ممبئی: خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کی ملازمت پر بحالی کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر آج ممبئی ہائی کور ٹ نے حکومت مہاراشٹر اور ممبئی پولیس کمیشنر سمیت دیگر فریقوں سے 3 جولائی تک جواب طلب کرتے ہوئی نوٹس جاری کیا ۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی تھی کیونکہ سات دن گذر جانے کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے توہین عدالت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا جس پر آج ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی ۔
ممبئی ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس آہوجہ نے سینئر ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کے دلائل کی سماعت کے بعد پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ،پرنسپل سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ امیتابھ گپتا،اسٹیٹ سی آئی ڈی،روویو کمیٹی اور حکومت مہاراشٹر سے جواب طلبا کیا ہے کہ انہوں نے ممبئی ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود چاروں پولس والوں کو ملازمت پر بحال کیسے کیا۔
واضح رہے کہ ممبئی گھاٹکوپر بم دھماکہ معاملے میں ماخوذ کیئے گئے پربھنی کے ملزم خواجہ یونس (سافٹ وئیر انجینئر)کی پولس حراست میں ہوئی موت کے ذمہ دار پولس والوں کو سی آئی ڈی کی تحقیقات کے بعد ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا لیکن گذشتہ دنوں ان پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیاگیاجس کے خلاف عوام میں بے چینی بڑھ گئی، پولس والوں کی ملازمت پر بحالی کی خبر ملنے کے بعد جمعیۃ علماء کے توسط سے خواجہ یونس کی والدہ نے ممبئی پولس کمشنر پرم ویر سنگھ اور ہوم ڈپارٹمنٹ کو توہین عدالت کانوٹس بھیجا تھا ، نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اگر سات دن کے اندر ان پولس والوں کو ملازمت سے معطل نہیں کیا گیا تو ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیاجائے گا لیکن سات دن کا وقت گذر جانے کے باوجود پولس کمشنر کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر گزشتہ کل ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل آئی ۔
دوران بحث ایڈوکیٹ مہیر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ 2004 میں ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا تھاکہ خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث پولس والوں کو ڈسپلینری انکوائری کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس کے باوجود پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیا گیا جو توہین عدالت ہے ۔
ایڈوکیٹ مہیر دیسائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ 2004 میں خواجہ یونس کے والد نے ممبئی ہائی کورٹ میں خواجہ یونس کے ساتھ پولس زیادتی اور اس کے غائب ہوجانے کی شکایت کی تھی جس کے بعد ممبئی ہائی کورٹ نے ان چارو ں پولس والوں کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف انکوائری کا بھی حکم دیا تھا لہذا اگر پولس کمشنر کو انہیں ملازمت پر لینا ہی تھا تو پہلے ممبئی ہائی کورٹ سے اجازت لینی چاہے تھی لیکن انہوں نے ایسا نہ کرکے عدالت کے حکم کی خلاف وزری کی ہے جو توہین عدالت ہے ۔
مہیر دیسائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ انصاف کا تقاضہ ہیکہ پولس والوں کو فورا ملازمت سے علیحدہ کیا جائے اور ان کے خلاف قائم مقدمہ کو جلد از جلد مکمل کئیے جانے کے ساتھ ساتھ خواجہ یونس کی والدہ کو ایک لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جائے ۔
ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن پر سماعت ہونے کے بعد جمعیۃعلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزا ر اعظمی نے کہا کہ ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے نوٹس کا کوئی بھی جواب موصول نہ ہونے پر ہم نے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ممبئی پولس کمشنر نے چاروں پولس والوں کو ملازمت پر دوبارہ لیکر عدالت کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی ہے جو توہین عدالت ہے ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کو ملازمت پر لے لیا گیا ہے جبکہ سی آئی ڈی نے ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی او ر فاسٹ ٹریک عدالت میں چلنے والے اس مقدمہ میں ابتک صرف ایک گواہ کی گواہی عمل میں آئی ہے ایسے میں ان پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی فیملی سمیت انصاف پسند عوام کو صدمہ پہنچا ہے جس کے خلاف جمعیۃ علماء ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی ہے اور یہ خوش آئند بات ہیکہ عدالت نے ہماری پیٹشن کو سماعت کے لئیے قبول کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے ۔
واضح رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد ان پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو زیر سماعت ہے ۔