حرف حق: پروفیسراخترالواسع
دو ہفتے قبل ہم نے اسی موضوع پرکچھ معروضات پیش کیے۔اس پر ہر شخص نے اپنی صوابدید کے مطابق اظہار خیال کیا اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا بلکہ ہمارے اظہار خیال کرنے سے پہلے سے ہی یہ بحث چل پڑی تھی۔اس میں کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مسلمانوں کا اپنا میڈیا ہاؤس ہونا چاہیے۔ جو لوگ ایسا سوچتے ہیں ہمیں ان کی نیک نیتی اور جذبے کی صداقت پر کوئی شبہ نہیں۔ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا پورا حق ہے اورہم سب کو ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے لیکن اسے مخاصمت یا مخالفت نہیں بننے دینا چاہیے۔جو لوگ ٹی وی چینل قائم کرنا چاہتے ہیں ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان جس معاشی ادبار کا شکار ہے اس میں گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کا یہ وقت نہیں ہے۔ہمیں اگر بہ حیثیت ایک سماجی گروہ کے اپنے وجود کا احساس ہی کرانا ہے تو اس کے لیے سب سے بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم یو ٹیوب پر جو نوجوان اپنے اپنے چینل پر ویڈیواپ لوڈ کر کے چلا رہے ہیں اور وہ خاصے مؤثر بھی ہیں اور کامیاب بھی، ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر اس میں سب سے نمایاں نام سیاست ڈاٹ کام حیدرآباد کا ہے جو اپنی خبروں اور مین اسٹریم میڈیا پر جگہ نہ پانے والی خبروں کو ہم تک انتہائی سلیقے سے پہنچاتے ہیں اور یہ کام دن میں ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ کرتے ہیں۔ ان کا دائرہ محض دکن تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان سے قومی اور بین الاقوامی کوریج دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح شمس تبریز قاسمی کی سربراہی میں ملت ٹائمس ، شکیل احمد کی قیادت میں نیوز میکس ، اشرف بستوی کے ذریعہ ایشیا ٹائمس ، محمد اسد کا اوکھلا ٹائمس، عبدالباری مسعود کی کاروان سے وابستگی، نہال نقوی کے ذریعہ آئی ۔ این۔ این، فرمان حیدر کے ذریعہ چینل ٹرو، مشہور صحافی سید محمد احمد کاظمی کا میڈیا اسٹار ورلڈ، ڈاکٹر ناصرہ خاتون رضوی کا مائنرٹی میڈیا سینٹر اور ڈاکٹر عرشیہ کی کوششیں صرف بطور نمونہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ سب جو کام کر رہے ہیں وہ اپنے اپنے حلقوں اور دائروں میں رہتے ہوئے بڑے کام ہیں۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہے کیوں کہ گوگل کے سہارے جس طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے ذہنی و فکری رابطہ قائم کرنے میں آج کامیاب ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ ایک فرد واحد جن کا نام پاشا پٹیل ہے وہ سات سمندر پار سے غیر مقیم ہندوستانیوں کو جو جغرافیائی طور پر کسی ایک وحدت کا حصہ نہیں ہیں، انہیں اپنے عہد کے آشوب کرب اضطراب کے ساتھ مسرت سے بصیرت تک کے سفر میں روز شریک کرتے ہیں اور فراق و فصل کو بیگانگی کا سبب نہیں بننے دیتے۔اسی طرح لندن میں بیٹھ کر ہندنزاد غزالی خان اپنی باریک بینی اور علم کی سحر آفرینی سے ان موضوعات کو عام طور پر ترجمے کے ذریعے اردو میڈیا مانیٹر ڈاٹ کام کے نام سے ہم تک پہنچاتے ہیں جن کومین اسٹریم میڈیا درخور اعتنا بھی نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح ڈاکٹر اسلم عبداللہ، ظفر آغا، قربان علی، معصوم مراد آبادی، سہیل انجم اور حسن کمال وغیرہ اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں عصری آگہی عطا کرتے ہیں اور علمی و فکری طور پر ہماری بے خبری کو خبر آفرینی میں بدلتے ہیں۔ ان تمام کوششوں جن کا ہم نے اب تک ذکر کیا ہے مجموعی طور پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جو واقفیت حاصل ہوتی ہے، جو خبر گیری ہوتی ہے، وہ انتہائی اہم بھی ہوتی ہے اور ہمارے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ بھی۔ یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان سے تو زیادہ سے زیادہ مسلمان ہی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی اس سے انکار نہیں، یہی تو ہم بھی کہنا چاہتے ہیں کہ جو کام یہ کر رہے ہیں وہ کوئی بھی ایسا ٹی وی چینل یا کمیونٹی ریڈیویا اخبار نہیں کرسکتا جس پر کلیۃً کسی ایک مخصوص مذہب ، فرقے یا شخصیت کی چھاپ ہو۔ ہمار اکہنا یہ ہے کہ یہ جو بظاہر چھوٹی چھوٹی کوششیں ہو رہی ہیں آپ ان کو مضبوط کیجیے اورمستحکم بنائیے۔ جن یوٹیوبرس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا یہ ایسے حوصلہ مند نوجوان چلا رہے ہیں جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہیں، جن کے پاس نہ صحیح کیمرے ہیں اور نہ وہ تمام سہولتیں جو کہ اگر ان کے پاس ہوتیں تو وہ کچھ سے کچھ کر دکھاتے۔ آپ ان کو اشتہار دیتے نہیں، ان کی کسی اور طرح سے مدد کرنے کو تیار نہیں۔ ریڈینس ، کانتی اور اسلامک وائس کی توسیع و اشاعت میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ سید حامد کا نیشن اینڈ دی ورلڈ تو ہمیں شاید یاد بھی نہیں رہ گیا۔ سید شہاب الدین کا مسلم انڈیا ہو یا ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کا ملی گزٹ ، ان سب کی ناکامی کے پیچھے ہمارے علاوہ اور کس کا ہاتھ ہے؟ یہی وہ وجوہات اور تلخ تجربات ہیں جن کی بنا پر ہم کسی بھی ایسی مہم کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس میں ہماری حیثیت وہی ہو جو غالب نے کچھ یوں بیان کی ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ہماری ابھی یہ رائے ہے کہ ہم مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ و ہ افرادی قوت تیار کریں جو ہمارے لیے برسوں تک ایک قیمتی اثاثہ بنیں۔ ساتھ میں جو مشہور میڈیا گھرانے ہیں ان کے ساتھ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ایسی منصوبہ بندی کریں کہ وہ ایسے اسپانسرڈ پروگرام پیش کریں جن سے ہندوستان کے مسلمانوں کی صحیح صورتحال، ان کی پسماندگی، ان کے ساتھ ناانصافی اور ان کی مجموعی ترقی کے امکانات پر روشنی پڑ سکے۔ تیسری بات یہ کہ ہندوستان کے مسلم تاجروں اور بڑی کمپنیوں کے مالکان کو مسلمانوں کے ساتھ مثبت سوچ رکھنے والے ٹی وی چینلس، انگریزی ہندی اور اردو کے اخبارات اور یوٹیوبرس کو اشتہارات کے ذریعے مدد کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے پروگراموں کو دوسرے ٹی وی چینل بھی اہمیت دیں گے اور دوسرے میڈیا ہاؤسز بھی مسلمانوں کے مسائل اٹھانے یا مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔اس میں ایک بات کا یہ خیال رکھنا ہوگا کہ مالی تعاون کرنے والے لوگ ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھیں نیز اپنی ذاتی انا اور خود مشتہری کو الگ رکھیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس ملک میں مسلمان اپنے ہم وطن ہمدردوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنانے کے ہنر سے یکسر خالی ہیں۔ کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی میڈیا ہاؤس مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرتا ہے تو اس کے پاس بااثر مسلمانوں کی جانب سے حوصلہ افزائی کا فون تک نہیں جاتا اور نہ ہی مسلم معاشرے میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو یہ کسی کے لیے ممکن ہے اور نہ کسی سے اس کی توقع کرنی چاہیے کہ وہ بنا کسی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے فریق کے طور پر آپ کی لڑائی مسلسل لڑتا رہے۔ اس کی بہترین مثالیں ای ٹی وی اردو کے بانی رامو جی راؤ کے ساتھ کل ہمارا تعلق اور آج مصیبت کی گھڑی میں ونود دُوا ،وردا راجن اور پرناؤ رائے کی حمایت میں ہمارا نہ کھڑا ہونا ہے۔ یہ ہماری کچھ عادت ہو گئی ہے کہ ہم بعد محرم ہی یا حسینؓ کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ،خود مسلم ممالک میں بھی وہاں کے حکمرانوں نے بھی اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ آج جب وہاں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے تو اب وہاں اس پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں قطر کے حکمرانوں کی فراست کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ انہوں نے ’الجزیرہ‘ جیسے طاقت ور میڈیا کو فروغ دیا جس نے پورے مغرب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اسی طرح ایران نے بھی میڈیا کو ضروری اہمیت دی جس کا اس کو خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا ہے۔دنیا میں اپنی معیشت کی وجہ سے قابل ذکر پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں جن کے پاس الجزیرہ جیسے میڈیا ہاؤسز ہونے چاہئیں لیکن دور دور تک کچھ نظر نہیں آتا، جس کا فائدہ اٹھاکر مغربی میڈیا جب جیسا چاہتا ہے مسلمانوں اورمسلم ممالک کے بارے میں ایک تصورقائم کردیتا ہے۔ عالمی سطح پر میڈیاکے بدلتے ہوئے منظر نامے اور ہندوستان میں اس کی صورتحال کو قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں تردد نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے میڈیا ہاؤسز کی شدید ضرورت ہے جب کہ ہندوستان میں اس طرح کی کوششوں سے جو توقعات کی جارہی ہیں ان میں کامیابی مشکل معلوم ہوتی ہے ،لیکن ہر شخص کو اپنے تجربوں سے سبق لینا چاہیے اور ہم اس کی راہ کا پتھر بننا پسند نہیں کریں گے۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)