عبدالرحمن چمپارنی
(متعلم دارالعلوم وقف دیوبند)
یہ بات بہ مثل شمس و قمر کے واضح ہے کہ اسلام ابدی اور خدا کا پسندیدہ دین اور امت مسلمہ اس کا شاداب اور سدا بہار درخت ہے ، یہ خدائی ترکش ہے کہ نہ اس کے تیر ختم ہوتے ہیں اور نہ نشانہ خطاء ہوتا ہے سب سے بڑا ثبوت اس امت میں ایسے مصلحین و مجاہدین ، خداداد صلاحیتوں سے مالامال ، مؤید من اللہ ، نادرہ روزگار ،اور اسلام کے لیے باعث صد افتخار شخصیتیں ہیں ، جو ہر دور اور ہر زمانہ میں امت مسلمہ کی قیادت اور اس کی صحیح رہنمائی کرتی رہی ہیں ، جن کے علوم وفنون ، تالیفات و تصنیفات ، درس وتدریس سے امت مسلمہ سیراب ہوتی رہی ہے ، اور اپنی علمی وعملی تشنگی بجھاتی رہی ہے, ان عظیم ترین اور ہمہ جہت و عالم گیر شخصیتوں میں سےایک شخصیت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی تھی ، آپ رحمتہ اللہ علیہ متنوع صفات اور خصوصیات کے حامل تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کم گو ، تنہائی پسند، قانع ، مرنجاں مرنج، اوربے آزار انسان تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طاقت کا اصل سرچشمہ فطرت سلیم ، دل کی پاکیزگی، روح کی بالیدگی، دینی غیرت و حمیت ، اسلام کے لیے اضطراب و بے چینی ، اس زمانے کے فاسد ماحول پر ان کے بے چینی اور تشویش ، اخلاص و للہیت ، عبادت کا ذوق و شوق اور دل کے ٹارچ کو ذکر و دعاء ، توبہ واستغفار اور آہ سحر گاہی کے سلس بھرنا تھا ،
چند نمایاں امتیازات و خصوصیات
آپ رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان کی ملت اسلامیہ ملی خصائص اور مزاج کا نقطۂ عروج تھے، عقل پر محبت کی فرماں روا نی ، شمع کی جاں گدازی ، اور پروانہ کی جاں نثاری ، ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و شگیفتگی ، عالم اسلام و ملت اسلامیہ کی حد سے بڑھی ہوئی فکر کے حامل تھے، آپ رحمتہ اللہ علیہ ایک عظیم محدث ، بلند پایہ مفسر، خوش نویس و خوش خط مصنف تھے،
شیخ الحدیث و درس حدیث
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی درس حدیث نہایت ہی سلیس، عمدہ ، آسان اور عام فہم زبان میں ہوتی، ایک دیہاتی شریک درس ہوتو پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ سے بہرہ ور ہو ، رواة پر مکمل کلام، آسان و مشکل ہر مسئلہ کی وضاحت اور اس پر مزید گفتگو اگر کوئی حدیث جس کا ذکر ترمذی میں گذر گیا ہوتا ، پھر وہی حدیث شریف بخاری شریف میں دوبارہ آتی، تو اس کی مکمل توضیح فرماتے، سابقہ بیان پر اکتفاء نہیں کرتے، کمال کی بات یہ ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے ، جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ذمہ درس بخاری و درس ترمذی دونوں تھیں ۔
ماہر درس و تدریس
آپ رحمۃ اللہ علیہ زبان وادب کا خدا داد ذوق ، ان کی تعلیم کا فطری ملکہ، تعلیم میں جاں گدازی و دل سوزی کی کیفیت جو مدت دراز سے تعلیمی و تدریسی حلقوں سے مفقود اور تاریخ کے اوراق میں مدفون ہو کر رہ گئی ہے، اپنے طلباء و شاگردوں سے پدرانہ بلکہ مادرانہ محبت و انس، اپنے ذوق نظر کو اپنے طلباء تک منتقل کردینے اور ان کے رگ و ریشہ میں اتار دینے کی عجیب و غریب قابلیت، زیر درس کتاب میں جان ڈال دینے،ماہر فن میں ہوتی ہے، یہ قابلیت کسبی نہیں وہبی تھی-
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف خوبیوں سے پر
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف ایسی ہیں جیساکہ اس میں شبلی -رحمۃ اللہ علیہ – کا قلم کار فرما ہو، غزالی و ابن تیمیہ – رحہمھما اللہ تعالیٰ – کا جو ش و اخلاص ہو ، اس پر مستزاد یہ کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف میں خود آپ کی فکر اور روح اس طرح گھل مل گئی ہے، جیسے پھول میں خوشبواور ستاروں میں روشنی، آپ جب کوئی مضمون لکھتے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کی ساری خوبیاں ، آپ کا پورا بانکپن اور اس کی پوری رنگینی موجود ہوتی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے بے ساختہ اور بے تکلف مسجع عبارتیں، اور ادبی استعارے اور تشبیہیں قلم سے نکل جاتی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی انہماکیت و مشغولیت
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قاعدہ تھا کہ جس چیز کی طرف توجہ کرتے تو وہ ان پر پورے طور پر طاری ہوجاتی اور وہ اس میں ڈوب جاتے ، ہر وقت اس کا مطالعہ، ہر اس وقت اس کا تذکرہ اور اس کے ماہر اساتذہ سے مشورہ طلب فرماتے رہتے-
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی جاذبیت
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ میں زندہ دلی اور شگفتگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی ، وہ اپنے لطیفوں اور بذلہ سنجیوں سے روتوں کو ہنساتے اور راستے چلتوں کو ٹہرالیتے،ہر بات میں کوئی پہلو ہوتا نئے نئے نام رکھتے تھے اور مزے مزے کی چٹکیاں لیتے تھے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شرافت
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طبعی شرافت، محبت کے فطری عنصر، اور تواضع و سادگی جو ان کی جبلت بن گئی تھی، اس کے بغیر ان کی سیرت اور جوہر کا سمجھنا مشکل ہے۔
کینہ سے کوسوں دور
ان کا دل آئینہ کی طرح صاف تھا ، نہ وہ ذاتی کینہ پرور کے مفہوم سے آشنا تھے ، نہ سیاسی کینہ پرور ی سے ، جو کہیں زیادہ خطر ناک ہوتی ہے ، ان سے ملنے والا محسوس کرتا تھا کہ وہ دل کھول کر ملتے ہی اور کم از کم اس وقت تمام اختلافات اور پچھلے واقعات کو بھول جاتے ہیں ، اس طرح ان کے اندر ایک موہنی تھی، جو دلوں کو موہ لیتی تھی ، اس نے جہاں ان کے پیشہ کو کامیابی کا عنصر عطا کیا ، جس نے آپ کو تادم حیات مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین بنائے رکھا۔
عاجزی و انکساری کا پیکر
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ جہاں اہل دنیا اور اول اول کے سامنے بڑے خوددار اور غیور واقع ہوے تھے ، اہل دین اور خصوصیت ساتھ ان حضرات کے سامنے جن کو اپنے مشایخ اور اکابر کی صف میں شمار کرتے تھے ،غایت درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے ،آپ رحمۃ اللہ علیہ پیدائشی طور پر صحت مند ، جفاکش ، عالی ہمت، نہایت سادہ سپاہانہ زندگی گزارنے کے عادی تھے ، ہر طرح کی جسمانی تکلیف اٹھا لیتے تھے ،اپنے فرائض منصبی بھی بڑی مستعدی اور انہماک کے ساتھ ادا کرتے تھے ،اور عبادت و شب بیداری میں بھی چاق و چوبند تھے ، ہر طرح کے تکلفات و تمدن کے لوازم سےبری تھے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عاجزی و سادگی کا ایک نایاب مثال
ماقبل میں جیسا کہ ذکر ہوا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نہایت ہی عاجز و متواضع تھے ، جس کا تذکرہ ہم بارہا سنتے چلے آرہے تھے ، لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی سادگی اور عاجزی کا اندازہ راقم الحروف کو اس وقت ہوا جب مولانا جمال الدین صاحب بلند شہری – رحمۃ الله علیہ – استاد دارلعلوم دیوبند کا سال گذشتہ انتقال ہوا ( سن 2019ء بہ مطابق 1440ھج ) ہم دارالعلوم میں مولانا جمال الدین صاحب بلند شہری – رحمۃ الله عليہ – کی نماز جنازہ میں شریک ہوے ، جنازہ میں کچھ دیر تھا ، ہم مسجد قدیم کے سامنے والی گلی میں نودرہ کےقریب کھڑے انتظار کر رہے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمارے بغل میں کھڑے تھے ، دیر ہونے کی وجہ سے وہی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ،نہ کسی کرسی کا انتظار کیا اور نہ ہی کسی گدے کی فرمائش کی ، ہم سب طلباء آب رحمتہ اللہ علیہ کی اس عاجزی کی وجہ سے محو تعجب ہوے اور عبرت لیا ، جزاہ اللہ احسن الجزاء آمین ۔
آپ کی علمی و روحانی مجلس
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس گوناگوں روحانی و دبستانی تعلقات ، مذاق و خیالات کے اتحاد ، ان کی پر کشش ذات، علوے نسبی ، فطری شرافت اور ایک طرح کی معصومانہ طبیعت کی وجہ سے ان سے ایسی محبت اور انس ہوتا، جو بہت کم معاصرین رفقاء اور اعزاء سے محسوس ہوتا تھا ، ان کے آنے سے خوشی ہوتی ،ان کے جانے سے رنج ، ان کی مجلس سے اٹھنے کو جی نہ چاہتا ، ان کے رہنے سے ایک عجیب طرح کی رونق اور دل بستگی محسوس ہوتی ، آپ رحمتہ اللہ علیہ کی انہیں خصوصیات و امتیازات کے بناء پر سب آپ کے شیدائی اور دلدادہ تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سب کےچھیتے ۔
آپ عام و خاص سب کے چہیتے
آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے روایتی عربی اخلاق، کریں گفتاری وطلاقت لسانی ، زندہ دلی ، سبک روحی ، ذہانت و حاضر جوابی، باہمہ اور زود آشنا طبیعت اور سادگی بےتکلفی کی بناء پر جو ان کے خمیر میں تھی ،صف اول کے اساتذہ سے گی کر عام طلباء تک کہ نہ صرف مقبول و ہر دل عزیز تھے،بلکہ اکثر موقعوں پر شمع انجمن اور رونق محفل ہوتے ۔
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
بالآخر جس وقت کا اندیشہ تھا ، وہ 19/ مئ 2020ء بہ مطابق 25/رمضان المبارک 1441ھج کی صبح کو پیش آگیا ، شیخ الحدیث مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ اس جہان فانی سے اس عالم جادوانی کو رخصت ہوئے ، جہاں اخلاص و درد متاع بڑی قیمت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ، اور جہاں کریم نکتہ نواز ، رب غفور و شکور سے واسطہ ہے ، نہ کہ زود رنج اور زود فراموش ملت اور ظاہر بیں اور کوتاہ نظر مؤرخوں سے شیخ الحدیث صاحب کے ساتھ ایک دور کا خاتمہ اور تاریخ کا ایک باب کی تکمیل ہو گئی ، جس کے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کے اس صدی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی، ع
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را