مسلمان اور جدید ذرائع ابلاغ: چند گزارشات

پروفیسر اختر الواسع 

مسلمانوں کے خلاف بعض اخبارات ، ٹی وی چینلوں اور سوشل سائٹس کی بے اعتنائی ، مغایرت ،حتیٰ کہ کردار کشی کا رویہ ایک عرصہ سے ان کے لئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ پچھلی صدی کی پانچویں دہائی کے اوائل سے یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ مسلمانوں کا اپنا انگریزی اخبار ہونا چاہئے۔ یہ احساس اور مطالبہ اب یہاں تک پہونچ گیا کہ مسلمانوں کا اپنا ٹی وی چینل بھی ہونا چاہئے۔ گزشتہ ہفتہ کو سوشل میڈیا پر ایک آڈیوگشت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو رویش کمار کے نام سے کسی پردہ نشین نے اس کی ضرورت اور جواز کے بارے میں پھیلایا تھا ۔

اس کے باوجود کہ یہ آڈیو جعلی ہے ایک بڑی تعداد نے اس کے مطالبہ سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ اس کی پر زور وکالت کرتے نظر آئے ہیں۔ اس مطالبہ کے پیچھے جو اندوہ ناک بے چینی ہے اسے ہم بخوبی سمجھتے ہیں اور وہ میرے نزدیک بڑی حد تک قابلِ قدر بھی ہے ۔ لیکن میں بوجوہ اس مطالبہ سے اتفاق نہیں کرتا۔ کیونکہ میرے نزدیک ایک مخلوط معاشرہ میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے خاطرِ خواہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ جب کسی بھی ذریعۂ ابلاغ پر کوئی مخصوص چھاپ لگ جاتی ہے تو اس کا دائرہ سمٹ کرکچھ مخصوص لوگوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے جو کسی طرح نہ مفید ہوتا ہے اور نہ مؤثر ۔ کیونکہ اخبار کا قاری ہو ، ریڈیو کا سامع ہو یا ٹیلی ویژن کا ناظر عام طور پر وہ غیر جانبداری و معروضیت کے ساتھ سچائی اور حقائق سے با خبر ہونا چاہتا ہے۔ ہم دوسروں کی بات کیوں کریں خود مسلمان ہی یہ بتائیں کہ وہ سدرشن ، آستھا، اور اسی طرح کے وہ تمام ٹی وی چینل جوایک مخصوص مکتبِ فکر کے حامی جانے جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہمارے دیکھتے دیکھتے الجمیعۃ ہو یا دعوت مدر لینڈ ہو یا نیشنل ہیرالڈ، پیٹریاٹ ہو یا لنک سب بتدریج بند ہوتے چلے گئے کیونکہ ان سب پر کسی مخصوص مکتبِ فکر، نظرئے یا پارٹی کی چھاپ تھی۔ آج بھی منصف اور تہذیب جیسے ٹی وی چینلوں کی پہنچ اور رسائی کہاں تک ہے ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔

  یہاں بجا طور پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اس صورتِ حال کو کیسے بدلا جائے اور بہتر بنایا جائے؟ ہندوستان کی اس مشترکہ تہذیب کو جو کثرت میں وحدت سے عبارت ہے جہاں ، زبان، مذہب اور علاقے کی تفریق سے اوپر اٹھ کر ہم سب نے ہندوستان کو جنت نشان بنایا ہے اس کی بازیافت اور بحالی کیسے ہو؟ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ دوری اور تفریق ہمارے ملک کے لئے کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ کرونا وائرس سماج میں فاصلوں کا متقاضی ہے تو ہماری گنگا جمنی تہذیب سماج میں قربتوں کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ان قربتوں کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب ہندوستانی انتہائی دیانت و متانت کے ساتھ تاریخ کا بلاوجہ بوجھ ڈھونے سے اپنے کو بچائیں کیونکہ تاریخ میں سب کچھ یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوتا اور جو کل گزر چکا اسے آپ واپس بھی نہیں لاسکتے ۔

بات کہاں سے نکلی اور کہاں جا پہنچی۔ ہمیں صرف اس کا جواب ڈھونڈھنا ہے کہ آج تفریق و عناد پر مبنی مختلف تنگ نظرذرائع ابلاغ کا کس طرح مقابلہ کیا جائے ۔ میرے نزدیک اس کا پہلا حل تو یہ ہے کہ آج جو بھی اخبار اور ٹی وی چینل ہمیں میسر ہیں اپنی محنت، لگن سے ان میں اپنے لئے مخصوص جگہ بنائیں ۔ ہم موقع بہ موقع ان اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر بہترین اور اچھے پروگرام اسپانسر کریں۔ ملک کے روشن خیال نامور دانشوروں کو جن کو بات کہنے کا ہنراور سلیقہ ہے اور حقائق کو واضح کرنے ، سمجھنے اور سمجھانے کا فن آتا ہے ان کوان پروگراموں کا حصہ بنائیں۔ تالی اور گالی سے اپنے کو بچا کر ، اپنا کوئی نیا چینل بنانے کے بجائے این ڈی ٹی وی جیسے چینلوں اور وائر جیسی شوسل سائٹس کو اپنا بھر پور تعاون دیں کیوں کہ یہ اپنی حق شناسی اور راست گوئی کے باعث سرکار اور یرقان زدہ ذہنیت رکھنے والوں کے عتاب کا شکار ہیں ۔ ہمیں ان کی بھرپور سماجی، معاشی اور اخلاقی مدد کرنا چاہئے ۔ اسی طرح ہم اپنے خلاف منفی سوچ رکھنے والے غلط رویوں کو شکست دے سکتے ہیں۔

علاوہ از ایں ایک اور کا م جو ہمیں فوری طور پر کرنا چاہئے کہ انگریزی ، ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں اپنے ذہین بچے اور بچیوں کو جرنل ازم اور ماس کمیونی کیشن کے اعلیٰ ترین اداروں میں منظم اور منضبط پالیسی کے ذریعہ داخلہ دلانا چاہئے اور جب وہ پیشہ ورانہ مہارت کے یہ کورس معیاری درجہ میں کامیابی کے ساتھ پاس کر لیں تو انہیں اپرینٹس شپ کے لئے طباعت اور نشر و اشاعت کے بڑے اداروں میں بھیجنا چاہئے ۔ اس طرح ہم افرادی وسائل کو کافی حد تک متمول اور ثروت مند بنا کر ایک نئے انقلاب کی شروعات کر سکتے ہیں ۔ وہ تمام ذرائع اور وسائل جو آپ اپنا ایک آدھ، آدھا ادھورا ٹی وی چینل کھولنے پر صرف کرنے والے ہیں اس سے نئی نسل کو اس میدان میں ایک ہراول دستہ کی طرح تیار کر سکتے ہیں جو آپ کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلنے سے روکے گا ۔ ان کی موجودگی میں کوئی بھی آپ پرآسانی سے الزام تراشی نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی آپ کو متہم کر سکتا ہے۔ یہ محض کوئی مفروضہ یا خام خیالی نہیں ہے بلکہ ” ویکلی سنڈے“ اس کا ثبوت ہے ۔ ایم جے اکبر کی فعال اور عبقری ادارت میں ”مرادا ٓباد کے فساد “ اور ”نیلی آسام“ میں قہر سامانی، کی سچی اور حقیقت پسندانہ رپورٹنگ دنیا کے سامنے آئی وہ آج تک ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ سیما مصطفیٰ ہوں یا سیما چشتی، سلمیٰ سلطان ہوں یا انیس جنگ، نغمہ سحر ہوں یا عارفہ خانم، ضیاءالسلام ہوں یا افتخار گیلانی، عسکری ہوں یا رشید قدوائی، حسن سرور ہوں یا صدیق احمد صدیقی، شیخ منظور ہوں یا شمس طاہر خان، جاوید انصاری ہوں یا کمال خان ، ریحان فضل ہوں یا جاوید نقوی ، شارق خان ہوں یا سعید انصاری، صبا نقوی ہوں یا اورنگ زیب نقشبندی وجیہ الدین ہوں یا رانا ایوب، ایم اے سراج ہوں یا میر ایوب علی خاں ، سراج وہاب ہوں یا اعجاز ذکاء سید، شکیل شمسی ہوں یا فراز ان سب نے یقیناً اپنے دم پر انگریزی اور ہندی صحافت میں اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں اپنی موجودگی درج کی اور اپنی پہچان بنا ئی ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ اگر ہم یہ طے کر لیں کہ ہم اس کو ایک تحریک بنا کر ایسے باصلاحیت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو کمیونٹی سپورٹ سے تیار کریں جوکہ اپنی وطن پرستی ،علم دوستی ، تہذیبی شائستگی ، سچائی اور راست گوئی کے نمونے ہوں تو اس کے فوائد یکسر محدود نہ ہو کرملک و ملت کے لئے یکساں طور پر منفعت بخش ہوں گے۔

کیا ہماری ملی جماعتوں اور باشعور شہریوں نے ایسے افراد تیار کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلا ف سوشل میڈیا ( فیس بک ، ٹویٹر، اور وہاٹس اپ) پر کی جانے والی بے تکی غلط بیانیوں کا شرافت ، شائستگی، سنجیدگی اور حق پسندی کے ساتھ جواب دیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تیزاب کی حدت اور شدت کو پانی کے ذریعہ تو تحلیل کیا جاسکتا ہے اپنی طرف سے مزید تیزاب ڈال کرہرگز نہیں۔مسلمانوں کو اس نازک اور اشتعال پسند دور میں دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ہوگا۔ ایک یہ کہ شجاعت اور حماقت کی سرحدوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں اور اس پر زور بھی دیتے ہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے لیکن اس کا ادراک شاید بہت کم لوگوں کو ہے کہ کون سا لوہا کس لوہے کو کاٹتا ہے؟ یاد رہے کہ ہمیشہ ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے گرم لوہا ٹھنڈے لوہے سے ٹکرا کر تو خود اپنی ہی صورت اور ہیئت کو مسخ کرتا ہے۔ آج ہماری بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل کو گرمیٔ تقریر، گرمیٔ محفل اور گرمیٔ جذبات سے حل کرنا چاہتے ہیں اور انجامِ کار ، ہمارے حصہ میں مایوسی ناکامی اور انتشار آتا ہے۔

بلاشبہ جب تک ہم درجِ بالا امورپر توجہ دے کر غور و فکر کرتے ہوئے کوئی عملی منصوبہ بندی نہ کر لیں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنے ملک کے انصاف پسند شہریوں ،سول سوسائٹی کے حق شناس اور جری افراد کی مدد سے ایسے فعال اور سر گرمِ عمل گروپ بنانے چاہئیں جو کچھ سرکاری مشینریوں کے ظلم و ستم، بعض ٹی وی چینلوں کے مکر و فریب اور میڈیا کے بعض سیکشن کے جھوٹے پروپیگنڈوں، ان کی ہرزہ سرائی، من گھڑت خبروں، بے سرو پا الزام تراشی کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں ایف آئی آر درج کرائیں اور قانونی چارہ جوئی کریں۔ کیوں کہ ہمارا دستور ہی ہماری ڈھال اور ہمارا عدالتی نظام ہی ہمارا مددگار ہو سکتا ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑے ہم سب کی جانب سے لائقِ ستائش ہیں جو مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا سید محمود مدنی کی قیادت میں ہمت و حوصلہ سے مظلوموں کی قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں اور میڈیا کی اسلاموفوبیا کے خلاف لڑائی کو ہمتِ مردانہ کے ساتھ اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں مصروفِ عمل ہیں ۔ خدا انہیں کامیاب کرے ۔ (آمین)

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی ، جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)