قہقہوں کی بزم سونی ہوگئی : اعجاز علی ارشد مجتبٰی حسین کے انتقال پر بزم کیف سوگوار

پٹنہ: اردو کی عہد ساز شخصیت اور ممتاز طنز و مزاح نگار مجتبی حسین کے انتقال پر ملال کی خبر جیسے ہی عام ہوئ پوری اردو دنیا سوگوار ہوگئ۔ شہر عظیم آباد، جو کہ اردو زبان و ادب کا ایک اہم گہوارہ رہا ہے اور جس سے مرحوم کا گہرا روحانی لگاوُ بھی تھا، اچانک غم کے سمندر میں ڈوب گیا۔ چونکہ ملک گیر لاک ڈائون کے سبب تعزیتی نشستوں کا انعقاد ممکن نہیں لہذا دانشور حضرات سوشل میڈیا کے توسط سے اپنی تعزیت کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں عظیم آباد کی معروف ادبی تنظیم “بزم کیف” کے متعدد اراکین نے بھی مجتبی حسین کے انتقال پر اپنے تعزیتی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بزم کے سر پرست پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ ان کا انتقال بیحد افسوسناک ہے۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اب اس معیار کا لکھنے والا اللہ ہی جانے کب پیدا ہوگا؟ مستقبل قریب میں تو امکان نہیں۔ مشتاق احمدیوسفی کے بعد یہ طنز و مزاح کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ قہقہوں کی بزم سونی ہو گئ۔انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ مجتبی حسین صرف ایک مزاح نگار ہی نہیں تھے بلکہ طنز ومزاح کی ایک مکمل بزم تھے۔جس میں نئے فنکاروں کی تربیت بھی ہوتی تھی اور حوصلہ افزائ بھی۔بزم کے صدر پروفیسر اسرائیل رضا نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ پدم شری مجتبی حسین کے انتقال سے بالخصوص اردو طنز و مزاح کے ایک زریں عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ گو کہ انہوں نے خاکے اور سفر نامے بھی لکھ کر اردو کے سرمائے ادب میں گرانقدر اضافہ کیا لیکن بنیادی طور پر وہ مزاح نگار ہی تھے جس کی واضح جھلک ان کے خاکوں اور سفر ناموں میں نظر آتی ہے۔ ان کا پر کشش اسلوب دامن دل کو کھینچتا ہے اور قاری کے تجسس کو مہمیز کرتے اور اس کی دل بستگی کو قائم رکھتے ہوئے پورے اثر و تاثیر کے ساتھ انجام تک اپنی مضبوط گرفت میں رکھتا ہے اور کسی بھی لمحہ قاری کو کوفت محسوس نہیں ہونے دیتا ہے۔ مجتبی حسین کا شمار صف اول کے اردو طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے انتقال سے بالخصوص اردو طنز و مزاح میں جو خلاء پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔پروفیسرجاوید حیات نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ کیا کہوں،تکلف بر طرف،قصہ مختصر،قہقہ سوگوار ہے۔شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی بھی اداس ہے کہ یہاں بھی ان کہ یادیں محفوظ ہیں۔مجتبی حسین طنز ومزاح کے بے تاج بادشاہ تھے۔انہوں نے تقریبا نصف صدی تک قہقہوں کی بزم کو آراستہ رکھا۔ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ مجتبی حسین کا اسلوب اتنا دلکش اور شگفتہ یے کہ قاری اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو پاتا ہے۔ان کی ہر تحریر میں طنز ومزاح کاعکس نظر آتا ہے۔گویا ظرافت ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔انہوں نےطنز ومزاح نگاری کے فن کو اپنے اچھوتے طرز تحریر سے فروغ دیا اور فن کے معیار کو بلندی عطا کیا۔ان کے انتقال سے ادبی دنیا میں بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ایسے عظیم فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجتبی حسین کا طنز وظرافت کے فروغ میں ناقابل فراموش حصہ رہا ہے۔وہ ہماری سماجی برائیوں پر طنز کے نشتر چلاتے رہے ہیں۔وہ ہماری تمام تر تہذیبی روایتوں کی پامالی سے دل شکستہ ہیں مگر حالات کی صرف نکتہ چینی نہیں کرتے بلکہ ان کی تبدیلی اور اصلاح کے پہلوؤں پر ہمدردانہ غور کرتے ہیں اس طرح انکی آواز تلخ نہیں ہوتی یہی ان کا ہم عصروں میں امتیاز ہے۔نور السلام ندوی نے تعزیتی بیان میں کہا کہ مجتبی حسین اعلی درجے کے طنز ومزاح نگار تھے۔ساتھ ہی وہ بہترین صحافی اور کالم نویس بھی تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز معروف اردواخبار سیاست سے کیا تھا۔ان کا کالم ایک ساتھ کئ اخباروں میں اہتمام سے شائع ہوتا تھا اور نہایت ذوق وشوق سے پڑھا جاتا تھا۔مجتبی حسین اپنے کارناموں اور فن کی وجہ کر دیر تک یاد کئے جاتے رہیں گے۔آصف نواز نے کہا کہ مجتبی حسین کی تحریریں جہاں قہقہوں پر مجبور کرتی ہیں وہیں ہمیں دعوت احتساب بھی دیتی ہیں انہوں نے سماجی برائیوں اور نا ہمواریوں پر تیر ونشتر بھی جلائے ہیں اور جراحی کا عمل بھی انجام دیا ہے۔

ڈاکٹر قاسم خورشید نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجتبیٰ حسین کے ساتھ طنز و مزاح کے زریں دور کا اختتام ہو گیا۔ ہند و پاک کی سطح پر بھی اگر بہت دیانتداری کے ساتھ محاسبہ کیا جائے تو مجتبٰی حسین کا شمار معیار و اقدار کے تعین میں قابل رشک کہا جا سکتا ہے۔شمیم قاسمی نے کہا کہ میرے خیال سے مجتبی’ حسین باب طنزومزاح میں اپنی سدا بہار نگارشات کے لیے ہمیشہ یاد کیۓ جائیں گے۔وہ زندگی کے بعض تاریک گوشوں اور منفی پہلوؤں پر مثبت انداز سے غور و فکر کرتے ہوۓ اپنے طنزیہ مضامین کو دو آتشہ بنا دیتے تھے۔قاری کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ اس نے ایک مزاح نگار کوپڑھا یا پھر ایک دانشور کو۔