شیخ ابن العربی کون ہیں ؟

ڈرامہ میں ارطغرل غازی اور ابن العربی کے درمیان گہرے تعلقات کو دیکھا گیا ہے اس بارے میں تاریخی حقائق کیا ہیں؟
خاص رپوٹ (ملت ٹائمز) ترکی کے تاریخی ڈرامہ ڈریلیرس ارطغرل میں ارطغرل غازی کے علاوہ جو بہت اہم کردار ہے اس میں سے ایک شیخ ابن العربی کا ہے ۔ ڈرامہ میں دیکھایا گیاہے کہ حلب جاتے وقت ارطغرل کی راستے میں ابن العربی سے ملاقات ہوتی ہے اور پھریہ ملاقات پیری مریدی کے رشتہ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ شیخ ابن العربی کو ارطغرل اپنا مرشد بنا لیتے ہیں اور ابن العربی ارطغرل غازی میں موجود جو ہر کو پہچان لیتے ہیں ۔ ار طغرل غازی جب بھی کسی مصیبت میں پھنستا ہے ۔ مشکل کا شکا رہوتاہے تو ابن العربی روحانی طور پر اس کی مدد کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کی طرف سے ابن العربی کے دل میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ارطغرل مشکل میں پھنس گیا ہے اور پھر شیخ ابن العربی ارطغرل کی کامیابی ۔ دشمنوں کے ہاتھ سے چھٹکاراپانے کیلئے دعاءکرتے ہیں اور اچانک کسی نہ کسی طرح کی ارطغرل کو مدد مل جاتی ہے جس سے وہ دشمنوں کے ہاتھ سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کے دشمن اس پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔
ملت ٹائمز کی اس خاص رپوٹ میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے تاریخ دونوں کے تعلقات کے بارے میں کی کہتی ہے ۔ کیا تاریخی واقعات او رشواہد میں ایسا کوئی ثبوت ملتاہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ ڈرامہ میں دونوں کے درمیان جو تعلق دیکھاگیاہے وہ درست ہے یا پھر حقیقت سے اس کا تعلق نہیں ہے محض ایک کلچر اور تصوف کو دیکھانے کیلئے ابن العربی کا کردار پیش کیا گیا ہے ۔ کیا ابن العربی اور ارطغرل کا عہد ایک ہی ہے یا الگ ہے ۔
شیخ ابن العربی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ہے ۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت اور عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق دانشور ہیں ۔ عالم اسلام کی تاریخ کے چند اہم دانشوران ، مفکرین فلسفیوں اور صوفیاء میں سے ایک شیخ ابن العربی ہیں ۔ تقریباً 500 کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی سب سے مشہور کتاب الفتوحات المکیہ ہے جس کے 560 ابواب اور 4000 صفحات ہیں ۔ شیخ ابن العربی کو صوفیاء نے شیخ الاکبر کا لقب دے رکھا ہے اور آج تک یہ لقب کسی اور کو نہیں مل سکا ہے ۔
شیخ ابن العربی کا پورا نام محی الدین محمد ابن العربی الاندلسی ہے ۔ اند لس کے مرسیہ شہر میں 1165 میں ولادت ہوئی ۔ آپ کے والد عربی النسل تھے اور اندلس میں آکر انہوں نے رہائش اختیار کر رکھی تھی ۔ کہاجاتاہے کہ آپ حاتم طائی کی نسل سے ہیں ۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا اور کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی ۔ اندلس کے صوبہ اشبیلہ کے حاکم کے یہاں آپ کے والد کا اثر ورسوخ تھا اوردربار میں آنا جانا آپ کا لگا ہوا تھا۔ عام بچوں کی طرح آپ نے بھی تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا لیکن اس درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مجلس لگی تھی ۔ شراب کا دور چل رہاتھا ۔ شیخ ابن العربی بھی جام ہاتھ میں لیکر پینا چاہ رہے تھے کہ اچانک ایک آواز ان کو سنائی دیتی ہے ۔ اے محمد! کیا تم کو اسی لئے پیدا گیا تھا ۔ تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں ہے ۔ اس واقعہ کے بعد ابن العربی جام ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اور وہاں سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ اس واقعہ کی بعد ان کی کیفیت بدل جاتی ہے ۔ تصوف ، فقہ اور دیگر علوم میں انہیں کمال حاصل ہوجاتا ہے ۔ انہیں احساس ہوتاہے کہ ہمارے سینے میں جو علم ہے اس کی تبلیغ اور تشہیر کیلئے اندلس مناسب ملک نہیں ہے چناں چہ وہ ہاں سے نکل کر 1194 میں مراکش پہونچتے ہیں ۔ یہاں ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی اور دیگر علماء سے ملاقات ہوتی ہے ۔ مراکش میں شیخ ابن العربی ایک خانقاہ قائم کرتے ہیں اور تصوف کو فروغ دیتے ہیں ۔ دو سال کے عرصے میں ان کا طویل حلقہ بن جاتا ہے ۔ شیخ ابن العربی پھر اندلس لوٹ جاتے ہیں اور کچھ سال یہاں قیام کرتے ہیں ۔ 1199 میں ان کے دل میں اللہ تعالی کی طرف سے یہ بات ڈالی گئی کہ میرے بندوں کو اس کرم کے بارے میں بتاؤ جو میں نے تم پر کیا ہے ۔
 چند سال کے بعد وہ وہاں سے1299 عیسوی میں مکہ مکرمہ پہونچتے ہیں اور تقریباً دو سال یہاں قیام کرتے ہیں ۔ اسی زمانے میں انہوں نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب الفتوحالات المکیہ کی تصنیف شروع کی ۔ اس کے بعد وہاں سے بغداد اور عراق جاتے ہیں ۔ چند دنوں بعد یروشلم پہونچتے ہیں اور ہر جگہ تصوف اور علوم کا ایک حلقہ قائم کرلیتے ہیں ۔ دمشق میں ان کی ملاقات سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے ہوتی ہے جو ان کی بے پناہ قدر کرتے ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ناتی امیر حلب عبد العزیز کے بھی یہاں ان کی بہت قدر ومنزلت ہوتی ہے ۔ایک مرتبہ ان پر کچھ لوگوں کی جانب سے ارتداد کا الزا م لگادیا گیا اور لوگ قتل کرنے کے درپے ہوگئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ مصر کے ایوبی حاکم ملک العادل نے انہیں بچا لیا ۔
1211 میں شیخ ابن العربی ایشیاءکوچک کی جانب جاتے ہیں اور قونیہ پہونچتے ہیں جو اس وقت سلجوق سلطنت کی راجدھانی تھی اور ایک عظیم شہر تھا ۔یہاں پر سلطان کیکاؤس نے آپ کا ولولے کے ساتھ استقبال کیا اور آپ کی رہائش کے لیے ایک مکان بنوایا، جسے آپ نے بعد میں ایک بھکاری کو دے دیا۔ قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے علائم میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی، جو آج تک حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ سلجوق سلطان علاءالدین کیقباد آپ کے مریدوں میں تھے اور بہت پناہ عزت کرتے تھے ۔ اخیر عمر میں شیخ ابن العربی دمشق آگئے ۔ یہیں1240 میں شیخ ابن العربی کی وفات ہوئی۔ دمشق میں ہی آپ کا مقبرہ ہے ۔
1210 کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس میں شیخ ابن العربی قونیہ میں قیام پذیر تھے اور ایشیاء کوچک میں تصوف اور فکر وفلسفہ کو عام کررہے تھے ۔ اس بیچ شیخ ابن العربی کا دمشق ،حلب ، موصل، بغداد ، مکہ اور یروشلم مستقل آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ اسی عہد میں انا طولیہ کی سرزمین پر ارطغرل کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی تھی ۔ شیخ ابن العربی جس زمانے میں یہ سارے سفر کررہے تھے اسی زمانے میں قائی قبیلہ کا سردار ارطغرل غازی بھی صلیبیوں اور منگلولوں سے لڑرہاتھا ۔ ارطغرل کی تاریخ ولادت 1190 ہے جبکہ ابن العربی کی ولادت 1165 ہے ۔ ابن العربی اندلس سے تقریبا 1200 عیسوی کے بعد آتے ہیں ۔ ادھر 1210 کے بعد ارطغرل غازی کی سر گرمیاں شروع ہوتی ہے اور شیخ ابن العربی بھی اس زمانے میں مشرقی ممالک میں موجود ہوتے ہیں ۔ اس لئے تاریخی حقیقت یہی ہے کہ ابن العربی اور ارطغرل غازی کا زمانہ ایک ہے ۔ ابن العربی کی وفات 1240 میں ہوتی ہے اور تقریباً 1220 سے 1240 کا زمانہ ہی ارطغرل کے شباب کا ہے جس میں وہ اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا جوہر دکھاتا ہے ۔مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتاہے اور ایک عظیم اسلامی سلطنت کا خواب دیکھتا ہے ۔ جن دنوں ارطغرل انا طولیہ میں ہوتا ہے شیخ ابن العربی قونیہ میں ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر دونوں کی اکثرت ملاقات بھی ممکن ہے ۔ ڈرامہ میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ اکثر قونیہ سے حلب یا دمشق جاتے ہوئے شیخ ابن العربی انا طولیہ میں موجود قائی قبیلہ سے ہوکر گزرتے ہیں ۔ ارطغرل کی خبر خیریت معلوم کرتے ہیں اور انہیں نصحیت کرتے ہیں ۔
 ڈیریلرس ارطغرل کے پہلے سیشن سے لیکر تقریباً چوتھے سیشن تک ابن العربی کے ساتھ ارطغرل کے تعلقات کو دیکھاگیاہے اور یہ عہد 1215 سے لیکر 1240 تک کاہے ۔ اس عہد میں ارطغرل جوان تھا اور شیخ ابن العربی ضعیف تھے ۔اس لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شیخ ابن العربی کی ارطغرل غازی سے ملاقت ہوئی تھی ۔ ڈیریلرس ارطغرل کے رائٹر محمد بوزدیق کا بھی دعوی ہے کہ ان کے پاس یہ تاریخ موجود ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ ارطغرل کے روحانی پیر اور مرشد شیخ ابن العربی تھے اور ہمیشہ رہنمائی کرتے تھے۔ دونوں کی ملاقات تھی اور ارطغرل کو نیک صالح بنانے اور اللہ تعالی کی ذات سے ہی ہر مشکل میں مدد مانگنے کی تربیت کی تھی ۔ اسی بنیاد پر ڈرامہ میں اس کردار کو اہمیت کے ساتھ جگہ دی گئی ہے اور ناظرین کی دلچسی بھی اس کردار میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے ۔
بلاشبہ ڈرامہ ارطغرل میں شیخ ابن العربی کا کرداربہت اہم ہے ۔ ہر مشکل وقت میں وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی پر ایمان کومضبوط کرنے اور ان سے ہی مدد مانگنے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ اکثر وبیشتر باتوں کا جواب براہ راست قرآن سے پیش کرتے ہیں یا پھر حدیث شریف یا قو ل صحابہ سے پیش کرتے ہیں ۔ ابن العربی کا کردار ڈرامہ کو چار چاند لگاتاہے ۔ یہ کردار جس اداکار نے ادا کیاہے ان کا نام عثمان سرگود ہے ۔ ترکی کے مشہور اداکاروں میں سے ایک ہیں اور دسیوں فلم اور ڈرامہ میں کام کرچکے ہیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں