پروفیسر اختر الواسع
کچھ دنوں سے اسلاموفوبیا کی توپ کا رخ ہندوستان کی طرف ہے اور یہاں طرح طرح کے فسانے گڑھے جارہے ہیں، خاص طورپر جب سے کوروناکی وبانے ملک کو اپنے شکنجے میں لیا ہے اس کے بعد تبلیغی جماعت کے احباب سے کچھ سہو کیا ہوا کہ ہرچہار جانب سے لوگوں نے مسلمانوں کو متہم کرناشروع کردیا، یہاں تک کہ اقتدار اعلیٰ سے وابستہ افراد کی زبان سے بھی اس طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں جیسے کورونا وائرس کو پھیلانے کے ذمہ دار تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد ہی ہیں۔ دوسری طرف میڈیا کے ایک ٹولہ نے سر پر آسمان اٹھالیا اور تبلیغی جماعت کے نام پر سارے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا۔ میڈیا نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اس بات کو بھی ہوا دی کہ مسلمان ہندو گلی محلوں میں جاکر کورونا پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالات بے حد سنگین ہوچکے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہندوؤں نے اپنے اپنے گلی محلوں میں سبزی والوں کا آئی کارڈ دیکھنا شروع کردیا یہاں تک کہ لاک ڈاؤن میں ریلیف اور اشیائے خوردنی کی تقسیم کے دوران بھی محتاجوں سے مذہب پوچھا جانے لگا۔ صورتحال بے حد تشویشناک ہے اور اگریہی کیفیت باقی رہی تو آنے والا کل نہایت خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک میں کچھ طاقتیں ہیں جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں جو ان دنوں تبلیغی جماعت کے نام پر سماج میں الگ قسم کا خوف اور انتشار پھیلانے پر آمادہ ہیں۔ فرقہ پرستوں کے اسی گروہ نے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوؤں کو ہندوؤں کی ہی دکانوں سے خریداری کرنی چاہیے ۔ ہندو آرمی نامی تنظیم سے وابستہ کچھ سر پھرے لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ ہندو دکانداروں کو اپنی دکان پر شناخت کے لیے بھگوا جھنڈا لہرانا چاہیے اور سبزی والے ،پھل والے یا پھیری لگاکر کچھ اور سامان بیچنے والوں کا آدھار کارڈ دیکھ کر ہی محلے میں گھسنے دیا جائے۔ ظاہر ہے یہ ایسی خطرناک مہم ہے جس کے خلاف پورے دیش کو متحدہوکر سامنے آنا چاہیے ورنہ اس ملک کو سماجی انتشارسے کوئی نہیں بچاسکتا۔
ہندوستان کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں ہم سیاسی جماعتوں سے یہ امیدنہیں کرسکتے کہ وہ حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے تبدیلی کی کوئی سبیل پیدا کریں گے اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ایسے حالات میں ملک کے باشعور، فکرمند اور پرامن بقائے باہم پر یقین کامل رکھنے والے افراد اٹھیں اور مشترک سماج میں زہر گھولنے والے مٹھی بھر لوگوں کے نظریے اور سازشوں کو ناکام کردیں۔ بلاشبہ موجودہ عہد میں سماج کے ٹوٹتے پھوٹتے رشتے ، مذہبی عصبیت اورطرح طرح کے اختلافات و انتشار کی وجہ سے پرامن بقائے باہم کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ اب اس کا حل نہ سماج میں نظر آرہا ہے اور نہ سیاست میں، نہ عدالتیں اس کا حل نکال سکتی ہیں اور نہ مختلف اقوام میں جو دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ان کا علاج کہیں نظر آرہا ہے ۔ ایسے میں تمام مفکرین، ماہرین سماجیات اور انسانیت نواز افراد کی ایک ہی رائے ہے کہ پرامن بقائے باہم کی بنیادوں کو مذہبی صحیفوں، تاریخ کے مثبت واقعات اور ’ جیو اور جینے دو ‘ کے فلسفہ میں تلاش کیا جائے اوران سے عوام کو روبرو کیا جائے ۔
راقم الحروف کا ماننا ہے کہ فرقہ واریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اتحاد و اشتراک کا چراغ کوئی اور نہیں بلکہ وہی قوم جلاسکتی ہے جس کی مذہبی ذمہ داری دعوت ہے۔ جسے حکم دیا گیا ہے کہ خیر کی تلقین کرو اور برائی سے روکو، میرا خیال ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو ہی بھٹکے ہوئے لوگوں کو یہ یاد دلانا چاہیے کہ ہندوستان کثرت میں وحدت کی شاندار روایتوں کا امین رہا ہے اور تمام مذہی اکائیوں کے سامنے یہ باور کرانا چاہیے کہ ہم ایسے دیش میں رہتے ہیں جہاں درجنوں مذاہب، سیکڑوں نظریئے اورمسلک کے ماننے والے ہیں اور کئی درجن زبانیں بولی جاتی ہیں اس کے باوجود اس ملک کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہاں پرامن بقائے باہم کی باد بہاری ہمیشہ چلتی رہی ہے۔ کیوں نہ ہم اپنی شاندار روایتوں پر پھر لوٹ آئیں اور باہمی اخلاق و احترام ، ایک دوسرے کے مذاہب اور عقیدے کی پاسداری نیز ’جیو اور جینے دو‘ کی پالیسی پر گامزن ہوجائیں۔
اگر ہم اسلام کی بات کریں تو یہ اعتدال پسند مذہب اور پرامن بقائے باہم کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام امن و انسانیت کا مذہب ہے ، چنانچہ قرآن نے مسلمانوں کو امت وسط قراردیاہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اعتدال اس کی خمیر میں شامل ہے۔ مگر فی زمانہ سارے عالم میں ایسا باور کرایا جا رہا ہے کہ اسلام جنگجوئیت اور نفرت و عداوت کا مذہب ہے ، ایسے میں نہایت ضروری ہے کہ مسلمان ہی اٹھیں اور بین المذاہب ڈائیلاگ کی مجلسیں آراستہ کریں اور یہ بتادیں کہ مٹھی بھر لوگوں نے جومن گھڑت باتیں اڑائی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمان امن و اتحاد اور اشتراک باہمی کے داعی ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زیادہ تر ہندوؤں اور دوسرے غیرمسلموں کو اسلام تشدد پسند مذہب لگنے لگا ہے اورکسی حد تک ہماری غفلت و بے اعتنائی کی وجہ سے اسلام کی اعتدال پسندی نیز وحدت الٰہ اور وحدتِ آدم کی تعلیمات سے وہ بے بہرہ ہیں۔ ایک تصوراتی شبیہ سے سماج میں غیر اعلانیہ دوری بھی ہے جس کی وجہ سے باہم گھلنے ملنے کاعمل رک سا گیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اسلام اور مسلمانوں کو ہوا ہے اور ہورہا ہے ۔ کشمکش، دوری اور افہام وتفہیم کی صورت سامنے نہ آنے کی وجہ سے غلط فہمیوں کا سیلاب آگیا ہے، مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار اورعملی اقدامات سے یہ ثابت کرنے میں کسی قدر پیچھے رہے ہیں کہ وہ باہمی ربط و تعلق اور پرامن بقائے باہم کے داعی و امین ہیں۔
پرامن بقائے باہم کے اصولوں کی پیروی ہندوستان جیسے کلچرمیں سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہاںمختلف مذاہب، مختلف کلچر، مختلف زبان و تہذیب کے لوگ آباد ہیں اور بیشتر آبادی مشترک ہے ، اس لیے باہم ربط و تعلق، رسم و رواج میں اشتراک اور گھل مل کر رہنے کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف مذاہب میں خیرسگالی کی جو راہیں متعین کی گئی ہیں ان کی بنیادوں کو اجاگر کیا جائے ، ان اصولوں کو عملی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ چنانچہ جیساکہ اوپر کہا گیا ہے اسلام کا نظریہ اعتدال اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں سے ربط و توافق کے روشن اصولوں کی تجدید و اشاعت کی آج زیادہ ضرورت آن پڑی ہے۔
پرامن بقائے باہم کی ایک تحریک چھیڑنے کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے کہ مفکرِ اسلام حضرت سید ابوالحسن ندوی علیہ الرحمہ نے پیامِ انسانیت کے نام سے شروع کی تھی۔ اسی طرح کی تحریک کے پرچم تلے مسلمان اپنے ہم خیال اور سیکولر مزاج ہندوؤں اور دیگر مذاہبِ کے نمائندوں کو لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان دنوں ایک بات جو اور شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ عام مسلمانوں اور موجودہ حکومت اور حکمرانوں کے بیچ عداوت کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور زبردست خلیج محسوس کی جارہی ہے جو حکمت و حکومت کے عین مخالف ہے۔ ہمیں حکومتِ وقت سے ربط و ہم آہنگی پیدا کرنا چاہیے اور دوریوں کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ اگر دوریاں ختم نہیں ہوئیں تو اس کا جو بھی نقصان ہوگا وہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ پرامن بقائے باہم کی تحریک میں شامل ہونے والے متوازن و روشن خیال لوگوں کے گروہ کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ حکمرانوں سے راہ و رسم پیدا کیا جائے اور بہتر رشتے استوار کیے جائیں کیونکہ جس طرح موجودہ حکمرانوں پر اکثریتی طبقہ کاحق ہے اسی طرح تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی اسی منتخب حکومت پر ہے ۔ ہمیں نہایت زیرکی اور دانائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تبھی ہم اس ملک میں ایک بہتر ماحول کی توقع کرسکتے ہیں۔ حکمراں طبقہ ہو یا وہ طبقہ جو مسلمانوں کو حقیر وغیرسمجھتا ہے ، ان کو قریب کرنے کی تگ و دو تیزکردینا چاہیے ۔ ایسے طبقات کو مسلمانوں کے تئیں جو غلط فہمی ہے اسے اگردورکردیاجائے تونصف مسائل اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیرمسلموں کے سامنے یہ واضح کیا جائے کہ اسلام پرامن بقائے باہم اور امن و سلامتی کا خواہاں ہے اور مسلمان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اسلام کے امن و اعتدال پسندی کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں ، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں اور غیرمسلموں سے بہترتعلقات کو فروغ دیں۔
یہ اس ملک کی مضبوطی کی دلیل ہے کہ یہاں اقلیتوں کے حقوق کی آواز اکثر و بیشتر اکثریتی طبقہ کے لوگ ہی اٹھاتے ہیں ۔ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مسلمانوں کے مسائل ہوں یا عیسائیوں کے ، ہر موقع پر اس ملک کے سیکڑوں ہندو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے ایشو پر ہمیں صاف طور پر یہ محسوس ہوا کہ اس ملک میں مسلمان تنہا نہیں ہیں ۔ اس لیے ہمیں ایسے انسانیت نواز لوگوں کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا تبھی ہم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں اور دوسری مذہبی اکائیوں کے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کو کامیاب کرسکتے ہیں۔ اس لیے میں مسلم جماعتوں، مسلم دانشوروں اور علماء و ملی قائدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک کے تمام سیکولر ذہن برادرانِ وطن کے تعاون سے آگے بڑھیں اور امن و عافیت کے نئے ایجنڈے کے تحت اتحاد و اشتراک کی نئی بنیادیں رکھنے کی کوشش کریں۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو کچھ ہندوستان کے مفاد میں ہے وہی مسلمان کے مفاد میں بھی ہے۔سرکار کو بھی اس موقعہ کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور تفریق و امتیاز کی پالیسی سے بچنا چاہئے۔ ایک صالح، صحتمند اور ترقی یافتہ متمدن معاشرہ حق و انصاف کے چلن کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ہے۔ ملک سے محبت صرف مسلمانوں کے لئے جزوِ ایمان نہیں ہے بلکہ ایک ایماندارانہ رویہ اپنانا اور اس کا نظر آنا سرکار کا بھی راج دھرم ہے۔
( مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)