لاک ڈاؤن، مزدوروں کی موت اور حکومت کی بے حسی

امانت اللہ قاسمی

   جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

       موجودہ کرونا وائرس کی وبا کے اثرات تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے جارہے ہیں ـ اس سے مرنے والے اور اس سے متاثرین کی تعداد تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے،جو کہ تقریبا دنیا کے تمام ممالک کے سماجی، اقتصادی، معاشی بحران میں مسلسل اضافے کاسبب بن رہی ہے،ایسی صورتحال میں دیگر ممالک اپنے شہریوں کے تئیں جو بھی مختلف طرح کے اقدامات کر رہے ہیں ان میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے کہ ان کے شہریوں کو کم سے کم پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور ہر طرح سے ہر سطح پر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت امداد فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس بحران کے وقت ہندوستانی حکومت کا جو رویہ اور برتاؤ اپنے شہریوں کے ساتھ رہا ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور قابل افسوس ہے،اب تک نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی مستحکم حکمت عملی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی بہتر منصوبہ بندی دیکھنے کو ملی ہے،لاک ڈاؤن کے آغاز سے لے کر اب تک کسی بھی زاویے سے ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ یہاں کی حکومت اپنے عوام کو لے کر سنجیدہ ہے،خاص طور پر حکومت کی اس غیر سنجیدگی کا شکار ملک کا غریب کمزور اور مزدور طبقہ ہے،موجودہ بحران میں غریبوں اور مزدوروں کے حوالے سے روزانہ ہی ایسے لاتعداد واقعات و حادثات رونما ہو رہے ہیں جو عام انسانوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں غریب اور مزدور ہونا ایک سنگین قسم کا جرم اور پاپ ہے،مزدوروں اور غریبوں کی بدحالی،بے بسی اور لاچاری سے جڑا ہوا ایسا ہی ایک تازہ واقعہ تقریبا 17 /18 مزدوروں کے ٹرین کی زد میں آکر اپنی جان گنوانے کا ہے،دراصل اورنگ آباد میں رہ رہے کچھ مہاجر مزدور مدھیہ پردیش کے لئے ٹرین پکڑنے کے لیے بھساول کی طرف ٹرین کی پٹری کو نشان راہ بنا کر اپنا راستہ طے کر رہے تھے اور دیر رات ہونے کے سبب ٹرین کی پٹری سے ہی لگ کر سو گئے اور صبح کے وقت پٹری پر آرہی ایک مال گاڑی نے انہیں اپنی چپیٹ میں لے لیاـ افسوس کہ وہ اپنی مطلوبہ منزل تک نہ پہنچ سکے اور یہ سفر ان کا آخری سفر بن کر رہ گیا،اس سے پہلے بھی مزدوروں کے بھوک سے عاجز آکر اسی طرح پیدل چل کر اپنی منزل کا راستہ طے کرتے ہوئے تھکن سے چور ہو کر اپنی جان گنوانے کے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں۔

مزدوروں کے حوالے سے ایسا ہی ایک قابل مذمت اقدام بہار کے نائب وزیر اعلی سوشیل مودی کا ہے،ایسے نازک وقت میں جہاں ایک طرف لوگوں کو گھروں میں رہنے کی سخت تاکید کی جارہی ہے اور الگ الگ صوبوں میں پھنسے ہوئے مزدور کسی بھی طرح اپنے گھر واپس لوٹنا چاہ رہے ہیں انہوں نے ٹھیکیداروں کے دباؤ میں آکر بہار کے 222 مزدوروں کو تلنگانہ کے چاول مل میں کام کرنے کے لئے اسپیشل ٹرین سے روانہ کیا ہے،یہ ظالم اور سفاک قسم کے لوگ ایک مزدور کی جان کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھتے تو ہرگز یہ اقدام نہ کرتے اور ان کی بھلائی کے لیے سوچتےـ

حد درجہ حیرت تو اس ملک کی میڈیا پر ہے کہ ان جیسے حساس واقعات کو مین اسٹریم میڈیا سے بالکل غائب کردیا جاتا ہے اور میڈیا میں اس کا چرچا تک نہیں ہوتا ، میڈیا کا ان واقعات کو موضوع بحث نہ بنانا سرکار کو ایسے واقعات پر بے حس بنے رہنے اور چپی سادھے رہنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہےـ کاش یہ ضمیر فروش، رذیل اپنے دھرم ایمان کا سودا کر چکا میڈیا جس طرح سے ہندو مسلم مسائل کو اچھالتا پھرتا ہے اور با نچھیں پھاڑ پھاڑ کر زہر پھیلاتا ہے اسی طرح ایسے دردناک مسائل کو بھی ملک و قوم کے سامنے پیش کرتا۔

ایک طرف تو مودی حکومت ڈنکے کی چوٹ سے یہ اعلان کرتی ہے اور ڈھنڈھورے پیٹتی ہے کہ اس دیش کے مالدار اور اعلیٰ طبقوں کو جو سہولیات فراہم ہیں دیش کے غریب طبقوں کو بھی وہ سہولیات ملنی چاہیے ، دیش کا ایک عام شہری جو ہوائی چپل پہن کر گھومتا ہے مودی ان کے ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے سپنے دیکھنے کی بات کرتے ہیں،کیا ان سب کی محض جملے بازی بیان بازی اور کھوکھلے دعوے کی سوا حقیقت سے بھی کچھ وابستگی ہے؟

ایک طرف تو یہ حکومت دیش کے لیڈران اور اعلی طبقے کے بچوں کو بیرون ممالک سے ہندوستان واپس بلانے کے انتظامات بحسن و خوبی کردیتی ہے لیکن جب بات مزدوروں اور غریبوں کی آتی ہے تو ریل کے سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہے-

کیا حکومت کا ”سب کا ساتھ سب کا وکاس” والا نعرہ ووٹ حاصل کرنے تک ہی لوگوں کے کانوں میں گونجتا ہے یا پھر ملک میں تشویشناک صورتحال آتے ہی اس نعرے کی عمومیت کو مخصوص کر دیا جاتا ہے اور عام پبلک اور شہری کو سرے سے نظرانداز کردیا جاتا ہےـ آخر کب تک حکومت اپنی دوہری سیاست اور دوہری پالیسی کو اپنا کر اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم اور مضبوط بناتی رہے گی اور مستقبل کے بھارت کو شرمسار کرتی رہے گی؟