غریبوں کو مل سکتی ہے زکوٰۃ سے راحت 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

اس سال رمضان المبارک ایسے وقت سایہ فگن ہوا ہے جب دنیا کورونا وائرس کی وبا سے جوجھ رہی ہے ۔ کورونا سے ہونے والی مہلک بیماری سے دو لاکھ سات ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور متاثرین کی تعداد 28 لاکھ کو تجاوز کر چکی ہے ۔ بھارت میں قریب ایک ہزار لوگ فوت ہوئے اور 31 ہزار سے زیادہ متاثر ہیں ۔ کووڈ ۔ 19 سے ہونے والی بیماری چھونے یا جسمانی رابطہ کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔ بچاؤ کے لئے ابھی تک کوئی ویکسین نہیں بنی ہے ۔ بیشتر ممالک نے معاشرتی دوری قائم رکھنے کے لئے لاک ڈاؤن کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ بھارت میں بھی 24 مارچ سے لاک ڈاؤن چل رہا ہے پھر بھی کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لئے تمام عبادت گاہوں میں لوگوں کے جانے اور مذہبی رسومات ادا کرنے پر پابندی عائد ہے ۔ اس لئے پنج وقتہ نماز، نماز جمعہ(ظہر) اور تراویح کا اہتمام گھر پر ہی کرنا پڑ رہا ہے ۔

لاک ڈاؤن کا چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑ کر پورے ملک نے ساتھ دیا ہے ۔ اس دوران مسلمانوں نے حکومت کے احکامات پر سنجیدگی سے عمل کیا ۔ مگر لاک ڈاؤن بنا تیاری کے جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم ثابت ہوا ۔ نتیجہ کے طور پر ملک بھر سے تارکین وطن بے سہارا، غریب اور دہاڑی مزدور اپنے گھر جانے کے لئے پیدل سڑکوں پر نکل پڑے ۔ انہیں کام چھوٹنے اور سر پر چھت نہ ہونے کی وجہ سے کورونا سے پہلے بھوک سے مرنے کا ڈر ستانے لگا ۔ اسی ڈر نے انہیں ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور کر دیا ۔ انسان اور انسان میں فرق، نقل مکانی کر رہے مزدوروں پر پولس کی بربریت، غریبوں کی بے وقعتی اور پیدل چلنے و بھوک سے تارکین وطن کی موت کا ملک گواہ بنا ۔ اس مشکل وقت میں عوام جس طرح حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئے اس سے بھارت کی تہذیب و روح کثرت میں وحدت اور یکجہتی کے مضبوط ہونے کی امید بندھی تھی ۔ بندی کے ایام میں سماج کے رس رہے رشتوں کو مضبوطی دینے، اجتماعی ہمسائیگی، اپنائیت کو بڑھانے، قریب، سخاوت اور خدمت کے جزبات کو ابھارا جا سکتا تھا ۔ اس سے لوگوں کی بھوک مٹانے، جان بچانے اور تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملتی ۔ سماج میں بھروسہ پیدا ہوتا اور روداری کی فضا ہموار ہوتی ۔ مگر بر سراقتدار جماعت کے افراد اور حکومت نے یہ موقع کھو دیا ۔ 

اس کے برعکس بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور اس کے حمائتی میڈیا نے حکومت کی ناکامی کو چھپانے کیلئے نفرت کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھایا ۔ فرقہ واریت کے رنگ کو اور گہرا کرنے کے لئے پھل سبزیوں تک کو ہندو مسلمان بنا دیا ۔ تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کو کورونا کی وبا پھیلانے کے لئے ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ نفرت آمیز تشہیر کی وجہ سے جگہ جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اسپتالوں تک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا ۔ حاملہ مسلم خواتین کو اسپتال میں بھرتی نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک خاتون کے بچے کی موت ہو گئی ۔ مسلمانوں کا نام لے کر اسلام کو بدنام کرنے کا پروپیگنڈہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی رسوائی کا سبب بنا ۔ عالمی ادارہ صحت کی مذہب، طبقہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ برتنے کی تنبیہہ پر توجہ نہیں دی گئی ۔ اتنا ہی نہیں خود وزیراعظم نریندر مودی کی بات کو بھی ان سنا کر دیا گیا ۔ جن مسلمانوں پر کورونا جیسے مہلک متعدی مرض کو پھیلانے کا الزام تھا ۔ آج حکومت کی اپیل پر وہی مسلمان ملک کے لوگوں کی جان بچانے کی خاطر خون کا عطیہ دینے کے لئے لائن میں کھڑے نظر آئے ۔ 

قدرت نے اس وقت نفرت کا محبت سے جواب دینے کا مسلمانوں کو موقع فراہم کیا ہے ۔ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے جو ہمیں غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور کمزوروں کی بھوک پیاس کا احساس دلاتا ہے ۔ یہ گناہوں سے توبہ کرنے، نیکیاں کمانے اور دوزخ کی آگ سے نجات حاصل کرنے کا  مہینہ ہے ۔ عام طور پر اسی ماہ میں مسلمان زکوٰۃ و صدقات ادا کرتے ہیں ۔ قرآن کی سورۃ التوبہ کے مطابق یہ رقم فقراء ومساکین، تالیف قلب کرنے، گردنوں کو چھوڑانے، قرض داروں کے قرض ادا کرنے، مسافروں کی مہمان نوازی، فی سبیل اللہ کے کاموں اور صدقہ و زکوٰۃ جمع کرنے والوں کی تنخواہ پر خرچ ہونی چاہئے ۔ مگر مدارس کے لوگ مسلمانوں کی سادہ لوحی یا کم علمی کا فائدہ اٹھا کر فی سبیل اللہ نے نام پر زکوٰۃ کی رقوم پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں ۔ جبکہ فی سبیل اللہ کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ اس میں تعلیم، صحت اور خدمت خلق کے تمام کام شامل ہیں ۔ کئی عالم دین زکوٰۃ و صدقات کی رقم خرچ کرنے کے مخالف ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مذہبی تعلیم کا انتظام اپنی محنت کی کمائی سے کرنا چاہئے ۔ جو بچے مدارس دینیہ سے زکوٰۃ و صدقات کا مال کھا کر فراغت حاصل کریں گے ان سے قوم کی بھلائی کے بڑے کام کی امید نہیں کرنی چاہئے ۔ 

 خیر زکوٰۃ کی رقومات پر پہلا حق اس علاقہ کے لوگوں کا ہے جس علاقے کی زکوٰۃ ہے ۔ روپیہ پیسہ، سونے، چاندی کے علاوہ کھیتی باڑی، باغات اور کاروبار کے سامان پر بھی زکوٰۃ فرض ہے ۔ اسے امیروں کی دولت میں غریبوں کا حصہ بتایا گیا ہے ۔ دولت مندوں کے لئے یہ مال کا میل ہے لیکن مستحقین کے لئے پاک مال ۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر سخت بعید ہے ۔ بھارت میں زکوٰۃ و صدقات کی کتنی رقم نکلتی ہے اس کا باقاعدہ کوئی سروے نہیں ہوا ہے ۔ ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں اسے چار ہزار سے بیس ہزار کروڑ روپے بتایا تھا ۔ اس رقم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے ہزاروں دینی مدارس کی کفالت اسی زکوٰۃ و صدقات کی رقومات سے ہوتی ہے ۔ اسی دولت کی وجہ سے کئی بڑے مدارس اور مسلمانوں کی تنظیمیں انتشار کا شکار ہو چکی ہیں ۔ اس پہلو پر پھر کسی وقت بات کی جائے گی ۔ فی الوقت سوال یہ ہے کہ کس طرح زکوٰۃ و صدقات سے اپنی اور اہل وطن کی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، اور کس طرح ملک میں مسلمانوں کے تئیں اعتماد و بھروسہ کی فضا کو ہموار کیا جا سکتا ہے ۔ 

زکوٰۃ کا تصور کسی نہ کسی شکل میں تمام مذاہب میں موجود ہے ۔ ان مذاہب میں دولت کا دسواں حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے ۔ لیکن زکوٰۃ کا جو تصور اسلام نے پیش کیا ہے وہ کہیں اور موجود نہیں ہے ۔ اس نے زکوٰۃ و صدقات کو سماج میں موجود اقتصادی نابرابری کو دور کرنے کے ذریعہ کے طور متعارف کرایا ہے ۔ زکوٰۃ کی شرح کم از کم ڈھائی فیصد مقرر کی ہے ۔ کوئی زیادہ دینا چاہے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ۔ زیادہ خرچ کرنے والوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے کہا گیا کہ سخی اللہ کے دوست ہیں ۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ کی مدوں کو قرآن میں تفصیل سے بیان کر دیا تاکہ زکوٰۃ کی رقم کہاں خرچ کی جائے گی اس میں کوئی شک نہ رہے ۔ پھر نماز کی ہی طرح اس کی تنظیم و نظام قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ زکوٰۃ کے اسی نظام نے ہی عرب کے سماج کی کایا پلٹ کی تھی ۔ بھارت کے مسلمانوں نے اس طرف کبھی پیش قدمی نہیں کی ۔ اگر زکوٰۃ کا نظام قائم کیا گیا ہوتا تو مسلمانوں کی حالت آج کچھ اور ہوتی ۔ اپنے ہی ملک میں بوہرہ کمیونٹی کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ 

امیر غریب کے بیچ کی کھائی کو کم کرنے، اور لوگوں کو بھوک سے نجات دلا کر ان کی زندگی بہتر بنانے کے لئے زکوٰۃ کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں اس وقت جو حالات پیدا ہوئے ہیں، اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جو ہونے والے ہیں ۔ ان میں زکوٰۃ کا نظم قائم کرنا اشد ضروری ہے ۔ کچھ حضرات ذاتی طور پر لوگوں کو کھانا اور راشن فراہم کر رہے ہیں ۔ وہ قابل مبارک باد ہیں لیکن اگر یہ کام زکوٰۃ کی رقم سے کیا جاتا تو اور وسیع پیمانے پر کیا جا سکتا تھا ۔  زکوٰۃ کا نظام قائم ہوتا تو ان تارکین وطن کو جو بھوک کے ڈر سے پیدل اپنے گھر پہنچنے کو بے تاب تھے عارضی رہائش اور کھانا فراہم کیا جا سکتا تھا ۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جا رہی نفرت پر لگام لگتی بلکہ عوام میں انسانیت، ہمدردی، رواداری، حساسیت اور خیر سگالی کا جزبہ پیدا ہوتا ۔ انسانی قدروں کو فروغ دے کر ملک کے بہتر مستقبل کی امید کی جا سکتی تھی ۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے رمضان کے مبارک مہینے میں گاؤں، محلہ یا بلاک جس سطح پر بھی ممکن ہو اس کی شروعات کی جائے ۔ دنیا فائدہ پہنچانے والوں کی قدر کرتی ہے نہ کہ ہاتھ پھیلانے والوں کی ۔ 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں