شہرِ طرب اور دیارِ شوق کا ایک صدی کا سفر 

پروفیسر اختر الواسع

۲۰۲۰؁ء کے اواخر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنے قیام اور علمی سفر کے سو سال پورے کر لیں گی۔ اگرچہ علی گڑھ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تمام عالمِ اسلام میں جدید اور سیکولر تعلیم کا پہلا ادارہ ۲۴ مئی ۱۸۵۷؁ء کو وہیں جیل روڈ پر واقع سمیع منزل کے گیراج میں پانچ طلبہ کے ساتھ شروع ہو ا اور فروری ۱۸۷۷؁ء کو ایم © © © اے او کالج کی صورت میں اپنی شناخت قائم کر لیا۔ مسلمانانِ ہند کی شب و روز کی کوششوں اور محنت سے دسمبر ۱۹۲۰؁ء میں اسے امپیریل لجسلیٹو کونسل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ عطا کیا۔

اس سے قبل کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجود میں آتی ملک میں عدم تعاون اورخلافت کی تحریک کے زیر سایہ ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰؁ء کو جمعہ کے مبارک دن مہاتما گاندھی کے آشیرواد اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کی دعاؤں، مولانا محمدعلی جوہر کے جذبۂ صادق، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور اے ایم خواجہ کی ایثار پیشگی اور نوجوان ڈاکٹر ذاکر حسین کی وارفتگیِ شوق کے نتیجے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا جنم ہوا۔ جامعہ کا وہ سفر جو علی گڑھ کی سر زمین پر خیموں میں شروع ہوا۔ ۱۹۲۵؁ء میں قرول باغ میں کرایے کے مکانوں سے ہوتا ہوا آج جنوبی دہلی میں جمنا کے کنارے واقع اوکھلا میں ایک شاندار مرکزی یونیورسٹی کے کیمپس کی شکل میں ساری دنیا میں نہ کہ صرف اپنی منفرد پہچان بنا چکا ہے بلکہ کنارِ موج میں آسودگیِ ساحل کی سوچ کے نتیجے میں نئی علمی رفعتیں اور بلندیاں سرکررہا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کے صبرو استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے۔ کچھ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہی علی گڑھ تحریک سمجھ لیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ تحریک کا ثمرہ ہے۔ علی گڑھ کے پیرِ دانا سر سید اور ان کے اولو العزم رفقاء جیسے محسن الملک، و قار الملک، مولانا الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، چراغ علی اور ذکاءاللہ نے اپنے فکر و عمل سے ہندوستانی مسلمانوں بلکہ جنوبی ایشیاءکے مسلمانوں کی زندگی کے ہر میدان میں معروضیت، عقلیت پسندی، دانشوری اور جدیدیت کی صالح اقدار کے وہ چراغ روشن کیے جن سے مذہب، زبان ، ادب ، سیاست ، سماج، تہذیب اور ثقافت کا ہرگوشہ منور ہوا۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا مقصد و منہج یہ تھا کہ وہاں سے ایسے ماہرین فن نکلیں جن کے ایک ہاتھ میں فلسفہ تو دوسرے میں سائنس اور سر پر کلمۂ طیبہ کا تاج ہو۔ ان کی نگاہ آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج پر ہو، جو نہ تو مشرق سے گریزاں ہو نہ مغرب سے بیزار ۔ جو نہ تو آئینِ نو سے خائف ہوں نہ طرزِ کہن کے اسیر۔ علی گڑھ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ یہاں سے اٹھنے والی ہر بادِ بہاری کی گلکاریاں ہمیں آج ساری دنیا میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا مقصد اگر ایک طرف انگریزی سامراج سے ملک کی آزادی کی جد وجہد کے پہلے مرحلے میں اپنے نظامِ تعلیم کو غیر ملکی استبداد سے آزاد کرانا تھا تو دوسری طرف تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے نوجوان تیار کرنا تھاجو اسلامیت اور ہندوستانیت کے مثالی نمائندہ بھی ہوں، جن کے لیے شمعِ ہدایت صرف ان کا ضمیر ہو، جوسفر کو دین اور قیام کو کفر جانیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر سید عابد حسین، مولانا محمد اسلم جیراجپوری اور شفیق الرحمن قدوائی جیسے اکابرین کی قیادت میں توکل و استغنا اور صبر و ثبات کے ساتھ ان منزلوں کو سر بھی کیا اور صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے نچلے متوسط اور غریب گھرانے کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو اپنا منشورِ حیات بنایا۔

علی گڑھ اور جامعہ کی دوریاں وقت کے ساتھ قربتوں میں بدلتی گئیں۔ آزادی کے بعد علی گڑھ کا باغی ذاکر حسین اس کی مسیحائی کے لیے آگے آیا۔ اسی طرح ذاکر صاحب اور مجیب صاحب کے بعد ۱۹۷۳؁ء سے تا حال جامعہ کے گیارہ میں سے ۶، وائس چانسلر علی گڑھ کے ہی پروردہ رہے ہیں۔ اب کل کی دوریاں آج ایک صحت مند علمی و تحقیقی مسابقت میں سامنے آرہی ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے ۔خوب سے خوب تر کی تلاش علی گڑھ اور جامعہ دونوں کے لیے ہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور ہندوستان کے تعلیمی نقشے میں اپنی ساکھ بنانے اور اہمیت منوانے کے لیے ناگزیر بھی۔ ایک ایسی دنیا میں جو عالمی گاؤں بن چکی ہے جب نقل و حمل کے ذرائع کی ترقی نے زمین کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔ جدید ذرائع اِبلاغ نے فراق و فصل کے تمام تصورات کو بے معنیٰ بنا دیا ہے ۔ دنیا کل سے زیادہ آج خوب سے خوب تر کی تلاش میں منہمک ہے توانہیں بھی علم و عرفان کی نئی فضاؤں کی دریافت کرنی ہوگی۔

آج، کل کی طرح محض ڈگری فضیلت کی بنیاد نہیں ہو سکتی بلکہ ہر لحظہ طور اور نئی برقِ تجلیٰ ہی آپ کو ممتاز بنا سکتی ہے۔اس لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو این آئی آر ایف رینکنگ میں دسواں مقام حاصل ہوا ہے۔ جامعہ نے لندن کے ٹائمز ہائر ایجو کیشن میں بھی اپنے قیام کی اس صدی سال میں دسویں پائیدان پر اپنی جگہ بنا لی ہے جس کے لیے جامعہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر، جو کہ ہندوستان میں کسی بھی مرکزی یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں، اور ممتاز ماہر تعلیم بھی ہیں ہماری مبارکباد کی مستحق ہیں اور ساتھ میں جامعہ برادری کے تمام ارکان جن میں اساتذہ، کارکنان ، ریسرچ اسکالرز اور طلباء و طالبات شامل ہیں وہ بھی ستائش اور تہنیت کے پوری طرح حقدار ہیں کیوں کہ یہ ان کی محنت ، دیدہ وری اور عرق ریزی ہے جس نے جامعہ کو یہ مبارک دن دکھایا ۔لیکن اب جامعہ والوں کو اس پرہی مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے کیوں کہ :

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہےں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رینکنگ کی اس ریس میں کچھ پچھڑ گئی ہے لیکن جیسا کہ اس کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ،جو ایک علمی گھرانے کے فرزند ، نامور استاذ اور ممتاز و ماہر سرجن ہیں، نے نیشنل بورڈ آف ایکری ڈی ایشن کے ممبر سکریٹری کو خط لکھا ہے اور یونیورسٹی کی فراہم کی ہوئی معلومات اور حقائق کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی ہے۔ امید ہے کہ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی رینکنگ میں بہتری آئے گی۔ خوشی کی بات ہے کہ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لائف سائنسز نمبر ایک پر ہے ۔اس لیے ہماری یہ خواہش بھی بیجا نہیں کہ اور فیکلٹیاں اس مقام تک کیوں نہ پہنچیں ؟ ہمارے لیے مزیدخوشی کا دن وہ ہوگا جب ہندوستان میں یونیورسٹیوں میں اوّلیت کا مقابلہ علی گڑھ اور جامعہ میں ہو گا کیوں کہ یہ امتیازی پہلو بقول پروفیسر طارق منصور صاحب کے جیسا کہ انہوں نے مذکورہ بالا خط میں خود لکھا ہے کہ یونیورسٹیوں کے فارغین کے لیے بہتر ملازمتوں کے دروازے کھولتا ہے۔ اسی سے یونیورسٹیوں کو وسائل کی فراہمی میں سہولت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں تعمیر و ترقی کے مزید امکانات پیدا ہوتے ہیں اور ساتھ میں ان اداروں کی طرف طلبا و طالبات راغب بھی ہوتے ہیں۔

آج جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک صدی کا سفر پورا کرنے جا رہے ہیں، ہمیں مرکزی حکومت سے پرزور طریقہ سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان دونوں اداروں کو دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات ۹۲،۰۳ کے تحت اقلیتی ادارہ تسلیم کرکے خیر سگالی، وسعتِ قلبی، کشادہ ذہنی کا مظاہرہ کرے۔ موجودہ مودی سرکار کو ان غلطیوں کو نہ تو دہرانا چاہیے اور نہ ان پر اصرار کرنا چاہئے جن کا ارتکاب کانگریس اور دیگر سابقہ حکومتیں ان دونوں اداروں کے سلسلہ میںمستقل کرتی آئی ہیں۔ اگر آپ علی گڑھ اور جامعہ کی صورت میں دو مرکزی یونیورسٹیوں کو اقلیتی ادارہ قرار دے دیں تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا بلکہ یہ دستور کی پاسداری ہوگی۔ اور اس سے مسلمانوں میں اعتماد و اعتبار کی ایک نئی شروعات ہوگی :

مانیں نہ مانیں اس کا ہے آپ کو اختیار

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے پریسیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں