کرسی قائم رکھتے ہوئے دوبارہ این ڈی اے میں شالم ہونے کے باوجود وہ اقلیتوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو ان کے خلاف کچھ بھی کرنے سے روک رہے ہیں۔

14 فروری کو بکسر سے آرہ جانے کے دوران حملے کے فوراً بعد کنہیا نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’گوڈسے کو چاہنے والوں نے آرہ میں جلسہ سے ایک رات پہلے آگ بھلے لگا دی لیکن انقلاب کسی اسٹیج کا محتاج نہیں۔ میں محبت کا کارواں لے کر آگے بڑھتا جاؤں گا۔‘‘ اگلے دن جہان آباد میں کنہیا نے کہا کہ ہم صرف سی اے اے نہیں، این آر سی اور این پی آر کی سازش کے خلاف اترے ہیں۔ آج ملک اس حالات میں ہیں کہ آئین میں موجود حقوق مانگیے تو ملک سے غداری کا مقدمہ کر دیا جا رہا ہے۔ ہمارے جیسے لوگ نکلیں تو اینٹ پتھر پھینک کر ڈرانے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن اس سے ہمارا حوصلہ بلند ہی ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں 12 ہزار کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ سرکار ملازمت میں پنشن ختم کر رہی ہے اور لیڈروں کو تاحیات پنشن دے رہی ہے۔ پانچ سال میں 3.16 کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چلی گئیں۔ بہار سے لوگ کام کی کمی میں ہجرت کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس تو محض 30 فیصد زمینوں کا کاغذ ہے اور ہم سے آبا و اجداد کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں۔

یاترا کے 18ویں دن 16 فروری کو کنہیا نے نالندہ-شیخ پورہ میں کہا کہ ’’ہم ساورکر کا نہیں بلکہ بھگت سنگھ اور امبیڈکر کے خوابوں کا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگر سی اے اے کے سہارے آپ ہمیں ہندوستان کا شہری ماننے سے انکار کرتے ہیں تو ہم آپ کو حکومت نہیں مانتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نریندر مودی کے پاس اکثریت ہے لیکن سڑک پر اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ آئین کی حقیقی روح کے خلاف حکومت ذات یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کر رہی ہے اور یہ ملک کے لوگوں کو برداشت نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح نالندہ میں کنہیا نے براہ راست امت شاہ پر حملہ بول دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر مذہب کی بنیاد پر شہریت لی جائے گی تو امت شاہ، ہم بھی تم کو بتا دیتے ہیں کہ ہم بہار کی زمین کے ہیں۔ ہم بھی چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔‘‘

(بشکریہ قومی آواز)